فتح مبین

اندرون سندھ کی تاریخ ساز سرگرمیوں کی چشم دید رپورٹ

قومی طبی کونسل کے25جولائی 2021ء کے انتخابات کی وجہ سے ملک بھرکے اطباء میں خوب جوش و خروش پایا جاتا ہے جو اس فن کے ساتھ وابستگی اور اس کی ترویج و ترقی کے لئے تڑپ کاآئینہ دار ہے۔مختلف طبی تنظیموں کے باہمی مل کر الیکشن لڑنے کے لئے کئی طبی اتحاد مختلف ناموں سے تشکیل پاچکے ہیں جن میں ظاہری اتحاد کے علاوہ کوئی قدر مشترک موجود نہیں، پاکستان طبی کانفرنس جو کہ حکیم اجمل خاںؒ کا طبی ورثہ ہے ،کسی اتحاد میں شامل ہوئے بغیر پاکستان کے قیام سے لے کر 1965ء ایکٹ کی منظوری تک اور اس کے بعد سے اب تک طب اور اطباء کے لئے بے لوث اور مثبت تاریخ ساز کردار ادا کررہی ہے ۔

پاکستان طبی کانفرنس اپنی کارکردگی اور ملک گیر تنظیم ہونے کی وجہ سے تنہا یہ توقع رکھتی ہے کہ اطباء کی کثیر تعداداس کے قابل تعریف ماضی اور شان دار مستقبل کے باعث اس جماعت کو ووٹ دیں گے ۔ اس کے کارکن اور قیادت ملکی سطح پر حکیم اقبال احمد قرشی ، ڈاکٹر زاہد اشرف اور حکیم منصور العزیز کی سربراہی میں جہد ِمسلسل سے اطباء کے دلوں میں گھر کر چکی ہے۔نوجوان قیادت محمد احمد سلیمی اپنی صلاحیتوں کے باوصف اس قیادت میں حسین اضافہ ہے ۔

اندرونِ سندھ کراچی حیدر آباد کے اطباء سے مرکزی قائدین کا براہِ راست رابطہ اور نشست ہائے اساتذہ کی ووٹر استادوں کے ساتھ باہمی ملاقاتوں کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہا تھا۔مرکزی قیادت کے مشورہ اور حکم کے تحت حکیم منصورالعزیز ، حکیم محمد احمد سلیمی ، حکیم سید صابر علی(گجرات) اور کالجوں کے نامزد نمائندوں حکیم شاہد محمود ناز اور حکیم شہزادجاوید پر مشتمل پر 5رکنی وفد8جولائی کو کراچی پہنچا۔ صبح دس بجے کراچی ائیر پورٹ پر اس وفد کو خوش آمدید کہنے کے لئے حکیم مختار احمد برکاتی، حکیم سراج الدین چانڈیو، حکیم سہیل کاظم اور حکیم ولی برکاتی کے ہمراہ دیگر اطباء کی قابل ذکر تعداد موجود تھی۔ خلاف معمول اس شدید گرمی میں ابر آلود آسمان اور دل خوش کن ٹھنڈی ہوائوں نے اس وفد کی فطری پذیرائی کی ۔

اس وفد کو سب سے پہلے حکیم نسیم قاسمی کی طبی درس گاہ میں پذیرائی دی گئی۔

محترم پرنسپل اور سارا سٹاف وفد کا منتظر تھا ۔ برادرم قاسمی جو ہمیشہ دوستوں کو خود سینے سے لگاتے ہیں ، خرابی ٔصحت کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے کہ ان کے مرض کی نوعیت کے تحت ان پر سفر کی پابندی تھی، تاہم ان کی ہدایات پر سٹاف نے ان کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ان کے فرزندخلف الرشید نے وفد کے ارکان کو خود وصول کیا ۔ تمام مہمانوں کو ہار پہنا کر سٹیج پر بٹھایا گیا ۔ سعید نسیم نے اپنی تقریرمیں وفد کو خوش آمدید کہا۔ پروفیسر طبیبہ صائمہ نے اپنے خطاب میں پی ٹی سی امیدواروں کو تعاون کا یقین دلایا ۔پروفیسر نعمان انصاری نے مخصوص اور مؤثر انداز میں آنے والے الیکشن کی اہمیت اور اہل قیادت کے چنائو پر زور دیا ۔ کالجوں کے نمائندوں پروفیسر حکیم شاہد محمود ناز اور پروفیسر حکیم شہزاد جاوید نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ پاکستان طبی کانفرنس کے نمائندوں کے لئے ووٹ مانگنے آئے ہیں۔ کامیابی کی صور ت میں کالجوں اور اساتذہ کے مسائل کو مقدور بھر حل کرنے کا وعدہ کیا ۔ حکیم محمد احمد سلیمی نے گزشتہ کونسل میں کانفرنس کی خدمات اور کامیابیوں سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ سندھ کے جنرل سیکرٹری سراج الدین چانڈیو نے خوش خبری دی کہ صوبہ سندھ ان شاء اللہ ملک بھر میں پاکستان طبی کانفرنس کی کامیابی کے لئے ہر اول دستہ ثابت ہوگا۔ حکیم منصور العزیز نے فاضلانہ انداز میں اس الیکشن کی اہمیت اور پاکستان طبی کانفرنس کی کامیابی کے لئے باہمی تعاون پر زور دیا ۔ باہمی محبت کی اس خوش گوار نشست کے بعد کالج انتظامیہ کی طرف سے پر تکلف چائے کا اہتمام کیا گیا تھا۔

دوپہرایک بجے یہ وفد المجید ایسٹرن میڈیکل کالج مدینۃ الحکمت (ہمدرد) کی طرف سے دی گئی دعوت اور باہمی تبادلہ خیال کے لئے روانہ ہوا۔2:30 کے قریب یہ وفد اس اہم ادارہ کے علمی گہوارہ میں پہنچا۔ شان دار عمارات، پرسکون تعلیمی ماحول، علم وعرفان کے درجنوں شعبے جنگل میں منگل کی مانند ایک ایسے فرد کے خواب کی تعبیر ہے جس کی زندگی کا مشن اور وژن علم اور عمل تھا۔ اس شہید حکیم محمد سعید کو صدیوں زمانہ یاد رکھے گا اور یہ شمع روشن اندھیروں میں لائٹ ٹاور کی حیثیت سے ہمیشہ تابندہ رہے گی۔ ان ہی خیالات میں گم ہم اس ادارہ کے مین گیٹ پر پہنچے۔ ادارہ کے ڈین جناب ڈاکٹر اعجاز محی الدین اور ان کے ساتھیوں نے محبت سے استقبال کیا۔

کانفرنس روم میں حکیم منصور العزیز کی قیادت میں حکیم مختار احمد برکاتی ، حکیم سراج الدین چانڈیو، حکیم محمد احمد سلیمی ، حکیم سید صابر علی ، حکیم شاہد محمود ناز، حکیم شہزاد جاوید نے شرکت کی جبکہ ایسٹرن میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کے وفد کی سربراہی ڈاکٹر اعجاز محی الدین نے کی اور ڈاکٹر رئیس خان ، حکیم سید ظہیر الحسن زیدی ، حکیم شہاب الدین ، حکیم محمد اویس، حکیم ڈاکٹر امجد اجمیری، حکیم اویس خان نے اس میں شرکت کی۔ آئندہ الیکشن کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ کالجز کے نامزد امیدواران نے ووٹوں کی اپیل کی اور کامیابی کی صورت میں اپنے مقاصد کو واضح کیا ۔ مستقبل میں BEMS کے فارغ التحصیل نوجوانوں کی رجسٹریشن اور سرکاری ملازمتوں کے حصول میں پاکستان طبی کانفرنس کی طرف سے اقدامات کے بارے تبادلہ خیال ہوا ۔ ڈیڑھ گھنٹے کی باہمی گفتگو میں آئندہ کے لئے باہمی تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ۔ کا لج کے اساتذہ کی طرف سے وفد کے لئے دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا گیا ۔ بعدازاں وفد نے حکیم محمد سعید شہید کے مرقد پر حاضری دی ، ان کے درجات کی بلندی کی دعا کی گئی اور ان کے مشن کو کامیاب بنانے کا عزم کیا گیا۔ کالج کی طرف سے وفد کے تمام ارکان کو ’’ہمدرد کلاک‘‘ تحفہ دیئے گئے۔

بعد نماز عصر سندھ میں طبیبائوں کے ویمن ونگ کی صدر عائشہ حیدری کی رہائش گاہ پر خواتین کے ساتھ ایک نشست اور چائے کا اہتمام کیا گیا، جس میں سیدہ نور بانو ، فرخ حیدر، طاہرہ عبدالخالق، فہمیدہ مشرف اور فرزانہ کے علاوہ دیگر طبیبائوں نے شرکت کی۔ عائشہ حیدری اور وفد میں شامل طبیب خواتین نے کراچی میں پی ٹی سی خواتین ونگ کی طبی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ۔ حکیم منصور العزیز ، حکیم محمد احمد سلیمی ، حکیم سید صابر علی نے خواتین وفد کا شکریہ ادا کیا ، ان کی طبی خدمات کو سراہا اور پاکستان طبی کانفرنس کے نمائندگان کو کامیاب بنانے کے لئے اپیل کی۔

رات کو پر وقار عشائیہ کا اہتمام حکیم وقار یوسف عظیمی کے ہاں تھا۔ اس ڈنر میں وفد کے ارکان کے علاوہ حکیم سہیل کاظم ، ڈاکٹر پروفیسر امجد اجمیری، ڈاکٹر آصف اقبال ، حکیم ارشاد ایوبی نے بھی شرکت کی۔ حکیم وقار یوسف عظیمی کے اپنے چند دوست بھی اس میں شامل تھے۔ پرتکلف عشائیہ میں بھی شرکاء نے پاکستان طبی کانفرنس کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار اور آئندہ کامیابی کے لئے پر عزم جذبہ ظاہر کیا ۔ رات کے قیام کا اہتمام حکیم مختار احمد برکاتی کے ہاں تھا۔

حیدر آباد کنونشن

9جولائی کو سندھ کے صوبائی صدر جناب حکیم محمد منور شیخ (سابق صدر قومی طبی کونسل) کی زیر نگرانی حیدر آباد میں طبی کنونشن کا اہتمام کیا گیا۔ حکیم سراج الدین چانڈیو جنرل سیکرٹری سندھ کی پرسکون گاڑی وفد کی سفری ضروریات کے لئے وقف تھی ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر ِعظیم دیں۔ راستہ میں ایک مسجد میں نماز جمعہ بھی ادا کی گئی ۔ بعد نماز جمعہ وفد کانفرنس ہال ایجوکیشن سکول پہنچا۔ حیدر آباد کے اطباء نے حسب ِروایت انتہائی محبت اور تپاک سے استقبال کیا ۔ وفد کو سندھ کی روایتی ٹوپی اور اجرک پہنائی گئی۔ شدید گرمی اور سفر کی صعوبت کے باوجود حیدر آباد کے سینکڑوں کی تعداد میں اطباء اور خواتین طبیبائوں کی شرکت نیز سندھ کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے طبی وفود اور طبیہ کالجوں کے اساتذہ کی کثیر تعداد اس بات کا ثبوت تھی کہ حکیم محمد منور شیخ اور ان کے ساتھیوں کے باہمی تعاون نے سندھ بھر میں پاکستان طبی کانفرنس کو قبول عام بنادیا ہے۔ اجلاس سے حکیم سراج الدین چانڈیو، حکیم محمد منور شیخ ، حکیم مختار احمد برکاتی ، حکیم شاہد محمود ناز، حکیم شہزاد جاوید ، حکیم سید صابر علی ، حکیم محمد احمد سلیمی اور حکیم منصور العزیز نے خطاب کیا۔ حکیم منصور العزیز نے صدارتی خطبہ میں کہا کہ پاکستان طبی کانفرنس کی ملک بھر میں کامیابی نوشتہ دیوار ہے۔یہ وفد پیشگی مبارک دینے آیا ہے۔ سندھ سے اٹھنے والی تحریک پورے پاکستان میں کامیابی کی نوید ہے ۔ پروفیسر عزیز، پروفیسر نسیم خاں اور پروفیسر رضوی نے بھی تعاون کا اعلان کیا ۔پروفیسر صغیر خان نے بھی خطاب کیا۔

لاڑکانہ روانگی … لاڑکانہ کا طبی جلسہ

یہ وفد سر شام جناب حکیم سراج الدین چانڈیو کی سربراہی میں لاڑکانہ روانہ ہوا ۔ لاڑکانہ سے بھٹو خاندان کی وجہ سے بہت سے تاریخی حقائق سے آگاہی ملتی ہے ، راستہ میں ایک گروپ نے سیہون شریف میں حضرت شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دی ، وہاں کے حالات پر کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ اولیاء کے مزارات پر توحید کے پرچم کی بجائے جو ہورہا ہے وہ قابل غور اور اصلاح طلب ہے۔ یہاں کی شان دار ، ون وے (یکطرفہ) ا ور عمدہ تعمیر شدہ سڑک اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس شہر کو صوبہ بھر میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔1973ء میں ایک دفعہ لاڑکانہ جانے کا موقع ملا تھا، اس دور اور آج کے لاڑکانہ میں تعمیر و ترقی کے اعتبار سے فرق بہت واضح نظر آتا ہے۔

ہم رات دس بجے لاڑکانہ پہنچے۔ میزبان جناب حکیم سراج الدین چانڈیو کی طرف سے Sambara Inn میں جو کہ کبھی پی آئی اے کا ہوٹل تھامگر اب حکومت سندھ کی ملکیت ہے،ہمارے قیام کے لئے کمرے Bookکرائے گئے تھے ۔نہایت پر تکلف کھانے سے تواضع کی، اللہ تعالیٰ انہیں اجر دیں۔1بجے کے قریب سونے کی کوشش کی ۔ نماز فجر کے بعد اس ہوٹل کے وسیع سبزہ زار میں سیر کا موقع ملا۔ خوب صورت مور نے اپنے پر پھیلا کر خوش گوار ناچ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا ۔ جنگل میں مور تو شاید کسی نے نہ دیکھا ہو ، ہوٹل کے لان کا ناچتا ہوا مور تو ہم نے ضرور دیکھ لیا۔

دوپہر کو نیشنل کالج لاڑکانہ اور مہران طبیہ کالج مورو کے زیر اہتمام علاقہ بھر کے اطباء کا کنونشن تھا ۔نیشنل کالج حکیم سراج الدین چانڈیو، حکیم معین الدین کے والد محترم حکیم دین محمد بلوچ کی طبی خدمات کا تسلسل ہے۔

اس دور افتادہ علاقہ میں اس کالج کا برسوں پہلے قیام بہت بڑی طبی خدمت تھی ۔ اسی طرح مہران طبیہ کالج بھی عزم و ہمت کی بڑی داستان ہے۔ سندھ کے ان علاقوں میں طبی تعلیم کا یہ قابل قدر کام لائق تحسین ہے۔ لاڑکانہ کالج کا یہ ہال اطباء ، اساتذہ اور سرکاری ملازم اطباء سے بھرا ہو ا تھا۔ شدید گرمی کے موسم میں بجلی بند ہونے کے باوجود جواں عزم و جذبوں سے اطباء کا یہ اجلاس اس بات کا ثبوت تھا کہ طبیہ کالجز کے پروفیسرز اور عام اطباء کے دل پاکستان طبی کانفرنس کے لئے دھڑکتے ہیں۔ وفد کی پذیرائی کے لئے دیدۂ دل فرش راہ کئے گئے۔ یہ اطباء تین گھنٹے تک ساری کارروائی میں موجود رہے۔ کالجوں کے دو نمائندہ پروفیسر صاحبان نے طبیہ کالجوں کے پروفیسروں کی طرف سے تعاون پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہاں آکر ہمارا حوصلہ اور بڑھ گیا ہے۔ حکیم سراج الدین چانڈیو نے کلیدی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان طبی کانفرنس کی کامیابی اطباء کی کامیابی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اطباء کے مسائل حل کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے ۔ حکیم محمد احمد سلیمی نے کہا کہ ایک کتابچہ کی صورت میں گزشتہ تین سالوں میں حکومت سے مذاکرات کے بعد حاصل مراعات کو اکٹھا کردیا ہے تاکہ ہر طبیب کسی بھی ناگہانی صورت حال کا مقابلہ کرسکے۔ حکیم سید صابر علی نے کہا کہ سندھ کے عوام کی محبت باب الاسلام اور پاکستان کے دھڑکتے دل کراچی کے تعاون نے ہماری کامیابی کی خوش خبری دی ہے ۔ پروفیسر حکیم منصور العزیز سیکرٹری جنرل پاکستان طبی کانفرنس نے اپنی عالمانہ گفتگو سے حاضرین کے جذبات کو گرمایا ۔ سندھ میں پاکستان طبی کانفرنس کی کامیابی کو اطباء سندھ کا اہم کردار قرار دیتے ہوئے اسے سراہا۔ سینکڑوں کی تعداد میں اطباء کے لئے کئے گئے دوپہر کے کھانے کے اہتمام کو بہت پسند کیا گیا ۔

عصر کے وقت یہ قافلہ براستہ حیدر آباد کراچی کے لئے روانہ ہو گیا ۔ راستہ میں المنصور ہوٹل سیہون شریف کھانا کھایا ۔ رات تاخیر سے پہنچے ۔ رات کو وفد کے اعزاز میں حکیم آصف اقبال کی طرف سے شنواری ہوٹل میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جبکہ قیام حکیم مختار احمد برکاتی کے ہاں ہوا ۔

11جولائی کو چورنگی کے ہوٹل میں 1بجے تا 4بجے اہم اجلاس تھا۔ سندھ طبی کانفر نس کے تحت یہ اہم اور اس سفر کا آخری انتخابی اجلاس تھا۔ سندھ کے صدر حکیم محمد منور شیخ ، جنرل سیکرٹری حکیم سراج الدین چانڈیو اور حکیم مختار احمد برکاتی ،تینوں حضرات سندھ کی طرف سے کانفرنس کے نامزد امیدوار بھی ہیں ،نے دن رات اس کے لئے محنت کی ۔ کانفرنس ہال میں خواتین اطباء کی خاصی تعداد سندھ کی خواتین طبیبائوں کی نمائندگی کے لئے موجود تھی۔ کراچی اور گردو نواح کے علاقوں سے سینکڑوں کی تعداد میں اطباء کی شرکت اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان طبی کانفرنس کراچی اور سندھ کے تمام علاقوں میں یکساں مقبول ہے۔ اجلاس سے مقامی قیادت کے علاوہ وفد کے تمام ارکان نے خطاب کیا۔ اسی طرح اجلاس سے اساتذہ کی نشست کے لئے نامزد اساتذہ کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا۔ حکیم محمد احمد سلیمی نے کامیابی کی صورت میں آئندہ کے لئے پروگرام کا احاطہ کیا ۔ سید صابر علی نے کہا کہ نیشنل کونسل فارطب کا الیکشن نشانِ منزل ہے،ہماری منزل طب و اطباء کے وقار کو بحال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن سے پہلے ترمیم کرتے ہوئے ہم نے خواتین اطباء کے لئے کونسل میں نشست حالات کا تقاضا ہے۔ حکیم منصور العزیز نے پاکستان طبی کانفرنس کے ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے نہایت مؤثر انداز میں گفتگو کی اور اطباء کو باور کرایا کہ ان کا مستقبل پاکستان طبی کانفرنس کی کامیابی میں پنہاں ہے۔ انہوں نے حکیم اقبال احمد قرشی اور ڈاکٹر زاہد اشرف کی قیادت میں حکیم اجمل خاں کا قافلہ کامیابی کی طرف رواں دواں ہے۔

اجلاس کے بعد وفد کو سمندر کی سیاحت کرائی گئی ۔ رات 8بجے فضائی پرواز سے یہ قافلہ کامیابی کی نوید لے کر لاہور واپس لوٹا اور وہیں سے اگلی صبح ملتان کے طے شدہ جلسہ میں شرکت کے لئے روانہ ہوگیا۔

حکیم سید صابر علی

٭…٭…٭

معرکہ فتح مبین کا ایک اہم سنگ میل
Tagged on:                             

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *