
نظامِ تنفس (سانس کے نظام) کے لئے خاص اعضاء پھیپھڑے ہیں، جو تعداد میں دو ہیں۔بایاں پھیپھڑا دائیں پھیپھڑے کی نسبت چھوٹا ہے کیوں کہ بائیں جانب دل کا زیادہ حصہ ہے۔ پھیپھڑے اضلاع کے نیچے اورحجابِ حاجز کے اوپر پائے جاتے ہیں، نیز اس حجابِ حاجز کی حرکت سے ہی پھیپھڑوں کو معاونت ملتی ہے، یعنی سانس اندر داخل کرتے وقت حجابِ حاجز چپٹا ہو جاتا ہے اور باہر نکالتے وقت حجابِ حاجز گنبد نما شکل اختیار کر لیتا ہے۔پھیپھڑوں میں اعصابی نظام پشت سے نکلنے والے اعصاب سے داخل ہوتا ہے۔ان اعصاب میں اعصابِ مشارکی اور غیر مشارکی(Sypathetic & Parasympathetic)پائے جاتے ہیں۔اگر مشارکی اعصابی نظام کسی وجہ سے مثلًا خوف کے وقت ، کسی دوا کے نتیجے میں یا کچھ غذائوں کے استعمال سے بڑھ جائے تو پھیپھڑوں میں موجود عروق خشنہ پھیل جاتی ہیں اور ان میں طبعاً پائی جانے والی رطوبت کم ہوجاتی ہے، مگر سانس بآسانی آتی ہے اور ہوائے نسیم خوب جذب ہوجاتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے اعصابی نظام غیر مشارکی بڑھ جائے تو عروقِ خشنہ میں رطوبت بڑھ جاتی ہے اور یہ سکڑنے لگتی ہیں، اس سے تنگی ٔ تنفس ، دمہ، کھانسی وغیرہ جیسی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔
عروقِ خشنہ دراصل ہوائی نالیوں کی بڑھوتڑی( ایکس ٹینشن) ہے۔ یہ ہوائی نالی سینے کی ہڈی( عظم القص) کے پیچھے سے گزرتی ہے اور پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے ، پھر اس کی شاخیں ہوجاتی ہیں بڑی نالیوں کو قصبی نالیاںکہتے ہیں اور ان نالیوں سے نکلنے والی بال برابر شاخوں کو عروق خشنہ کہتے ہیں۔ کیونکہ عروقِ خشنہ بال جیسی باریک ہیں، اسی لیے ان کے سکڑنے سے تنگی ٔتنفس پیدا ہوجاتی ہے۔
عروقِ خشنہ کے بعد ہوائی کیسے پائے جاتے ہیں، یہاں خون کی شریانیں اور وریدیں ہیں۔ ان کی ایک ہی باریک سی تہہ ہے، یہاں ہوائے نسیم اور کاربن ڈائی آکسائیڈکا تبادلہ ہوتا ہے۔ نیز ہوائی کیسوں کی دیوار اس قدر باریک ہوتی ہے کہ اگر سانس میں زیادہ خراش پیدا کرنے والا مواد داخل ہوجائے تو پھٹ جاتی ہیں، اکثر تمباکونوشی کرنے والے اس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں، نمونیے کی کیفیت میں یا کسی اور وجہ سے اگر جراثیم ہوائی کیسوں میں پہنچ جائیں تو بھی ہوائی کیسے پھٹ جاتے ہیں۔
پھیپھڑوں کی صحت کا خیال کیسے رکھیں؟
قدیم حکما ء کے نزدیک پھیپھڑا ایک ایسا عضو ہے کہ رطوبت سے تر رہتا ہے۔ نچلی جانب معدے کے بخارات میں جو گرم تر مزاج کے حامل ہیں اور اوپر کی طرف دماغ ہے، جس کا مزاج سرد تر ہے، اگر اس کیفیت میں تبدیلی آجائے تو انسان کی طبیعت میں ضرر پہنچتا ہے، مثلًا زیادہ سردی اور تراوٹ آئے یا نزلہ زکام ایک حد سے بڑھ جائے توچڑچڑا پن وغیرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر ایک صحت مند آدمی میں باقی جسم کے نسبت دماغ سرد تر ہی رہتا ہے۔پھیپھڑے میں اگر یہ رطوبت جو اس پر شبنم کے قطروں کی مانند بکھری رہتی ہے، میں گاڑھا پن آجائے تو کھانسی، دمہ اور تنگی ٔتنفس لاحق ہوتا ہے، لہٰذا ہفتے بھر میں ایسی خوراک ایک بار ضرور استعمال کریں جو دافع ورم ہو ، کیونکہ ورم جب ہوتا ہے تو طبعاً نمک کی مقدار اس مقام پر بڑھ جاتی ہے۔سوڈیم کا کام پانی کو جذب کرنا ہے لہٰذا یہ رطوبت گا ڑھی ہوجاتی ہے، دافع ورم اشیاء میںپوٹاشیم زیادہ ہوتا ہے جو ورم دور کرنے کے علاوہ سوڈیم کی مقدار بھی کم کردیتا ہے۔
صبح کی سیر( جب موسم آلودگی سے پاک ہو تا ہے) ضرور کرنی چاہیے کیونکہ جب پھیپھڑوں میں تازہ ہوا داخل ہوتی ہے تو ان میں موجود کئی کیمیکل سے ردعمل کر کے انہیں پانی میں تبدیل کردیتی ہے، مثلًا ماحولیاتی آلودگی کے سبب کاربن مونو آکسائیڈ پھیپھڑوں کی تہہ میں جمع رہتی ہے، مگر ہوائے نسیم اس پر ردعمل کرکے اسے کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کردیتی ہے۔یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ وزن میں ہلکی ہوتی ہے اس لیے پھیپھڑوں میں اوپر کی جانب آجاتی ہے اور عمل تنفس میں سانس کے ذریعے باہر نکل آتی ہے ، یوں پھیپھڑے اس زہریلی گیس سے پاک ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح ایسی چیز کی بو جو عام طور پر سفید پتلے کپڑے کو رنگ دے ، نہیں سونگھنی چاہیے، کیوں کہ ایسی بو پھیپھڑوں میں موجودباریک باریک بالوں پر لگ کر اکڑا ئوپیدا کرتی ہیں اور ان کی طبعی حرکت ہلکی ہو جاتی ہے، سونگنے والی دوا بھی دراصل اس لیے دیتے ہیں کہ پھیپھڑوں میں دیر تک چپکی رہے اور اپنا اثر تادیر کرے۔
سبزیوں کا استعمال بہت مفید ہے کیونکہ ان میں پانی کی وافر مقدار ہے، لہٰذا پھیپھڑوں کی رطوبت پتلی رہتی ہے۔ مگر جن افراد کا طبعی مزاج بلغمی ہوتا ہے، ان میںبغیر اصلاح کی گئی سبزیاں سردی اور تری کی کیفیت بڑھا دیتی ہیں، یوں انہیں ریشے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ ایسے مزاج والوں کے لیے بکرے کا گوشت اور پھیپھڑے کھانا زیادہ موزوں ہیں۔ ویدوں کے نزدیک جو عضو جانور کا خوراک میں کھایا جاتا ہے، وہ انسان میں اسی عضو کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
سونے اور جاگنے کے معمولات کا بھی پھیپھڑوں پر گہرا ثر ہوتا ہے۔ حکیم بقراط کے مطابق زیادہ سونا گاڑھا بلغم پیدا کرتا ہے اور زیادہ جاگنا خشکی کا باعث ہے، اسی لیے بلغم کا تدارک کرنے والی اکثر ادویہ سمپے تھیٹک اعصابی نظام کو بیدار کرتی ہیں تاکہ خشکی پیداہو، اس کے نتیجے میں نیند کی کمی بھی پیدا ہوجاتی ہے، یاد رہے کہ حد سے زیادہ سونے والے افراد کا معدہ بھی اس لیے خراب رہتا ہے کہ ان کا پیراسمپے تھیٹک اعصابی نظام چست رہتا ہے جو رطوبت پیدا کرتا ہے اور آنتوں کی حرکت پر اثر کرتا ہے۔
اسٹریس بھی پھیپھڑوں پر برا اثر رکھتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں کارٹی سول ہارمون کا افراز طبیعی افراز سے زیادہ ہوتا ہے جو دل کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ دل اور پھیپھڑوں کا گہرا تعلق ہے۔ جس کا دل لاغر ہو، اس کا پھیپھڑا بیمار رہتا ہے، اکثر دل کے مریض تنگی ٔ تنفس اور ریشے سے تنگ رہتے ہیں، دل عضورئیس ہے اور پھیپھڑے دل کے ہمسائے اور وزیر۔
ڈاکٹر حکیم وقار حسین
٭…٭…٭