رمضان میں ذکر و دعا

روزہ…… اس پوری کائنات اور نفسِ انسانی کے خالق نے مسلمانوں پر اس لئے فرض کیا ہے کہ انسانی نفس میں خواہشات ، شہوات اور شدید جذبات کا جو عنصر رکھا گیا ہے، اس کا زور توڑا جائے اور پاکیزگی ، اعتدال ، اعلیٰ روحانی قدروں کی جانب توجہ کو راسخ کیا جائے اور انسان بتدریج ، اپنے رب کی اطاعت، اس کی بے ریا عبادت اور صبح و شام اس کی رضا حاصل کرنے کی تگ و دَو میں اس انداز سے مصروف رہے کہ یہ طرزِ عمل اس کی طبیعت میں رچ بس جائے او رجب ایک ماہ کی مسلسل تربیت سے وہ ہر کام میں اپنے مالک و آقا کے حکم اور اس کی اجازت کو مرکز و محور بنا لے تو اس کی بقیہ زندگی اسی طرز پر گزرنے لگے۔

روزہ…… رکھنے والا شخص اگر باشعور ہے تو بآسانی اس حقیقت کو پا سکتا ہے کہ جس طرح اس نے کھانے پینے ، سونے جاگنے اور اپنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے میں اپنے رب کو مختارِ مطلق مانا ہے، اس کی پسند و ناپسند کو معیار تسلیم کیا ہے اور اس کی اجازت اور پابندی کو اپنے لئے لازمی قرار دیا ہے، اسی طرح اسے سچ اور جھوٹ ، عدل اور ظلم ، حلال اور حرام ، شرافت اور کمینگی ، شرم و حیا اور بے حیائی و بدکرداری ، مظلوموں کی حمایت اور ظالموں سے تعاون ، اپنے ملک سے وفاداری اور غداری اور اسی طرح کی دوسری قدروں میں سے ان اُمور کو اپنے لئے پسند کرنا اورانہیں اپنا معمول بنانا ہے جنہیں اس کا رب، مالک اور آقا پسند فرماتا ہے اور ان چیزوں سے کلیۃً دستکش ہو جانا ہے جو اس کے مالک کو ناپسند ہیں۔

ایک اہم نتیجہ:

ایسے ہی روزہ دار روزے کے احکام و فرائض انجام دے کر اس حقیقت کو پالیتا ہے کہ خدائے ذوالجلال کی اطاعت و فرما نبرداری ، ہر حال میں ، خلوت میں بھی اور جلوت میں بھی، یکساں اہمیت رکھتی ہے ۔ جس طرح وہ انسانوں کی نگاہوں سے چھپ کر ، سخت بھوک اور پیاس کے باوجود خوراک کا ایک دانہ اور پانی کا ایک قطرہ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتارتا، اسی طرح رات کی تاریکی ، قفل در قفل سے مقفل خلوت خانے اور انسانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہونا ، کبھی بھی ایسے فعل کے ارتکاب پر اسے آمادہ نہیں کر پاتا جو اس کے مالک کی نگاہوں میں بُرا ہے، خواہ اس بُرے فعل سے اسے کتنا ہی فائدہ کیوں نہ حاصل ہو رہا ہو۔

روزہ… ایک ایمانی قوت

روزے کا یہ عمل بجائے خود بے حد طاقت وَر اور نتیجہ خیز عمل ہے لیکن جب اس قوی عمل کے ساتھ ، نوافل، اذکار اور دعائیں ، روزہ دار کا معمول بن جاتی ہیں تو روزے کو ایسا ماحول میسر آجاتا ہے جس سے وہ بہت زیادہ مؤثر اور حیرت انگیز فوائد کا حامل ہو جاتا ہے۔
نوافل ، اذکار اور مسنون دعائوں کا دوسرا نتیجہ اس صورت میں بھی برآمد ہوتا ہے کہ انسانی طبیعت میں سوزوگداز ، اللہ تعالیٰ کی جانب توجہ و انابت اور نیکی قبول کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے، اور جو انوار و برکات روزے سے ظہور پذیر ہوتے ہیں، ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی صلاحیت میں بے بہا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اذکار و نوافل اور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ فیض ترجمان سے منقول دعائوں کا ایک انتہائی محبوب اور مطلوب نتیجہ یہ بھی برآمد ہوتاہے کہ اللہ رب العزت ، ان اذکار و نوافل کو ادا کرنے والے اور انہیں اپنا معمول بنانے والے عبدِ مسلم کو ، اپنے قرب ، اپنے ہاں مقبولیت او ر محبتِ خصوصی سے نوازتے ہیں اور اسے اپنے مقربینِ خاص میں شامل فرما لیتے ہیں۔

ان نتائج و فوائد کی تفصیل کا تو یہ موقعہ نہیں، مگر خود اپنے اور قارئین کے قلوب میں عمل کی شمع کوفروزاں کرنے اور اذکار و دعوات کو معمول بنانے کے داعیہ کو قوی کرنے کے مقصد سے چند آیات اور ایک دو ارشاداتِ رسالتؐ کا حوالہ ناگزیر ہے۔

رب العزت تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَالصَّابِرِیْنَ عَلٰی مَا اَصَابَھُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلوٰۃِ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔(الحج(۲۲):۳۴)

اور خوش خبری سنایئے ہمارے حضور دل سے متوجہ ہونے والے اور نیاز شعار بندوں کو ،جو اس حال میں رہتے ہیں کہ جونہی اللہ کا ذکر ہوتا ہے، ان کے دل خوف سے بھر جاتے ہیں اور یہ لوگ ہر محنت اور مصیبت پر صبرو استقامت کا رویہ اختیار کرتے ہیں، نمازوں کو قائم کرنے والے اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

سورۂ نور میں ارشاد ہوا:

یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِo رِجَالٌ لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکوٰۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُo لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَ ھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنٔ یَّشَآئُ بِغَیْرِحِسَابٍo (النور(۲۴):۳۶۔۳۸)

(عبادت گاہوں میں) صبح اورشام ، اللہ کی تسبیح میں وہ لوگ مشغول رہتے ہیں ، جنہیں تجارت اور ان کے کاروبار اس سے غافل نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ (مشغولیت) انہیں اللہ کے ذکر، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے روکتی ہے۔

انہی ارباب ہمت کے بارے میں فرمایا:

تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَo فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (السجدہ (۳۲):۱۶ـ۔۱۷)

ان کی کروٹیں ، خواب گاہوں سے الگ ہو جاتی ہیں، وہ اپنے رب سے دعائیں کرتے ہیں اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھتے ہوئے اور ہم نے انہیں جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں، تو کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان کے لئے ان کے اعمال کے بدلے ، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپا رکھا ہے۔

انہی کے متعلق ارشاد ہوا:

کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ o وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَoوَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقُّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (الذاریات(۵۱)۱۷۔۱۹)

وہ راتوں میں بہت کم سوتے ہیں، سحری کے وقت وہ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں ،اور ان کے اموال میں ان لوگوں کا حق ہے جو (ضرورت سے مجبور ہو کر) سوال کرتے ہیں اور ان کا حق بھی جو کسی آفت میں مبتلا ہوکر ، اپنے مال سے محروم ہو گئے (یا سوال سے اجتناب کرنے کی وجہ سے بالعموم محرومِ تعاون رہتے ہیں۔)

ان آیات سے دو حقیقتیں واضح ہوئیں ، ایک تو یہ کہ بندگانِ حق شناس کا شرف و امتیاز ، عبادت ، اللہ کا ذکر اوراس کے حضور بکثرت سجدہ ریز ہونا ہے ، ان کی رات کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے ، وہ خلوت میں اپنے مالک و آقا سے مناجات کرتے ، اس سے استغفار کرتے، اس کی حمدو ثنا کے ترانے گاتے اور اس کے حضور عجزو الحاح کا اظہار کرتے اور زاروقطار روتے ہیں

Dکلاس فائر کو بجھانے کے لئے اختیار کئے جانے والے عمل کو شہری دفاع کی اصطلاح میں DCP کہتے ہیں۔

دوسری حقیقت یہ آشکار ہوئی کہ ان کے مالک و آقا نے ان کے لئے وہ وہ مسرتیں محفوظ کر رکھی ہیں،جن کا تصور بھی آج ممکن نہیں ۔وہ اپنے رب سے اتنا کچھ پائیں گے اور انہیں ایسی ایسی انمول نعمتیں عطا فرمائی جائیں گی کہ جب ان نعمتوں کو وہ لوگ دیکھ پائیں گے جو رات بھر سوتے رہے اور دن بھر دنیا کے کام کاج میں مصروف رہے تو یہ لوگ حسرت و اندوہ میں ڈوب جائیں گے اور محرومی ٔاجرو ثواب کا ایسا داغ ان کے دلوں پر لگے گا جس کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔

اسی سلسلے کی چند ایک احادیث بھی سُن لیجئے۔

عرشِ الٰہی کا سایہ:

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: سَبْعَۃٌ یُّظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہٗ: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ رَبِّہٖ، وَرَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ فِیْ الْمَسَاجِدِ وَ رَجُلَانِ تَحَابَّا فِیْ اللّٰہِ اِجْتَمَعَا عَلٰی ذٰلِکَ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ وَرَجُلٌ طَلَبَتْہُ اِمْرَأَۃٌ ذَاتَ مَنْصَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ فَاَخْفٰی حَتّٰی لَا تَعْلَمُ شِمَالُہٗ مَاَ تُنْفِقُ یَمِیْنُہٗ وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ ۔ (بخاری: ۶۶۰)

حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سات اشخاص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن ، اپنے سایہ (رحمت) میں جگہ عطا فرمائے گا ، جس دن اس کے سوا کہیں بھی سایہ نہ ہو گا:

(۱) وہ عادل حکمران و حاکم (۲) وہ جو ان جس کی نشوونما اپنے رب کی عبادت کرتے ہی ہوئی (۳)وہ آدمی جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہے( وہ ہر لمحہ مسجد ہی کی جانب متوجہ رہتا ہے اوراسے وہیں دل کا سرور اور اطمینان میسر آتا ہے)(۴) وہ دو شخص جن میں اللہ ہی کے واسطے سے محبت کا رشتہ استوار ہوا ، وہ اسی پر جمع ہوئے اور اسی پر الگ ہوئے۔(۵) وہ جسے کسی حسب نسب والی حسین و جمیل عورت نے اپنی جانب متوجہ کیا مگر اس شخص نے جواب دیا کہ ’’میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔‘‘ (۶) وہ شخص جس نے صدقہ کیا اور اسے اس قدر چھپایا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔(۷) اور جو شخص تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اوراس کے آنسو بہہ نکلیں۔

ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا گیا ہے کہ:

’’دو آنکھوں پر جہنم کی آگ حرام ہے، ایک وہ جو کفار کے حملوں سے اسلام اور مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے جاگتی ہے، اور دوسری وہ جو اللہ کے خوف سے روئی ہو۔‘‘ (ترمذی:۱۷۴۰)

اللہ رب العزت کا ذکر، مومن کے قلب کی زندگی اور اس کی روح کی بالیدگی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کو یاد کرنے والا شخص ، جو انوار اور برکتیں حاصل کرتا ہے اور جس دل میں ذکرِ الٰہی رچ بس جاتا ہے، اسے جولذت حاصل ہوتی ہے، اس کا تذکرہ ہم ایسے کم سواد اگر کریں تو محض ایک ’’ نقل اتارنا‘‘ ہی ہو گا، خود اللہ رب العزت فرماتے ہیں: فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ، تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔

ایک ارشاد کے ایمان خیز الفاظ یہ ہیں:

فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِیْ نَفْسِیْ۔(بخاری:۷۴۰۵)

جو شخص مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں بھی اسی طرح اسے یاد کرتا ہوں۔

ایک حدیثِ قدسی کے الفاظ ہیں:

اَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِہٖ شَفَتَاہُ ۔ (بخاری:۷۵۲۳)

جب بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر سے ہلتے ہیں تو وہ میری معیت میں ہوتا ہے۔

سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَّذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّاحَفَّتْھُمُ الْمَلَا ئِکَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَنَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَ ذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ (مسلم:۷۰۳۰)

جو لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ، ان پرسکینت وطمانیت نازل ہوتی ہے،ا ور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ان فرشتوں اورمقربین میں کرتے ہیں جو ان کے پاس ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ سے فرمایا:

اُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَاِنَّہٗ رَأْسُ الْاَمْرِکُلِّہٖ وَعَلَیْکَ بِتِلَاوَۃِ الْقُرْآنِ وَذِکْرِاللّٰہِ فَاِنَّہٗ ذِکْرٌ لَّکَ فِیْ السَّمَائِ وَنُوْرٌ لَّکَ فِیْ الْاَرْضِ۔(الجامع الصغیر)

میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ دین کی جڑ اور بنیادہے۔ تم قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کا التزام کرو، یہ آسمانوں میں تمہارے ذکر کا ذریعہ بنے گا اور زمین میں تمہارے لئے نوراور روشنی کا سبب ہو گا۔

عذابِ قبر سے حفاظت کا ذریعہ

ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَا عَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ اَ نْجٰی لَہٗ مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔
(مستدرک حاکم:۱۸۲۵)

اللہ کے ذکر سے بڑھ کر ، انسان کا کوئی عمل ایسا نہیں جواللہ کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہو۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر ، دل کی زندگی اوراس کا سرور و اطمینان ہے۔ ذکر کی کثرت شیطان سے محفوظ رکھنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اللہ کا ذکر دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو اللہ کی محبت کے باعث اس کا ذکر ہوتاہے (یہ وہ ذکر ہے جو’’ فکر‘‘ سے پیدا ہوتا ہے) اور یا کثرتِ یاد سے اللہ کی محبت دل پر چھا جاتی ہے۔ ذکرِ الٰہی قربِ الٰہی کا مؤثر ذریعہ ہے ۔ کثرتِ ذکر سے صفات الٰہیہ پر غوروفکر کی راہیں کشادہ ہو جاتی ہیں۔ اس سے اللہ ذوالجلال کی ہیبت دل پر طاری ہوتی ہے ۔ ذکر کرنے والے اللہ سے غافل نہیں ہوتے۔ ذکر کی کثرت گناہوں کا کفارہ بنتی ہے، ذکرِ الٰہی سے دل میں سوزو گداز پیدا ہوتا ہے۔ ذکر انوارِ الٰہیہ کے حصول کا سب سے مؤثر وسیلہ ہے جن سے دل منور ہوتا ہے۔ انہی انوارِ الٰہیہ سے شعور پیدا ہوتاہے ۔ فکر کو جلا حاصل ہوتی ہے۔ فہم و ذکا میں ترقی ہوتی ہے۔

قلب انسان میں ایک خاص قسم کی قساوت و سختی ہے جس کا علاج ذکر کے سوا کسی بھی چیز سے ممکن نہیں۔ دل کے بعض گوشے ایسے ہیں جنہیں اللہ رب العزت کے ذکر کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ (اَلَابِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ) ذکرِ رب، انسان کے دل کو غنا سے بھر دیتا ہے اور اس کی وجہ سے عبدِمومن ، ماسوٰی اللہ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ذکرِ الٰہی سے ، عبادت کے ذوق میں اضافہ ہوتاہے، اطاعتِ الٰہی کی جانب توجہ بڑھتی ہے، اعمال میں برکت ہوتی ہے، اور جس شخص کی زبان ہر لمحہ ، ذکرِ الٰہی سے تروتازہ رہتی ہے اس کے اوقات ، اس کے کاموں ،اس کی عمر اور اس کی اولاد ، سبھی میں نزولِ رحمت و برکت ہوتا ہے اور اس سے ان کی نفع رسانی کی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

بہر نوع ذکر، نوافل، دعا، یہ سب کے سب، عام حالات میں، دن کے وقت ، رات کے لمحات میں ، جب بھی ممکن ہو، ان کی افادیت مسلم ہے لیکن رمضان مبارک میں ان کے فوائد و اثرات میں بے بہا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ قلبِ مسلم ان کی حلاوت ولذت کو تمام دوسرے دنوں سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔

اسی بنا پررمضان مبارک میں تمام عبادات کی مقدار میں اضافہ ہوجانا چاہیے۔ فرائض کی کیفیت زیادہ راسخ ہو جائے۔ نماز کی رکعتوں کا قیام ، قراء ت ، رکوع اورسجدہ پہلے سے طویل ہو جائیں ، دعائوں کی مقدار بڑھ جائے اور خشوع و خضوع کے حصول کی جدوجہد خوب سے خوب تر ہو جائے۔

نوافل کی رکعتوں میں ، آخری حد استطاعت تک اضافہ ہو جانا چاہیے۔ تہجد ، اشراق، چاشت ، نوافل، تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد ، صلوٰۃ توبہ ، صلوٰۃ الحاجہ اور صلوٰۃ التسبیح کا اہتمام ہو۔ نوافل میں طویل قیام ہو۔ سجدے اور رکوع حتی الامکان لمبے ہوں اور تسبیحات و تہلیلات بکثرت ہوں۔

ذکر و فکر:

اس مقام پر یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ذکر ، محض اس کا نام نہیں ہے کہ زبان سے کلماتِ حمد و ثناء ادا ہوتے رہیں۔ اسلام جس ذکر ِالٰہی کی تلقین کرتا ہے اور کتاب و سنت میں جس ذکر کے فضائل و محامد بیان فرمائے گئے ہیں، یہ ذکر وہ ہے جس کے الفاظ تو زبان سے ادا ہوں لیکن ان کا حقیقی مصدر قلب ہو اور ذہن و دماغ ، اس ذکر کے مفہوم و مدعا ہی کا مرکز نہ ہو، بلکہ ذہن و دماغ نے ایمان ، عقل ، مشاہدے اور استدلال کی قوتوں سے صفاتِ الٰہیہ کا جو شعور حاصل کیا ہو، یہ ذکر اسی شعور کا نتیجہ اور مظہر ہونا چاہیے۔

اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ذکر کی ایک جہت تو یہ ہے کہ قلب نے جو احساسات ، ایمانی تصور و عقیدے سے حاصل کئے اور ذہن نے فہم و شعور سے صفاتِ الٰہیہ کے جو تأثرات اخذ کئے،مطلوب ذکر اسی کا مظہر ہے، لیکن دوسری جہت ذکر کی یہ ہے کہ اس کی کثرت سے ایمانی تصورات مستحکم ہوتے ہیں اور ذہن کا فہم و شعور اس سے ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔

.

بالفاظ دیگر ، ذکرِ الٰہی ، تخم ہے شجرۂ ایمان و شعور کا اور یہ ظاہر ہے کہ ہر تخم حاصل ہوتا ہے درخت کے بار آور ہونے سے ، گویا دونوں میں (ذکر و فکر میں) رشتہ تلازم و التزام ہے، بشرطیکہ ذکر کی بنیاد ایمان ہو، اور اس سے مقصود ، اللہ رب العزت کی رضا کے سوا کوئی دوسری چیز نہ ہو۔

(14رمضان المبارک1385ھ 7جنوری1965ء)

مولاناحکیم عبدالرحیم اشرف ؒ

٭…٭…٭ 

رمضان میں ذکر و دعا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *