لو سے بچائو کی تدابیر

برصغیر میں گرمی پڑنا شروع ہو گئی ہے اور بعض علاقوں میں اس کی شدت بہت زیادہ ہے۔ انڈیا کے مرکزی علاقے سمیت شمالی خطے اور پاکستان کے چند شہروں میں درجہ حرارت 45ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انڈیا میں گرم ترین شہر چورو قرار پایا ہے جہاں محکمہ موسمیات نے گذشتہ ہفتوں کے دوران زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 50.8سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا ہے۔لیکن اتنی شدید گرمی کے باوجود وہاں زندگی کی رفتار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور گلیوں میں خوانچے لگانے والے، ٹریفک پولیس، رکشا ڈرائیور وغیرہ جن کے پاس باہر کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، یہ سب معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔بعض دیہی علاقوں میں مرد اور عورتیں کم از کم اتنا کام کرنے پر مجبور ہیں جس سے ان کو ضرورت کی غذا اور پانی ملتا رہے۔یہاں تک کہ جن افراد کے پاس اپنے گھروں کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی انتظام نہیں، انہیں گھر کے اندر بھی راحت میسر نہیں تھی۔ اب اس شدید گرمی کے اثرات صاف نظر آرہے ہیں۔

خاموش قاتل

سن 2018ء میں دنیا بھر کیمختلف ممالک میں موسمِ گرما میں بہت زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ان میں کچھ مقامات پر تو وہاں کی اوسط سے زیادہ درجہ حرارت تھا۔ مثال کے طور پر برطانیہ، ناروے، سویڈن، مشرقی کینیڈا، مشرقی سائبیریا کے کچھ علاقے، جاپان اور بحیرہِ کیسپین کے علاقوں میں درجہ حرارت ان علاقوں کے اوسط درجہ حرارت سے زیادہ تھا۔ ان میں سے صرف جاپان نے ہزاروں لوگوں کے متاثر ہونے کے بعد گرمی کی اس لہر کو قدرتی آفت قرار دیا تھا تاہم دیگر ممالک میں شدید گرمی ایک خاموش قاتل ہے۔

اگر آپ سیلاب، طوفان یا زلزلے جیسی قدرتی آفت کا شکار ہوں تو اس کا اثر فوری طور پر نظر آتا ہے۔ آسٹریلیا کی نیو سائوتھ ویلز یونیورسٹی کی موسمیاتی تبدیلی کے علوم کی ماہر سارا پرکِن کِرک پیٹرک کہتی ہیں کہ چیزیں بہہ جاتی ہیں، لوگ ڈوب جاتے ہیں، لیکن گرمی کی لہر( لو)ایک خاموش قاتل بن جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حالت گرم اور غریب خطوں میں تو اس سے بھی بدتر ہے۔ طلبہ میں گرمی کے برے اثرات پر تحقیقی کتاب لکھنے والے مصنف جِسنگ پارک کہتے ہیں کہ اب ہر برس امیر ممالک میں بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ (گرمی کی شدت سے)ہلاک ہو رہے ہیں۔

ماضی میں یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں بھی گرمی کی لہروں سے کئی ہلاکتیں ہوئیں ہیں لیکن ہلاکتوں کی تعداد غریب ممالک میں کئی گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایسا ہی انڈیا اور پاکستان جیسے ممالک میں ہو رہا ہے جہاں لو کا چلنا ایک معمول ہے۔ حکام کا دعوی ہے کہ وہ لو کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کے دعوے پر کوئی یقین نہیں کرتا ہے۔

امریکی تحقیقی ادارے رینڈ کے گلریز شاہ اظہر کا کہنا ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں اگر صنعتوں سے گرم ہوائوں کا اخراج جاری رہتا ہے تو جنوبی ایشیا میں گرمی کی لہر میں اس حد تک اضافے کا امکان ہے جو کہ انسان کے برداشت سے کافی زیادہ ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے ملک کا کیا بنے گا، جہاں پانی کی قلت ہے اور بجلی کبھی آتی ہے کبھی نہیں آتی ہے؟

سن2015ء میں جب لو کے چلنے سے 1100افراد ہلاک ہوئے تھے انڈین حکام سے کہا گیا تھا کہ وہ گرم ہوائوں کی لہر سے ایک قدرتی آفت کے طور پر نمٹیں لیکن انڈین حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اب بھی قدرتی آفات کی اس فہرست میں لو یا ہیٹ ویو کو شامل نہیں کیا گیا ہے جس سے متاثر ہونے والوں کو امداد دی جا سکتی ہے۔

لو کے متاثرین

اس وقت کئی اور ممالک میں بھی لو کو قدرتی آفت نہیں قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ہوا کی طرح چلتی ہے اور اس کی تباہی زیادہ نظر نہیں آتی ہے۔ جسنگ کا کہنا ہے کہ اس کو ایک سنجیدہ مسئلہ نہ لینے کی وجہ معاشرے کے مختلف طبقات میں تفاوت بھی ہو سکتی ہے۔اگر آپ کے گھر میں یا آپ کی گاڑی میں ائیر کنڈیشنر لگا ہوا ہے تو شاید آپ دل میں اس خطرناک لو کے متاثرین سے زیادہ ہمدردی پیدا نہ ہو۔

کئی تحقیقی مقالوں میں کہا گیا ہے کہ گرمی کی ایسی لہر جسمانی صحت کے لیے اور دیگر معاملات کے لیے شدید مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ لو کی وجہ سے طلبا کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، دفتروں کے ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ غریب اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو اپنے حالات سے نمٹنے کے لیے بے یار و مدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے۔

گلریز شاہ اظہر کہتے ہیں کہ ایسی گرم ہوائوں کے متاثرین معاشرے کے کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں: بوڑھے، بے گھر، وہ جن کے پاس ائیر کنڈیشنر نہیں ہوتا ہے، جو ہمیں پہلے ہی نظر نہیں آتے ہیں۔اس کے علاوہ اموات کو گننا بھی ایک مسئلہ ہے۔

گلریز اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ماریہ طوفان کی مثال دیتے ہیں جوسن2017ء میں ستمبر کے مہینے میں پیورٹو ریکو کے جزیرے سے ٹکرایا تھا۔ اس طوفان کی تباہی کے کچھ عرصے کے بعد حکومت نے تسلیم کیا کہ 1400سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تعداد پہلے کی سرکاری تعداد سے بیس گنا زیادہ تھی۔ ان ہلاکتوں میں وہ بھی لوگ شامل تھے جو جراثیموں کی وجہ سے ہلاک ہوئے، علاج کی سہولتیں نہ ہونے سے مرے، اور وہ بھی جنھوں نے خودکشیاں کیں۔گلریز شاہ کا کہنا ہے کہ جب لو چلتی ہے تو صرف انھی اموات کو گنا جاتا ہے جو براہ راست گرم ہوائوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس گنتی سے تباہی کی صحیح تصویر نظر نہیں آتی ہے۔

اگر کوئی بوڑھا شخص کسی دل کے مرض کی وجہ سے گرمی میں ہلاک ہو جاتا ہے تو سرکاری اعداد و شمار میں اسے عموماً دل کے مرض سے ہلاک ہونے والے اشخاص کی فہرست میں درج کیا جائے گا۔ حالانکہ بہت ممکن ہے کہ اس کی موت کی وجہ گرم ہوا بنی ہو۔ اس کا کہنا ہے کہ بہر حال اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اموات کو کس طرح گنتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سن 2003ء میں گرمی کی لہر سے یورپ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں اب بھی ایک تنازعہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ کچھ دیگر اندازوں کے مطابق ستر ہزار افراد موت کا شکار ہوئے تھے۔

موسمیاتی تبدیلی کے مطابق طرزِ زندگی بدلنا

لو کے خطرات سے بچنے کے لیے ائیر کنڈیشنر کا استعمال تو سب کے علم میں ہے۔ سنگاپور کے سابق وزیر اعظم لی کوان یو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ائیرکنڈیشنر کا ان کے ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ہے۔ائیر کنڈیشنر انسانی تاریخ کی ایک کلیدی ایجاد ہے۔ اس کے بغیر گرم مرطوب علاقوں میں ترقی نا ممکن ہوتی۔ وزیرِ اعظم بننے کے بعد جو چیز میں نے سب سے پہلے کی تھی وہ یہ تھی کہ جن عمارتوں میں دفتری کام ہوتے تھے ان میں ائیر کنڈیشنرز لگوائے۔لیکن اس میں ایک کڑوی حقیقت بھی ہے: وہ یہ کہ آپ عمارتوں کو اندر سے ٹھنڈا کرنے کے لیے عمارتوں کے باہر گرمی پیدا کرتے ہیں۔

ائیر کنڈیشنرز چلانے کے لیے جو بجلی استعمال ہوتی ہے وہ بھی گیس یا کوئلہ جلانے سے بنتی ہے۔ پھر ائیر کنڈیشنر چلانے میں جو سردی پیدا کرنے والی گیس استعمال کی جاتی ہے یعنی کولینٹ، وہ لیک ہونے کی صورت میں ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہوتی ہیں۔سائنس دان اور ٹیک کمپنیز اب زیادہ مؤثر اور زیادہ بہتر قسم کے ائیر کنڈیشنرز بنانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اس دوران کئی ممالک نقصان دہ اور زہریلی گیسوں کو کم کرنے کے اقدامات لے رہے ہیں۔وہ اب گھر گھر جا کر لوگوں کو چیک کر رہے ہیں، وقت پر خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں، چھتوں پر سفید رنگ لگا رہے ہیں، یہاں تک کہ عمارتوں کا مٹیریل بھی بدل رہے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے اقدامات موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار کے مطابق نہیں ہیں، بلکہ کم ہیں۔

اس وقت کرہ ٔارض پر انسان کی بقا سب بڑا چیلینج ہے۔ اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بد ترین تباہی سے بچنے کے لیے ہم عالمی سطح پر درجہ حرارت میں 1.5سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ ہونے دیں۔ جسنگ کا کہنا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ گرم ہوائوں کی لہر ( لو) کو ایک معمول کی قدرتی گرمی قرار دے کر سمجھتے ہیں کہ اسے برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں انسانی مداخلت کی وجہ سے جن گرم ہوائوں کی لہروں کو ہم دیکھ رہے ہیں، یہ قدرتی نہیں ہیں۔

بڑے بڑے شہری علاقوں میں گرم ترین ہوائوں کے جزیرے بن جانے کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔گرمیوں میں ایک طویل عرصے تک درجہ حرارت میں اضافے، پھر اس میں ہزاروں افراد کے رہنے کی وجہ سے، ایک چھوٹے سے خطے میں لوگوں کے سفر کرنے اوروہاں ائیر کنڈیشنرز کی گرم ہوائوں کے شامل ہونے کے بعد شہر اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ وہ رات بھر میں ٹھنڈے نہیں ہو پاتے ہیں۔

جسنگ کہتے ہیں کہ یہ تمام باتیں اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے مطابق اپنی زندگیوں کو از سرِ نو مرتب کرنے کی ضرورت پر ایک عوامی سطح پر بحث کرنا چاہیے، خاص طور پر دنیا بھر میں معاشرے کے پسماندہ طبقات کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کی ضرورت ہے جو ہماری مداخلت کی وجہ سے ایک تندور بن چکا ہے۔

ایسے میں عالمی ادارۂ صحت اپنی ہدایات میں بتاتاہے کہ کم کھائیں لیکن باقاعدگی سے، پانی باقاعدگی سے پیجئے، الکوحل، کیفین اور چینی سے پرہیز کیجئے۔

گھر پر کمروں کو ٹھنڈا رکھئے، بندکمروں میں نہ بیٹھئے، اگرباہرموسم بہتر ہے تو کھڑکیاں کھول لیجئے۔

گھر سے باہر گرمی سے نمٹنے کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کیجئے۔

اگرزیادہ گرمی ہوتو بے شک کہیں رک جائیے،موسم کی صورت حال پر نظر رکھئے، موسم کی مناسبت سے کپڑوں کا انتخاب کیجئے۔

٭…٭…٭

لو سے بچائو کی تدابیر
Tagged on:                 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *