ڈینگی سے گھبرائیے مت… ہے نا نباتی علاج

پاکستان میں ڈینگی بخار پھر سر اٹھا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوتے ہیں اور سالانہ بیس ہزار سے زائد افراد اس کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے ایک سو کے قریب ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے اڑتیس اقسام کے مچھر ہیں جن میں سے پاکستان میں صرف ایک قسم کا مچھر پایا جاتا ہے۔ ڈینگی بخار کو صرف حفاظتی تدابیر سے روکا جا سکتا ہے۔

پاکستان سمیت ایشیا میں ڈینگی بخار کا خطرہ بڑھ رہا ہے ،ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ایشیا میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسوں کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ،کئی علاقوں میں شدید بارشیں ،سیلاب اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومتوں نے ضروری اقدامات نہ کیے تو ڈینگی بخار سے دنیا کی تقریبا اڑھائی ارب آبادی کو خطرہ لاحق ہے ۔ان سب اعداد و شمار کے باوجود ڈینگی بخار خطرناک اور جان لیوا امراض کے زمرے میں نہیں آتا۔ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس پرقابو پایا جا سکتا ہے۔

ڈینگی وائرس کا باعث بننے والا مچھر

ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بہت نفیس اور صفائی پسند ہے۔ یہ خطرناک مچھر بارش کے صاف پانی ،گھریلو واٹر ٹینک کے آس پاس صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں، گھڑوں ،گلدانوں اور گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتے ہیں، جو گھروں میں عام طور پر سجاوٹ کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ گھر میں جہاں بھی صاف پانی کھلا پڑا ہو وہ ڈینگی پھیلانے والے مچھر کی آماجگاہ ہوگا ۔

یہ مچھر انسان پر طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس بخار کا علم تین سے سات دن کے اندر ہوتا ہے ۔عام سے نزلہ کے ساتھ شروع ہونے والا بخار شدید سر درد ،پٹھوں میں درد اور جسم کے جوڑ جوڑ کو جکڑ کر انسان کو بالکل بے بس کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اس بخار کو ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات جسم کے اوپری حصوں پر سرخ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ نوعیت شدید ہوجائے تو ناک اور منہ سے خون بھی جاری ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ مخصوص حالات میں پیدا ہونے والا انتہائی خطرناک متعدی وائرسی بخار ہے۔

ابتدائی علامات

1۔ تیز بخار۔
2۔سر میں شدید درد۔
3۔ آنکھوں کے ڈھیلوں میں شدید درد۔
4۔ پورے جسم کی ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد۔
5۔ متلی، قے اور بھوک میں کمی۔

بیماری کے حملے کے دوران مریض صدمہ میں جا سکتا ہے۔

بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، پائوں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ،جسم کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر باریک سرخ دانے ابھرتے جاتے ہیں ۔ یہ بیماریAedes Aegypti قسم کے مچھر کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے ۔اس قسم کے مچھر انسان کے قریب قریب شہروں میں ہی رہتے ہیں۔کچھ مچھر ایسے ہوتے ہیں جن کی افزائش تالابوں اور جوہڑوں میں ہوتی ہے جبکہ کچھ اقسام ایسی ہیں جو گھروں کے اندر بھی افزائش کرلیتی ہیں۔ایڈیز قسم کے مچھروں سے تین براعظموں ایشیا، افریقہ اور امریکہ میں یہ وبا پھیلی تھی۔ پاکستان میں 1994ء میں پہلی مرتبہ اس سے متاثرہ مریض دیکھے گئے۔

شدید حملہ

ڈینگی کی بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار، کمزوری، پسینہ آنا اور بلڈ پریشر کم ہو جانا شامل ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جلد کے سارے نظاموں پر اثر کرتا ہے۔ خون کی باریک نالیاں جنہیں عروق شعریہ(Capillaries) کہتے ہیں پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں ،جسم کے جس حصہ پر یہ دھبے ہوں وہ حصہ نمایاں ہوتا ہے۔ اگر یہ بیماری دماغ اور حرام مغز پر اثر انداز ہو تو مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے لیکن زیادہ تر مریض ایک یا ڈیڑھ دن میں بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔بہتری نہ ہونے کی صورت میں بخار، سر درد، پٹھوں، جوڑوں میں درد، بھوک کم لگنا، قے آنا، پسینہ زیادہ آنا اور جسم ٹھنڈا ہو جانا جیسی علامات ہوتی ہیں۔

بعض اوقات مریض کا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، نبض آہستہ آہستہ اور کمزور ہو جاتی ہے ،جلد پر دھبے پڑ جاتے اور جگر بڑھ جاتا ہے۔اگر بیماری دماغ اور حرام مغز پر اثر کرتی ہے تو فالج، بے ہوشی اور لقوہ جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں یا تو مریض کے جسم کا کوئی حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔

اس صورت میں تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کیے جاتے ہیں۔بعض اوقات دماغ اور حرام مغز میں پہنچنے والی بیماری کی تشخیص سی ٹی اور ایم آر آئی سکین سے بھی کی جاتی ہے۔

پہلی سٹیج میں جب وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو مندرجہ ذیل علامات ہوتی ہیں:

1۔ بخار تیزی سے چڑھتا ہے۔
2۔ شدید سردردکے ہمراہ عضلات بدن اور جوڑوں میں بھی دردیں ہوتی ہیں جبکہ کمر میں بھی درد لاحق ہوتا ہے۔
3۔ چہرہ سرخ ہو جاتا اور یہ سرخی جسم کے باقی حصوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔
4۔ آنکھیں بھی سرخ ہو جاتی ہیں اور ان سے پانی بہتا ہے ۔کرۂ چشم کی حرکت سے بھی ان میں درد پیدا ہوتا ہے اورروشنی اچھی نہیں لگتی۔
5۔ گردن میں گلٹیاں بھی نمودار ہوسکتی ہیں اوراکڑائو آ جاتا ہے۔
6۔ نیند نہیں آتی۔

یہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے اور مریض کی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بخار کی شدت اور بدن کا درد ہے۔تین سے چار دنوں میں بخار میں کمی آ جاتی اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے ،اس مرض کا بچائو صرف اور صرف ڈینگی مچھر سے بچائو ہے۔ جہاں جہاں یہ مچھر پیدا ہو تا ہے، وہاں اس کے لیے مچھر مار دوائوں کا استعمال کثرت سے کرنا چاہیے ۔ مارکیٹ میں ایسے تیل بھی دستیاب ہیں جو جسم اور ہاتھوں کے کھلے حصے پر لگانے سے مچھر آپ کو نہیں کاٹتا۔

طب اسلامی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا دوسرا نامDengue Hemorrhagic Fever ہے یعنی وہ بخار جس میں جسم سے خون بھی بہتا ہے جس کا عرف عام نام ڈینگی ہے۔یہ وائرس بھی کئی اقسام کے ہیں۔ اس بیماری کا ایک پھیلائو انسانوںمیں ایک خاص قسم کے مچھر کی وجہ سے ہوتا ہے جب یہ مچھر ایک بیماری میں مبتلا مریض کو کاٹنے کے بعد وہی خون صحت مند شخص کو کاٹ کراس میں منتقل کرتا ہے تو یہ بیماری ان میں بھی پھیل سکتی ہے ۔ یہ مرض عام طور پر دنیا کے گرم مرطوب علاقوں میں ہوتی ہے اس کا پھیلائو ملیریا کی طرح ہے۔یہ زیادہ تر افریقہ، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور انڈیا کے علاوہ مغربی بنگال کے علاقے میں ہوتی ہے۔اس میں خون بہہ جانے کے بعد اس کے اقراص دمویہ(Platelets Cells) بہت کم ہو جاتے ہیں ، اس کی وجہ سے جسم کے بعض حصوں میں خون بہہ سکتا ہے اور جلد کے نیچے خون جم جاتا ہے جس سے سرخ دھبے اور نشانات پڑ جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ بیماری چھ یا سات دن تک رہتی ہے اوربعض دفعہ ایک جان لیوا حالت یعنی Dengue Shock Syndrom کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوران مرض دوبارہ حملہ آور ہو تو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

1- شہد:

شہدڈینگی بخار کے لیے ایک بہترین علاج ہے۔ ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر و رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہیے۔پروپولس(رائل جیلی)جو کہ شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے ایک طاقتور اینٹی وائرل ہے۔ یورپ میں یہ عام دستیاب ہے ،وطن عزیز میں ہم اسے شہد نکالے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوسرا شام اور تیسرا رات دن میں تین مرتبہ چبا کر رس چوس لیں ۔پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی۔ اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

2- وٹامن:

ڈینگی بخار سے متاثرہ افراد وٹامن کے، وٹامن بی اور وٹامن سی سے بھرپور خوراک کا استعمال کریں۔

3- سبزیاں اور چاول:

چاول ،مونگ کی دال، کھچڑی، شلجم، چقندر، گاجر ،گوبھی ،کریلا، انار، سنگترہ، مسمی، میٹھا اور امرود کا استعمال اس مرض میں مبتلا افراد کے لئے مفید غذا ئیں ہیں۔

ڈینگی بخار کا مؤثر علاج:

ڈینگی وائرس پھیلانے والا مادہ مچھر بڑا نفاست پسند ہے اور صاف پانی میں رہتا ہے، صبح طلوع آفتاب کے وقت اور شام کو غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتا ہے۔ زیادہ بڑے گھروں میں رہنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔ ڈینگی وائرس کی روک تھام کے لیے ابھی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی، سائنس دان سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی پیش رفت نارتھ کیرولیناسٹیٹ یونیورسٹی نے کی ہے جس میں خاص بیکٹیریاWolbateria Bacterium کو مادہ مچھر کے جسم میں داخل کیا جائے گا جس سے وہ وائرس آگے منتقل کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔

پپیتے کے پتے:

پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیں۔ پپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے سے Platelets Cellsکی تعداد میں حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ ہم حاملین طب کے مقام و مرتبہ کو کیوں کر فزوں تر کرسکتے ہیں؟ یقینی طور پر اس کا ایک ہی اصول اور ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اہلیت و قابلیت اور کردار ان کی شخصیت کا جزو ِلاینفک بن جائے۔ آپ کو اپنے فن اور اس فن کی مختلف شاخوں پر جس قدر عبور حاصل ہوگا ، آپ کی علمی و عملی استعداد جس قدر بلند درجے کی حامل ہوگی ، آپ کا تجربہ جتنا وسیع ہوگا اور آپ کا اخلاقی وفنی کردار جس قدر ارفع ہوگا ، آپ کا مقام ومرتبہ اسی قدر عروج سے ہمکنار ہوگا۔ آپ کا تعلق اپنے خالق سے جتنا مضبوط ہوگا اور ان کی مخلوق کی ہمدردی و خیر خواہی آپ کے دل میں جس قدر جاگزیں ہوگی، آپ کا ہاتھ اسی قدر ’’شفا بخش ہاتھ‘‘ کا روپ دھار لے گا، اور تب آپ عظیم الشان مناصب اور اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل افراد سے زیادہ معزز و محترم، باوقار گردانے جائیں گے اور بلند تر مقام و مرتبہ کے مالک۔

شربت پپیتہ:

مقامی طور پر ڈینگی کے علاج کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے تحت چلنے والے فلاحی ہسپتالوں میں پپیتہ کے پتوں کے رس میں چند دوسری مفید جڑی بوٹیاں شامل کر کے شربت پپیتہ تیار کیا گیا ہے۔ پپیتہ کے پتے ڈینگی بخار ختم کرنے، جسم میں مدافعت پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں خون کے پلیٹلٹس کی مقدار نارمل رکھنے میں بے حد کارآمد ہیں۔

قدرت نے پپیتہ کے پتوں میں بے پناہ صلاحیت رکھی ہے ۔ ہندوستان میں مچھر دانیوں کو پپیتہ کے پتوں میں بھگو کر تیار کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے پتے بیماری سے بچائو اور علاج کے ساتھ مچھروں کو دور بھگاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جن گھروں کے لانوں میں پپیتہ کے درخت لگے ہوئے ہیں، ڈینگی پھیلانے والے مچھر وہاں سے دور بھاگتے ہیں۔ مزید برآں مچھروں سے بچائو کے لیے پپیتہ کے پتوں سے تیار کردہ Repellentsبھی بنائے گئے ہیں۔

پپیتہ کے پتوں میں ایک انزائم’’ پاپین‘‘ پایا جاتا ہے۔ جس میں 212امائنو ایسڈز ہوتے ہیں۔ یہ انزائم جسم میں داخل ہو کر ڈینگی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جس سے وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وائرس کے ختم ہونے سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار بھی نارمل ہو جاتی ہے۔ امائنو ایسڈ کے علاوہ پپیتہ کے پتوں میں وٹامن اے، سی، ای، کے، بی کمپلیکس اور بی17بھی پایا جاتا ہے۔

ان پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ جسم میں مدافعتی نظام مضبوط ہونے کے باعث جسم میں داخل ہونے والا وائرس زیادہ پیچیدگیاں نہیں پھیلا سکتا۔ اس کے علاوہ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پپیتہ کے پتوں میں موجود ’’پاپین ‘‘میں اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں’’ پاپین ‘‘کا استعمال دوسری بیماریوں، جوڑوں کے درد، السر، جسم میں سوجن اور کینسر کی بیماریوں میں بھی مفید ہوتا ہے۔

ہمیں , Herbal Medicine,Eastern Medicine, Natural Medicine Alternative Medicineپپیتہ کے پتوں میں شامل امائنو ایسڈز، معدنیات اور دوسرے قدرتی اجزاء جسم میں قوت پیدا کرتے اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس میں شامل وٹامن چہرے کی جھریوں کو بھی کم کرتے ہیں۔پپیتہ کے پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل خون میں شامل ہو کر نہ صرف جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں بلکہ خون میں ان کے شامل ہونے سے ایسے اجسام (اینٹی باڈیز) پیدا ہوتے ہیں جو ڈینگی وائرس پر حملہ کرکے اس کو غیر مؤثر بنادیتے ہیں۔

مجرب نسخہ:

کالی مرچ، کلونجی ،چرائتہ ،افسنتین ہر ایک دس گرام باریک پیس لیں۔ تینوں کو اچھی طرح ملا لیں اور ایک گرام دن میں تین مرتبہ صبح، دوپہر اور شام اجوائن و پودینے کے قہوے کے ساتھ ڈینگی بخار کے مریض استعمال کریں۔

ڈاکٹر آصف محمود جاہ

٭…٭…٭

ڈینگی سے گھبرائیے مت… ہے نا نباتی علاج
Tagged on:             

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *