
پچھلے دنوں میں علم طب کے دو عظیم مینار، بزرگی و ولایت کے مجسمے ، اخلاق و شرافت ، وضع داری اور اخوت و محبت کے سرچشمے اس دارفانی سے سے کوچ کرکے اپنے آقا و مالک کی بارگاہ میں جا پہنچے۔ شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی اور مولانا محمد عبداللہ صاحب ( جہانیاں والے) دورِ قدیم کی شرافت و اخلاق کے چلتے پھرتے پیکر تھے۔ دونوں بزرگ علم طب کے مایہ ناز فرزندتھے۔ ایسے فرزند جن پر کوئی فن ناز کرسکتا ہے، ایسی شخصیتیں ،جن کا وجود کسی فن کے لئے باعث برکت ہوتا ہے… ایسی شخصیتیں ، جن کا وجود کسی علم کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے… شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی نہ صرف مایہ ناز طبیب بلکہ تحریک پاکستان کے بے لوث کارکن بھی تھے۔ وہ اولیاء کی سی صفات کے حامل تھے اور ہر طبقے میں بے پناہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ انہیں مفکر پاکستان شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا معالج بننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ شفاء الملک مرحوم نے طب اسلامی کی عظمت و سربلندی اور اس کے عہد عروج رفتہ کو دوبارہ لوٹانے کے لئے اَن تھک اور مسلسل جدوجہد کی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے جس سطح پر ان سے جو کچھ بن سکا، انہوں نے کیا۔ ایک مصنف کی حیثیت سے انہوں نے درجنوں طبی کتب تصنیف کیں،ا ور فن طب کی عظمت کا لوہا منوایا۔ طبی ایکٹ کی منظوری انہی جیسے بزرگوں کی کاوشوں اور محنتوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اطباء کو ان کے حقوق دلوانے کے لئے وہ سب کچھ کیا، جو ان کے بس میں تھا۔ اس سلسلے میں انہیں جو والہانہ تعلق اور شیفتگی تھی، اس کا اندازہ زندگی بھر کی جدوجہد سے لگایا جاسکتا ہے۔ شفاء الملک مرحوم ایک وضع دار شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کا نورانی چہرہ ہر ایک کے لئے محبت و شفقت کے بے پناہ جذبات لئے ہوتا تھا۔ راقم الحروف کو جب بھی ان سے ملنے کا اتفاق ہوا ، نہایت محبت اور شفقت سے پیش آتے۔ اب ان بزرگوں کی یہی خوشگوار یادیں ہمارے لئے مشعل راہ ہوں گی اور ہماری کامیابی کا راز انہی کے نقش قدم پر چلنے میں مضمر ہوگا۔
شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی کی وفات سے دو تین یوم پیشتر ایک عظیم ولی ، بہترین طبیب اور مایہ ناز طبی مصنف مولانا حکیم محمد عبداللہ صاحب کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ گیا ۔ حکیم صاحب موصوف نہ صرف ممتاز طبیب ، بلکہ عظیم طبی مصنف بھی تھے۔ انہوں نے ایک سو سے زائد طبی کتب تصنیف کیں۔ حکیم صاحب اگرچہ کافی عرصہ سے علیل تھے اور پچھلے دنوں وہ طبی معائنے کی غرض سے لائل پور بھی تشریف لائے تھے، پھر بھی ان کی وفات ایک اچانک سانحہ ہے کیونکہ وہ کسی حد تک صحت یاب ہوچکے تھے ۔ ان کی وفات کا سانحہ یوں وقوع پذیر ہوا کہ چند اصحاب ان کے ہاں اکٹھے تھے ، سبھی چائے پینے میں مشغول ہوئے ، تو حکیم صاحب نے فرمایا کہ میں چائے نہیں پیئوں گا، البتہ ایک اور چیز سے آپ کی تواضع کروں گا۔انہوں نے پہلے حمد باری تعالیٰ سنائی اور پھر نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز کیا۔ جب آخری قطعہ پر پہنچے ، جو کچھ یوں تھا ـ ؎
تم ہو ہمارے ہم ہیں تمہارے
ہوگئے اب تووارے نیارے
کہہ او زبان!ہم تم ، تم ہم
صلی اللہ علیہ وسلم !
تو ان کی گردن ایک جانب لڑھک گئی ، ان کے ساتھیوں میں سے ایک نے انہیں سہارا دیا اور انہیں اپنے بازوئوں میں لے لیا۔ حکیم صاحب نے چند ثانیے ان کی جانب دیکھا اور پھر خود ہی انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، اور جان اپنے آقا و مالک کے سپرد کردی۔
حکیم صاحب مرحوم ایک نہایت شفیق بزرگ ، بہترین دوست اور ساتھی ، بہت ہی ملن سار اور نہایت اچھی طبیعت کے مالک تھے، ان کے چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی ۔ وہ ایک عظیم طبیب تھے اور بڑے ولی اللہ بھی ، وہ جسمانی معالج بھی تھے اور اور روحانی بھی۔ جہانیاں میں ان کا مطب مرجع خلائق تھا۔ا ن کا فیض ہر خاص و عام پر ہمیشہ کے لئے جاری رہتا ۔ حکیم صاحب موصوف ملکی اور عالم اسلام کے حالات کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہتے تھے۔ مشرقی پاکستان کو متحد ہ پاکستان سے الگ کردیئے جانے کے بعد وہ باقی ماندہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں قطعاً غیر مطمئن تھے۔ وہ یہ خدشات محسوس کررہے تھے کہ اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کا وجود خطرے میں رہے گا۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے:
’’اے بار الہ ٰ! اگر اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں پر کوئی آفت (خدانخواستہ) نازل ہونے والی ہے تو مجھے اس سے پہلے ہی اپنے ہاں بلا لے……‘‘
اور… اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ہاں بلالیا… لیکن کیوں؟… کیا(خدانخواستہ) حکیم صاحب مرحوم کے خدشات پورے ہوں گے! لاقدراﷲ ذلک۔
بہر حال… حکیم صاحب ایک درد مند دل کے مالک تھے ۔ ان کا دل غمگین ملک کے خطرناک حالات پر خون کے آنسو بہاتا رہا،یہاں تک کہ اپنے آقا کے حضور جا پہنچا۔
حکیم صاحب ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے بے شمار نظمیں اور نعتیں بھی کہیں۔ دوسال پیشتر جب وہ حج کے سعید موقع پر دیارِ مقدسہ گئے تو انہوں نے عالم وجد میں وہاں بے شمار نعتیں سوزو درد میں ڈوب کر کہیں، جن میں اپنی قوم کی بے چارگی و خستہ حالی کا بھی ذکر آتا ہے۔
حکیم صاحب مرحوم کی وفات سے ایک عظیم خلا پیدا ہوگیا ہے،نہ صرف میدان طب میں بلکہ جولانگاہ ِولایت میں بھی کوئی ان کا جانشین نظر نہیں آتا…
حیاتین ج کا خزانہ
سرخ شملہ مرچ میں حیاتین ج (وٹامن سی ) کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے ۔ حیاتین ج اچھی صحت کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اس میں مانع تکسید اجزاء(Antioxidants) بھی پائے جاتے ہیں ۔ مانع تکسید وہ اجزاء ہوتے ہیں، جو غیر ضروری طور پر خلیات(سیلز) کے کاموں میں دخل اندازی کرنے والے کیمیائی مادوں کو روکتے ہیں ۔ سرخ شملہ مرچ میں ہماری روزانہ کی ضرورت سے کئی گنا زیادہ حیاتین ج پائی جاتی ہے۔
اس قحط الرجال کے دور میں بزرگوں کی جدائی تاریکی کے دبیز پردوں کو مزید گہرا کئے جارہی ہے۔ روشنی کی شعاعیں تاریکی میں بدلتی جارہی ہیں۔ علم و فضل کے سوتے انہی بزرگوں کے قدم سے رواں دواں تھے جو اب خشک ہوتے نظر آرہے ہیں۔ شفقت و محبت اور اخلاق کے پیکر ہمارے درمیان سے اٹھتے چلے جارہے ہیںاور آگے کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی ، جو ان بزرگوں کی خصوصیات کا چند فیصد بھی برقرار رکھ سکے۔ ان حالات میں تاریکی نہیں بڑھے گی تو اور کیا ہوگا؟
ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا گو ہیںکہ وہ ان بزرگوں کو ابدی سکون سے نوازیں ۔ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں ۔ ان کے درجات بلند فرمائیں اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازیں۔ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسی شخصیتیں ہم میں پیدا فرمائے ، جو صحیح معنوں میں ان بزرگوں کی جانشین بن کر اسلاف کی یادیں تازہ کردیں، آمین۔
٭…٭…٭