
سرطان الدم(Leukemia) کینسر کی ایک ایسی قسم ہے جو عام طور پر ہڈیوں میں پائے جانے والے گودے (Bone Marrow)میں شروع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے کے طور پر خون میں سفید خلیات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرطان الدم(Leukemia) کو عام زبان میں خون کا سرطان (Blood Cancer) بھی کہا جاتا ہے۔ خون کے سفید خلیات لیوکیمیا(Leukemia) میں مکمل طور پر نشوونما نہیں پاتے اور ان کو شکستی خلیات (Blast Cell)یا دموی خلیات سرطانی (Leukemia cells)کہتے ہیں۔
سرطان الدم(Leukemia) کا مرض ہونے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوا کرتی بلکہ عام طور پر سرطان الدم(Leukemia) کی وجہ کے بارے میں پتہ ہی نہیں چلتا اور جن چند وجوہات کے بارے میں معلومات حاصل ہیں وہ بھی بہت کم سرطان کے بارے میں بتاتی ہیں اور ان پر بھی کسی انسان کو کنٹرول حاصل نہیں ہوتا ۔ سرطان الدم(Leukemia) کی مختلف اقسام کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو تمام اقسام کے سرطان کی طرح سرطان الدم میں بھی خلیے کے جینیاتی مادے (ڈی این اے) میں تبدیلیاں ہی اس کی وجہ بنتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے کینسر کی وجہ بننے والے عوامل پر رکاوٹ دور ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلیے کی موت، تقسیم اور مختلف اقسام میں تفریق ہونے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں خود بخود بھی واقع ہو سکتی ہیں یا تابکاری شعاعوں اور کینسر پیدا کرنے والے کیمیائی مادوں کے زیر اثر بھی سامنے آسکتی ہیں۔ بالغ انسانوں میں سرطان الدم کی بڑی وجوہات میں قدرتی اور مصنوعی تابکاری شعاعیں، کچھ مخصوص وائرسز اور مخصوص کیمیائی مادے شامل ہیں۔ کچھ پٹرول کی مصنوعات اور سر کے بالوں کو رنگنے والے کیمیکلز بھی اس کاباعث بن سکتے ہیں۔
عام غذائوں کا اس دموی سرطان(Leukemia) کے لاحق ہونے میں کوئی خاص اثر نہیں ہے لیکن سبزیوں پھلوں اور سلاد کا زیادہ استعمال حفاظت مہیا کر سکتا ہے۔ اگر حاملہ ماں سرطان الدم کی شکار ہو تو اس کے پیدا ہونے والے بچوں میں سرطان الدم(Leukemia) منتقل ہو سکتا ہے۔ جو خواتین بانجھ پن دور کرنے کے لئے ہارمونز کے لئے کیمیاوی ادویات کا استعمال کرتی ہیں تو ایسی خواتین کے بچوں میں بھی سرطان الدم (Leukemia) ہونے کے امکانات دوسرے بچوں کی نسبت دوگنا ہوتے ہیں۔ کچھ افراد میں یہ بیماری وراثتی طور پر بھی منتقل ہو سکتی ہے۔ اس کا ثبوت کسی خاندان میں مختلف افراد کے اندراس کا پایا جانا ہے اور جڑواں بچوں میں سرطان الدم(Leukemia) پر تحقیق سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ بیماری وراثتی طور پر بھی منتقل ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک خاندان میں خون کے سفید خلیات انسانی جسم میں نظام مدافعت کا نہایت اہم حصہ ہیں۔ اگرچہ سرطان الدم(Leukemia) میں سفید خلیات کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے لیکن یہ ساخت میں نارمل نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہیں کر پاتے نتیجتاً جسم کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے اور مریض تعدیہ کا شکار ہو جاتا ہے۔
گلے کے تعدیہ کے علاوہ ڈائریا سے لے کر شدید نمونیا تک لاحق ہو سکتے ہیں جس سے زندگی کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اگر خون کے سرخ خلیات کی کمی بھی ہو جائے تو مریض کو انیمیا ہو جاتا ہے جس سے اس کو سانس لینے میں دقت ہونے لگتی ہے ان کے علاوہ کچھ اضافی علامات بھی دیکھی جا سکتی ہیں مثلاً بخار، سردی لگنا، رات کو پسینہ آنا، کمزوری ، تھکن ہونا اور فلو جیسی علامات نظر آتی ہیں۔ جگر اور تلی کے بڑھ جانے سے معدے کو بہت کم جگہ ملتی ہے جس سے بھوک نہیں لگتی اور پیٹ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ متلی بھی ہوتی رہتی ہے ان کے نتیجہ میں مریض کا وزن کم ہونے لگتا ہے۔ جب کینسر کے خلیات اعصابی نظام میں اکٹھے ہونے لگتے ہیں تو اس کی وجہ سے دماغ کا نظام خراب ہونے لگتا ہے اور سر درد رہنے لگتا ہے۔ مریض کو جھٹکے لگ سکتے ہیں حتیٰ کہ مریض قومے میں بھی جا سکتا ہے۔
اگر اس کی مختلف اقسام کی انفرادی قسموں پر غور کریں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ حاد لمفاوی سوء ترکیب سرطان الدم بچوں اور 65سال سے بڑے لوگوں میں زیادہ تر پایا جاتا ہے۔ اس کا علاج کیمو تھراپی(Chemo therapy) اور شعاعی علاج(Radio therapy) سے کیا جاتا ہے۔ علاج سے 85فیصد بچوں اور پچاس فیصد عمر رسیدہ افراد میں بہتری آ جاتی ہے جبکہ مزمن لمفاوی سرطان الدم(Chronic Lymphoblastic Leukemia) زیادہ تر 55سال سے زائد عمر کے افراد میں ہوتا ہے۔ نوجوانوں میں اس کی شرح بہت کم ہے جبکہ بچوں میں یہ کبھی نہیں ہوتا۔ متاثرہ افراد میں دو تہائی مرد ہوتے ہیں اس کا عموما ًکوئی علاج نہیں ہو سکتا یعنی یہ لا علاج ہے مگر علاج کروانے سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔
حاد کریات دموی سرطان (Acute Myeloid Leukemia) بچوں کی نسبت بزرگوں اور عورتوں کی نسبت مردوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا علاج کیموتھراپی سے کیا جاتا ہے جبکہ مزمن سرطان کریات دموی زیادہ تر بزرگوں میں ہوتا ہے لیکن بچوں میں بھی یہ بہت تھوڑی تعداد میں دیکھا گیا ہے۔ اس کا علاج بھی علاج بالکیمیاویہ(Chemo therapy) سے کیا جاتا ہے۔ سرطان دموی کے مرض میں علاج بالکیمیاویہ اور شعاعی طرز علاج کے علاوہ باہمی تبدیلی مخ العظام کے ذریعے بھی علاج کیا جاتا ہے۔ سرطان دموی(Leukemia) کی تشخیص کے لئے خون کا مکمل معائنہ اورتخ العظام(Bonemarrow transplant) کا معائنہ بار بار کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ لیو کیمیا کی ایک ہی قسم دیکھی گئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لیو کیمیا وراثتی طور پر بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ پھر یہ بات بھی پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہے کہ جو افراد کسی دوسری جینیاتی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں مثلاً ڈائون سنڈروم(Down Syndrome) یا فیکوانی انیمیا وغیرہ تو ایسے افراد میں لیو کیمیا ہونے کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں۔
سرطان الدم کی چار بڑی اقسام پائی جاتی ہیں پہلی قسم حاد لمفاوی سرطانی سوء ترکیب (Acute Lymphoblastic Leukemia)، دوسری قسم حاد کریات دموی سرطان، تیسری قسم مزمن لمفاوی سرطانی سوء ترکیب (Chronic Lymphoblastic Leukemia) اور چوتھی مزمن سرطان الدم کریات دموی کہلاتی ہے۔ ان چار کے علاوہ کچھ مزید کم معروف اقسام بھی ہوا کرتی ہیں۔ حاداقسام میں نا تمام خلیات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہونے لگتا ہے جبکہ ہڈیوں کے گودے میں نارمل خلیات بہت کم تعداد میں بنتے ہیں۔ حاد سرطان دموی عام طور پر بچوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ سرطان الدم کی کرانک قسم میں جو سفید خلیات پائے جاتے ہیں وہ نسبتاً میچور ہوتے ہیں لیکن ان میں کوئی نہ کوئی ابنارملٹی ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ کرانک قسم کا سرطان الدم نمودار ہونے میں لمبا عرصہ لگتا ہے لیکن اس میں بھی خون کے ابنارمل سفید خلیات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
مزمن سرطان دموی بالخصوس عمر رسیدہ افراد میں ہوتا ہے لیکن عام طور پر ہر عمر میں ہو سکتا ہے ۔اس طرح سرطان دموی کو سفید خلیات کی قسم کے مطابق بھی نام دیا جاتا ہے یعنی اگر خون کے وہ خلیات جو عدویٰ کے خلاف لڑتے ہیں اور قوت مدافعت کے نظام کا حصہ ہیں جن کوکریات لمفاویہ کہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہونے والے سرطان دموی کو لمفاوی سوء ترکیب سرطانی کہتے ہیں جبکہ خون کے دوسرے خلیات یعنی سفید خلیات، سرخ خلیات اور پلیٹ لٹس کی وجہ سے ہونے والے سرطان دموی کو مائی لائیڈ لیو کیمیا کہا جاتا ہے۔
لیو کیمیا(Leukemia) کی علامات اور نشانیاں مندرجہ ذیل ہوا کرتی ہیں۔ اگر بچوں میں دیکھی جائے تو ان میں جلد کا رنگ پیلا ہونا، ہلکی سی چوٹ یا دبائو سے جلد پرنیل پڑ جانا، بخار اور تلی و جگر کا بڑھ جانا پایا جاناہے سرطان دموی(Leukemia) کے مریضوں میں جلد پر ہلکی سی ضرب سے بھی نیل پڑ جانے کی وجہ ان میں اقراص دمویہ(Platelets) کی کمی ہونا ہے کیونکہ ہڈیوں کے گودے میں سفید خلیات بہت بڑی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں۔ اقراص دموی کی پیداوار میں کمی واقع ہو جاتی ہے اوراقراص دمویہ(Platelets) کی کمی سے خون کے جمنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو کر جلد پر نیل پڑنے لگتے ہیں۔ شروع میں خون کا ٹیسٹ کرنے پر سرطان الدم سامنے نہیں آتا جبکہ بعض دفعہ لمفاوی گلٹیوں کی بائی اوپسی بھی کروائی جاتی ہے جبکہ گردوں، جگر اور تلی کو ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے کے لئے خون میں کیمیائی مادوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایکسرے، الٹرا سائونڈ اور ایم آر آئی کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے۔
شاذو نادر سینے میں لمف نوڈز کے متاثر ہونے کو دیکھنے کے لئے سی ٹی سکین بھی کروایا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق 2000میں دنیا بھر میں سرطان الدم کے 2,56,000 کیسز سامنے آئے جن میں سے 2,09000 کی موت سرطان الدم کی وجہ سے ہوئی جبکہ 2010 میں اس سے ہلاک ہونے والے مریضوں کی تعداد دنیا بھرمیں2,81500تھی۔
حسن اتفاق ہے کہ یہ مرض ترقی یافتہ ممالک کے افراد کو زیادہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر نسرین صدیق
٭…٭…٭