
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت صحت ہے۔ انسان سمیت ہر جاندار کو وقتاً فوقتاً طرح طرح کے امراض آ گھیرتے ہیں لیکن پھر شفابھی پرور دگار دے دیتا ہے ۔ یوں اس پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے ۔ انسانوں کو بیمار کرنے والے جرثومے بوجوہ وائرس کے حملہ آور ہونے پر خود بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ پرور دگار نے بے شمار اقسام کی بیماریاں پیدا کررکھی ہیں۔ ان کی وجوہات تو کئی ہیں لیکن ہمارے ارد گرد موجود خورد بینی حیات بالخصوص متعدد امراض کا سبب بنتی ہے۔ جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی طویل فہرست میں انسانی بیماری ٹی بی (T.B) خاص طور سے قابل ذکر ہے ۔ گو کہ یہ بیماری قابل علاج ہے لیکن اس بیماری نے بہت ساری زندگیوں کے چراغ گل بھی کئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے تحت ہر سال 24مارچ کو دنیا بھر میں ٹی بی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ عوام الناس کو اس بیماری کی سنگینی اور اہمیت بارے آگاہی مہیا کی جاسکے۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا کے غریب ممالک میں ہر آٹھ میں سے کم از کم ایک مریض ٹی بی کی وجہ سے مرجاتا ہے ۔ پھر اس مرض کا سبب جراثیم”Tuberculosis Bacillus” ہے جو تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یوں یہ بیماری خصوصی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔سال2015ء میںاس بیماری کی وجہ سے ایک کروڑ سے زائد افراد دنیا بھر میں لقمہ اجل بن گئے ۔ جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق دس کروڑ سے زائد افراد دنیا بھر میں اس بیماری سے متاثر ہوئے۔یوں اس بیماری کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جرمن سائنس دان “Robert Koch” نے 1882ء میں پہلی مرتبہ اس بیماری کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ جس کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ ٹی بی ایک متعدی بیماری (Infectious Disease) ہے جو بیمار سے صحت مند لوگوں تک منتقل ہو جاتی ہے ۔ آج اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے دنیا بھر میں اس بیماری سے جنگ جاری ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا سے اس بیماری کا خاتمہ سال 2025ء تک ہو جائے ۔ یقینا اس مقصد کے حصول کی خاطر اقوام عالم کو اس بیماری کے اسباب ، احتیاطیں اور علاج سے آگاہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ قابل علاج مرض ہے اور اس کا شافی علاج بھی دستیاب ہے۔معالجین کے مطابق ٹی بی دو طرح کی ہے ۔ اول Latent T.B جبکہ دوم Active T.B کہلاتی ہے۔ اول الذکر میں بیکٹیریا جسم میں موجود ہوتا ہے لیکن بیماری کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ جبکہ مؤخر الذکر میں بیکٹیریا متحرک ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے مریض میں ٹی بی کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ دنیا میں ایک ارب لوگوں میں Latent T.B موجود ہے جن میں سے10سے 12فیصد افراد میں یہ بیکٹیریا Active T.B کا باعث بن جاتا ہے۔ خاص کر ایڈز کے مریضوں اور غرباء میں اس بیماری تیزی سے اثرات چھوڑتی ہے ۔ غرباء میں یہ بیماری کے پھیلائو کی وجہ سے کھانے پینے میں بے احتیاطی اور مخصوص بود و باش کے علاوہ متوازن غذا کی شدید کمی بھی ہے ۔ ایسے افراد جو سگریٹ نوشی کے عادی ہیں ان میں بھی اس کے اثرات تیزی سے مرتب ہوتے ہیں۔ یہ مرض اس لئے بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ اس بیماری کا حملہ کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے ۔ نمی والے گھر ، ایسے کمرے میں رہائش پذیری جہاں سورج کی روشنی اور ہوا کا مناسب گزر نہ ہوتا ہو، اندھیرے کمرے اور آلودہ محلے وغیرہ بھی اس بیماری کے پھیلائو کا سبب ہیں۔
علامات
ایک جرثومہ “Mycobacterium Tuberculosis” جو کہ اس بیماری کاسبب ہے۔ یہ مریض کے کھانسنے ، بلغم ، تھوک، چھینک، ہنسنے و قہقہہ لگانے اور باتیں کرنے سے صحت مند آدمی کی طرف حرکت کر جا تا ہے ۔ ایسے افراد جن میں ایڈز کے وائرس HIV کی وجہ سے امیونٹی یا قوت مدافعت کم ہو میں یہ بیکٹیریم زیادہ تیزی سے متحرک ہوتا ہے۔ ٹی بی کے جرثومے انسانی جسم میں داخل ہو کر درج ذیل علامات پیدا کرتے ہیں:
٭ وقفے وقفے سے بلغمی یا خون والی کھانسی۔
٭ جسم کو سردی محسوس ہونا۔
٭ تھکن کا احساس رہنا۔
٭ بخار ہونا۔
٭ وزن اور بھوک میں کمی واقع ہونا۔
٭ بھوک میں کمی۔
٭ اونگھنا اور کمزوری محسو س کرنا وغیرہ۔
گوکہ یہ جرثومہ پھیپھڑوں (Lungs) کو متاثر کرتا ہے ۔ لیکن اس جرثومے میں جسم کے دیگر اعضاء کو متاثر کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ پھیپھڑوں کے علاوہ دیگر حصے اس لیے متاثر ہو جاتے ہیں کہ بیکٹیریم خون میں تیر کر دیگر اعضاء میں پہنچ جاتا ہے، مثلاً:
٭ ٹی بی ہڈیوں کو متاثر کرکے کمر اور جوڑوں (Joints) میں درد کا سبب بنتی ہے۔
٭ ٹی بی دماغ کی جھلی کو متاثر کرتی ہے۔
٭ یہ بیماری جگر اور گردے بھی خراب کردیتی ہے۔ اس کی وجہ سے پیشاب میں خون بھی آسکتا ہے۔
یہ جرثومہ دل کو کمزور کرکے دھڑکن کو بے ترتیب کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درج بالا بیان کردہ علامات میں سے کسی بھی علامت کے ظاہر ہونے پر اپنے معالج سے رابطے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ٹی بی ٹیسٹ (Test) زیرجلد انجکشن لکا کر کیا جاتا ہے ۔ بلغم ٹیسٹ، چھاتی کا ایکسرے ، خون کا ٹیسٹ وغیرہ اس مرض کی تشخیص میں بڑے مدد گار ہیں۔
علاج کی پیچیدگیاں
البتہ اس بیماری کا علاج دھیان سے کروانا چاہیے کیونکہ ٹی بی کی ادویات بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کیا کسی دوائی نے نقصان پہنچایا ہے جو ٹی بی کے علاج کی خاطر دی گئی ہو تو نوٹ کرنا چاہیے کہ درج ذیل علامات موجود ہیں یا نہیں۔ اگر یہ علامات مریض میں ظاہر ہوں تو معالج سے رابطہ کرکے فوراً مطلع کرنا چاہیے تاکہ ان مضر اثرات سے مریض کو محفوظ رکھا جاسکے ۔ علامات کچھ یوں ہیں:
٭گہرے رنگ کا پیشاب آنا۔
٭ مسلسل بخار ہوتے رہنا۔
٭ پیشاب کا پیلا پن۔
٭ تھکن ختم نہ ہونا ۔
٭ بھوک نہ لگنا۔
٭ سر گھومنا یا چکر آنا۔
٭ قے کی شکایت۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مریض کو اپنا علاج بھرپور کروانا چاہیے ۔ علاج کو درمیان میں چھوڑ دینا یا معمولی فائدہ ہونے پر خود کو صحت مند سمجھ لینا انتہائی خطرناک ہے۔ کیونکہ یہ بیکٹیریا بظاہر خاموش ہو جاتا ہے لیکن یہ کبھی بھی جاگ اٹھتا ہے اور زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
احتیاطی تدابیر
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مرض سے کیونکر بچا جا سکتا ہے تو اس کے لیے درج ذیل امور مد نظر رکھنے چاہئیں:
٭ اگر مریض سکول ، کالج یا یونیورسٹی کا طالب علم ہے تو کچھ دن رخصت کرکے باقی افراد کو بچا سکتا ہے۔
٭ کمروں کی کھڑکیاں اور روشن دان کھلے رکھے جائیں تاکہ ہوااور روشنی کا مناسب گزر ہو سکے۔
٭ اگر متاثرہ مقام پر جانا پڑے تو ماسک پہنیں اور اگر مریض خود بھی چہرے کو ماسک سے ڈھانپے رکھے تو زیادہ اچھا ہے۔
٭ مریض کا تولیہ اور کھانے پینے کے برتن علیحدہ رکھے جائیں۔
٭ بوسہ لینے سے گریز کیا جائے۔
٭… بچوں کو T.B کی ویکسین لگوائی جائے۔
٭ ٹی بی کے ماہر معالج سے علاج کروایا جائے۔
ٹی بی کا مرض کوئی نئی بیماری نہیں ہے۔ حضرت انسان پرانے زمانے سے اس سے متاثر ہو تا چلا آرہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس مرض کی وجہ سے 3سے4ہزار سال قبل مصر کی تہذیب کے لوگ مر جاتے تھے۔ برطانیہ کے عجائب گھر میں ایسے حنوط شدہ انسانی اجسام موجود ہیں جو بوجہ ٹی بی ہزاروں سال قبل وفات پاگئے تھے۔چونکہ 24مارچ 1882ء کو اس مرض بارے تحقیقی باتیں سامنے آئیں تو اقوام متحدہ نے “Robert Koch” کے اس کارنامے کی یاد میں دنیا بھر میں اس دن کو منانے کا آغاز کیا ۔ وطن عزیز میں بھی اس مرض میں مبتلا مریضوں کی کمی نہیں اور یقینا اس کی بڑی وجہ غربت ، کمزور معاشی حالات، حفظان صحت کے اصولوں سے انحراف اور طرزبودوباش ہے۔ ہمیں من حیث القوم اس بیماری کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے بتانا ضروری ہے کہ ٹی بی کے بیکٹیریا سے سانپ، چھپکلیاں، گلہریاں ، پرندے وغیرہ بھی محفوظ نہیں ۔ حتیٰ کہ مویشی بھی ان سے محفوظ نہیں۔سال 2015ء میں امریکہ کے ہاتھیوں میں اس بیماری کے بیکٹیریا رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسی طرح نیوزی لینڈ میں ہرنوں کو اس بیماری میں مبتلا ہوتے پایا گیا ہے۔ چنانچہ کوشش کرنی چاہیے کہ چھوٹے بچے گھر کے پالتو جانوروں کا بوسہ لینے سے گریز کریں۔ مناسب احتیاط اور علاج کروانا ضروری ہے ۔ ہم سب کو اللہ تعالیٰ اپنی امان میں رکھے۔(آمین)
ڈاکٹر طارق ریاض