
رمضان المبارک کی مقدس ساعتیں ایک بار پھر ہم پر سایہ فگن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی برکھا ایک مرتبہ پھر ہم پر برس رہی ہیں۔ ان کی برکتوں سے ہم پھر سے مستفید ہورہے ہیں۔ ان کی جانب سے ایک بار پھر جہنم سے آزادی کے پروانے ہمارے ہاتھوں میں تھمائے جارہے ہیں۔ نور کی کرنیں ہمارے من کے اندھیروں کو زائل کرنے میں پھر سے مصروف عمل ہیں۔ شیاطین کو پابند سلاسل کرکے خیر کے سرچشموں سے سیرابی کو پھر سے ہمارے لئے ممکن بنادیا گیا ہے، وہ خیر جس سے شر کی طاقتیں مغلوب ہونے لگتی ہیں اور یوں نیکی اور بھلائی کے راستے پر چلنا آسان تر ہوا جاتا ہے۔ ایسے میں آسمانی صدا ہم سے یوں مخاطب ہوتی ہے:
یَا بَاغِیَ الْخَیْرِ اَقْبِلْ وَ یَا بَاغِیَ الشَّرِّ اَقْصِرْ۔
اے خیر کے طالب! آگے بڑھتا جا، اور اے شر کے چاہنے والے! پسپائی کی راہ اختیار کر۔
رمضان المبارک میں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ ماحول اس الہٰی پکار پر عمل کو بے حد آسان کردیتا ہے ۔ انسان کے اندر ذرا سا داعیہ بھی موجود ہو تو وہ نیکی کے کاموں کی طرف لپک پڑتا ہے اور برائی کے ہر عمل سے اجتناب کو اپنا وطیرہ بنا لیتا ہے۔
اے کاش کہ ہم اسلامی تقویم کے اس مقدس ترین مہینے کی اَن مول ساعتوں سے بھرپور استفادے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ہمیں اس سعادت سے بہرہ وَر کیا ہے کہ ہم اپنی حیاتِ مستعار میں ایک بار پھر اس ماہِ مبارک میں نیکی کے کام سرانجام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کے حق دار بن سکیں تو ہمیں اس کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جانتے ہوئے روزے کے ہدفِ حقیقی… تقویٰ… کو پانے کے لئے اس مقدس مہینے کو اسی طرح گزارنا چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے نبی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے تقاضا کیا ہے۔
ایسا کرنا ہمارے لئے اپنے موجودہ ماحول کی وجہ سے بھی ضروری ہے ۔ ہم اس وقت ایک بدترین عالمی وبا کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں تباہی و بربادی پھیلا رکھی ہے، وہیں وہ اب تک پاکستان میں ہزاروں لوگوں کو مبتلائے آزاراور سینکڑوں کی زندگیاں نگل چکا ہے ۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو ہمیں پلک جھپکنے میں اس وبا سے نجات عطا فرما سکتے ہیں۔ آیئے! ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑاتے ہوئے ان سے اپنے گناہوں کی مغفرت کے طلب گار ہوں، ان سے کئے گئے عہد کو دیدہ دانستہ توڑنے پر ان سے معافی کے خواستگار ہوں ، نہ صرف اپنے انفرادی گناہوں کی بخشش کے لئے ان کی بارگاہ میں آنسو بہائیں بلکہ اپنے اجتماعی معاصی اور مظالم کی معافی بھی صدقِ دل سے مانگیں۔
ان اجتماعی مظالم میں سے ایک ظلم وہ ہے جس کا ارتکاب بدی کے ایک سیاہ دور میں ڈریپ ایکٹ بنا کر اور پھر اس میں طبی دوا سازی کی صنعت کو شامل کرکے کیا گیا ۔ اس ایکٹ کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات نے بالخصوص طبی کاٹیج انڈسٹری کو تباہ و برباد کرکے ہزارہا لوگوں کو ان کے جائز ذریعہ آمدن سے محروم کردیا ۔ کاٹیج انڈسٹری کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ ڈریپ ایکٹ کے تحت بنائے جانے والے یک طرفہ قواعد و ضوابط اور ان کے غیر دانش مندانہ نفاذ نے سینکڑوں طبی دوا ساز اداروں کا قلع قمع کردیا اور یہ غیر منصفانہ عمل ہنوز جاری ہے۔ کئی دہائیوں ہی نہیں ، کئی نسلوں سے اس شعبے سے وابستہ معزز و محترم لوگوں کو بے توقیر کیا گیا ، اس شعبے کے لئے ان کی گراں قدر خدمات کا تمسخر اڑایا گیا اور ان کے بنے بنائے اداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا ۔ یہاں تک کہ وہ ادارے جنہیں ڈریپ کے اصول و قواعد کے تحت ان کے Layout کی منظوری دی گئی ، اور انھوں نے اس کے مطابق کروڑوں روپے لگا کر اپنی صنعت کو ڈریپ ہی کے قوانین کے مطابق ڈھالا، انھیں بعد میں ترمیم شدہ ضوابط کے تحت منظوری دینے سے انکار کردیا گیا ۔ یوں ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو ملیا میٹ کردیا گیا جو سرا سر ظلم اور زیادتی کے مترادف ہے۔
ظلم کی اس داستان کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ طبی صنعت ِدوا سازی کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے جس مشینری سے کام لیا گیا ، اسے نہ طبی طریق علاج سے کوئی آگہی ہے اور نہ ہی طبی دوا سازی کی ابجد سے ۔ بغیر سوچے سمجھے اس صنعت پر مغرب سے درآمد کردہ ایلو پیتھک ضوابط لاگو کردیئے گئے اور یوں سینکڑوں چھوٹے اور درمیانے درجے کے دوا ساز اداروں کا قتل عام کر ڈالا گیا۔
کیا رمضان المبارک کی مقدس و متبرک ساعات اور رحمتوں کے اس مہینے میں کسی کے دل میں اتناخوف ِخدا پیدا ہوگا کہ وہ ان اداروں ہی نہیں ،ان سے وابستہ ہزاروں لاکھوں کارکنوں پر رحم کھائے اور انھیں بھی جینے کا موقعہ دے؟ انھیں اپنے معیار کو بہتر کرنے کی مہلت دے۔ دنیا بھر میں قوانین کا مقصد کسی بھی شعبے کا تحفظ، ترقی اور معیار بندی ہوتاہے ، اسے برباد کرنا نہیں۔
ہماری رائے میں ضرورت اسی امر کی ہے کہ طبی دوا سازی کی صنعت کے لئے قوانین اور اصول وضوابط کی تشکیل اور ان کا نفاذ کرنے کے لئے انتظامی مشینری میں ایسے طبی ماہرین شامل کئے جائیں جو طب اسلامی/ یونانی پر بھی عبور رکھتے ہوں اور اس کے شعبہ دوا سازی پر بھی مکمل دسترس کے حامل ہوں۔ یہی لوگ اس پیشے کی ضروریات اور تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایسے قواعد و ضوابط کا تعین کریں جو طبی دوا سازی کی فلاسفی کے مطابق اس کی معیار بندی کو یقینی بھی بنا سکیں اور جہاں ضرورت ہو، قواعد وضوابط کے تدریجی نفاذ کا اہتمام کرسکیں۔
اللہ کریں کہ ہمارے پالیسی ساز ملک کے عظیم ورثے کی حفاظت ، بقا، ترویج اور بہتر معیار کے لیے مثبت کردار ادا کر پائیں۔
ڈاکٹر زاہد اشرف