طبی ورثے کی حفاظت

طب ہمارے اسلاف کا عظیم ورثہ ہے، ایسا ورثہ جس کی تاریخ ہزار ہا سالوں پر محیط ہے۔ وہ تاریخ جس کا دامن لآلی و جواہر سے لبریز ہے، جس کے ہر ہر ورق پر ستارے جھلملاتے ہیں ، جس کے ہر ہر عہد میں تابناکیا ں بکھرتی ہیں اور ان کی ضوفشانی سے ایک عالم منور ہوتا ہے ، ان ستاروں کی کرنیں، آفاق کی تنویر کا اہتمام کرتی ہیں اور ظلمتوں کو پسپا کرتے ہوئے ہر سو روشنیوں کی حکم رانی کو یقینی بنا دیتی ہیں۔

ہمارے جلیل القدر طبی ورثے کی ترویج و ترقی کے لئے بے شمار عظیم شخصیات نے اپنی زندگیاں کھپا دیں ۔ اپنے شب و روز اسی کے لئے وقف کردیئے ، اپنی حیاتِ مستعار کا ایک ایک لمحہ اسی مقصد کے لئے بتادیا، اور پھر اسی کے نتیجے میں ایسی سربلندی ان کا مقدر بن گئی کہ پوری دنیا نے نہ صرف ان کی عظمتوں کا اعتراف کیا بلکہ وہ ان کی خوشہ چین بن کر رہ گئی ۔ ہمارے عظیم الشان طبی اسلاف نے اپنے کارہائے نمایاں کی بدولت صدیوں تک دنیا پر حکم رانی کی۔ ان کی تحقیقات و ایجادات اور طبی انکشافات نے آج کے یورپ کو بھی مدتوں مبہوت کئے رکھا۔ انھوں نے فن طب میں وہ وہ اضافے کئے کہ ان کے نام افق پر نیر تاباں بن کر آج بھی جگمگا رہے ہیں۔

یہ جگمگاہٹ اس لئے قائم و دائم ہے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی طب کو آفاقی اصولوں پر استوار کیا، فطرتی تقاضوں کے مطابق اس کی آبیاری کی اور قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے پروان چڑھایا ۔ جب تک فطرت کرۂ ارض پر موجود ہے ، جب تک آفاقی نظام ہماری اس سر زمین پر قائم و دائم ہے، ہمارا یہ فن زندہ رہے گا ، اس کے چراغ روشن ہوں گے اور اس کے دیئے برقی قمقموں کی خیرہ کن روشنی میں بھی اپنی ضیاء پاشیوں سے شاہ کارِ فطرت انسان کی راہ نمائی کا فریضہ بجا لاتے رہیں گے۔

کیا آج فطرت کی طرف پلٹتی دنیا اسی حقیقت کی نشان دہی نہیں کررہی کہ تندو تیز آندھیاں کتنی ہی بلا خیز کیوں نہ ہو جائیں ، بادِ صرصر کے تھپیڑے کتنے ہی ناقابل برداشت صورت کیوں نہ اختیار کرلیں ، تندیٔ بادِمخالف کی ہلاکت خیزیاں کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائیں ، مخالفتوں کے سیلاب کتنے ہی منہ زور کیوں نہ ہو جائیں، فطرت سے جڑے طریق علاج کو محرومِ زیست نہیں کیا جاسکتا، اسے زندہ درگور نہیں کیا جاسکتا۔

ہمیں اس یقین سے سرشار رہنا چاہیے کہ ہمارا فن ، فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے باعث ، ہمیشہ زندہ رہے گا ، ان شاء اللہ العزیز، بس ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ ہم جو اس فن کے داعی ہیں ، اس کے علم بردار ہیں ، جن کی شناخت اسی فن سے ہے، جن کا وجود اس کا مرہون منت ہے، وہ اس فن کی حفاظت کے لئے اپنے کاندھوں پر عائد ہونے والی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائیں، اس فن کی عظمت سے اپنے اذہان و قلوب کو منور کریں، اسی کو اپنی پہچان بنائیں ، اس کی دی ہوئی شناخت کو اپنے لئے قابل فخر سمجھیں اور پھر اس فن پر عبور حاصل کرتے ہوئے اس کے مخالفین کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں……

ہمیں اس یقین سے سرشار رہنا چاہیے کہ ہمارا فن ، فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے باعث ، ہمیشہ زندہ رہے گا ، ان شاء اللہ العزیز، بس ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ ہم جو اس فن کے داعی ہیں ، اس کے علم بردار ہیں ، جن کی شناخت اسی فن سے ہے، جن کا وجود اس کا مرہون منت ہے، وہ اس فن کی حفاظت کے لئے اپنے کاندھوں پر عائد ہونے والی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائیں، اس فن کی عظمت سے اپنے اذہان و قلوب کو منور کریں، اسی کو اپنی پہچان بنائیں ، اس کی دی ہوئی شناخت کو اپنے لئے قابل فخر سمجھیں اور پھر اس فن پر عبور حاصل کرتے ہوئے اس کے مخالفین کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں……

آپ کا فن…… آپ کے اسلاف کا طبی ورثہ ……آپ سے یہی تقاضا کرتا ہے۔

زاھد اشرف

٭…٭…٭

طبی ورثے کی حفاظت
Tagged on:                         

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *