الوداع ہوتا رمضان المبارک

یہ سطور رقم کرتے ہوئے وقت رمضان المبارک کی آخری ساعتیں بڑی تیزی سے گزرے جارہی ہیں۔ رحمتوں اور مغفرتوں سے نوازنے اور جہنم سے آزادی کے پروانے ہاتھوں میں تھمانے والا ماہ ِمقدس ہم سے الوداع ہونے کو ہے۔ نہ جانے یہ ماہِ مبارک کس کس کی زندگی میں پھر سے لوٹ کر آئے گا اور کون کون وہ سعادت مند ہوں گے جو آنے والے برس یا برسوں میں بھی اس کی پرانوار راتوں اور بابرکت دنوں سے فیض یاب ہو سکیں گے، اس میں نازل ہونے والی رحمتیں اپنے دامن میں سمیٹ سکیں گے اور اس کی برکتوں سے فیض یاب ہوتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کی کامرانی کا سامان کر پائیں گے؟

نہ جانے کتنے خوش نصیب ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگی کے اس رمضان المبارک کو اس طرح گزارنے کی سعی کی ہوگی جس طرح ہمارا دین ہم سے تقاضا کرتا ہے ، اس کی ساعتوں کو کچھ اس طرح بتایا ہوگا کہ رحمتِ الہٰیہ کی برکھا ان پر چھم چھم برستی رہی ہوگی، برس رہی ہوگی ۔ کتنے ایسے خوش نصیب ہوں گے جنہوں نے اس کے روزے رکھیں ہوں گے اور وہ بھی اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش سے وہ سرتاپا شرابور ہوتے رہے ہوں گے؟ کتنے ایسے پاک باز نفوس ہوں گے جنہوں نے اس کی راتوں میں نازل ہونے والے انوار سے اپنے من کے اندھیروں کو شکست دی ہوگی اور ان سے اپنے ظاہر و باطن کی تنویر کا اہتمام کیا ہوگا؟ کتنے ہی ایسے مقدر کے سکندر ہوں گے جنہوں نے ہزار راتوں سے افضل لیلۃ القدر کو پایا ہوگا اور اس کی سعادتوں سے اپنی روحانی محرومیوں کا مداوا کیا ہوگا؟ یوں اس ماہِ مقدس سے اپنی روح اور جسم دونوں کی طراوت کا اہتمام کیا ہوگا، ان دونوں کی بالیدگی کو اپنا مقدر بنایا ہوگا اور اپنی دنیا وآخرت کو سنوارا ہوگا۔

نہ جانے کتنے خوش نصیب ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگی کے اس رمضان المبارک کو اس طرح گزارنے کی سعی کی ہوگی جس طرح ہمارا دین ہم سے تقاضا کرتا ہے ، اس کی ساعتوں کو کچھ اس طرح بتایا ہوگا کہ رحمتِ الہٰیہ کی برکھا ان پر چھم چھم برستی رہی ہوگی، برس رہی ہوگی ۔ کتنے ایسے خوش نصیب ہوں گے جنہوں نے اس کے روزے رکھیں ہوں گے اور وہ بھی اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش سے وہ سرتاپا شرابور ہوتے رہے ہوں گے؟ کتنے ایسے پاک باز نفوس ہوں گے جنہوں نے اس کی راتوں میں نازل ہونے والے انوار سے اپنے من کے اندھیروں کو شکست دی ہوگی اور ان سے اپنے ظاہر و باطن کی تنویر کا اہتمام کیا ہوگا؟ کتنے ہی ایسے مقدر کے سکندر ہوں گے جنہوں نے ہزار راتوں سے افضل لیلۃ القدر کو پایا ہوگا اور اس کی سعادتوں سے اپنی روحانی محرومیوں کا مداوا کیا ہوگا؟ یوں اس ماہِ مقدس سے اپنی روح اور جسم دونوں کی طراوت کا اہتمام کیا ہوگا، ان دونوں کی بالیدگی کو اپنا مقدر بنایا ہوگا اور اپنی دنیا وآخرت کو سنوارا ہوگا۔

اور پھر ایسے بدبخت بھی ہوں گے جنہوں نے اس ماہِ مبارک کو دیگر مہینوں کی طرح گزاردیا ہوگا۔ ان کے روز مرہ اعمال پر اس کی رحمتوں اور برکتوںکا سایہ تک نہ پڑا ہوگا ۔ان دنوں کی جھلملاتی کرنوں سے ان کی ظلمتوں نے پسپائی اختیار ہی نہیں کی ہو گی۔ اس ماہِ مقدس کی نورانی راتوں میں پھیلنے والی شعاعوں نے ان کے دلوں کے کواڑ پر دستک تک نہ دی ہوگی۔ نہ ان کے من کے اندھیرے سمٹے ہوں گے اور نہ ان کے تن پر خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ شیاطین کے پا بجولاں ہونے کے باوجود ان کے اندورنی شیطان کچھ اور طاقت وَر ہوگئے ہوں گے اور یوں نیکیوں سے ان کابعد کچھ اور بڑھ گیا ہوگا۔

آئیے! ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے اس ماہِ مقدس کو کس طرح گزارا؟ پہلے گروہ کا فرد بن کر ، یا دوسروں طائفے کا حصہ بنتے ہوئے؟ اگر خدانخواستہ ہمارا تعلق دوسرے گروہ سے ہوا تو ہماری دنیا بھی خراب اور آخرت بھی برباد۔

اللہ کریں کہ ہم نے رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں سے مقدور بھر استفادہ کیا ہو۔ اسی صورت میںسرخ روئی ہمارے نصیبے میں لکھی جاسکتی ہے اورہم اس خوش بخت گروہ کا حصہ قرار پاسکتے ہیں جن کا اعمال نامہ روزِ قیامت ان کے داہنے ہاتھ میں تھمایا جائے گا اور شدتِ تپش سے دہکتی زمین پر عرش الٰہی ان پر سایہ فگن ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں شامل فرما لیں۔

٭…٭…٭

الوداع ہوتا رمضان المبارک

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *