اولین ترجیح

اس وقت مہنگائی کا طوفانِ بلا خیز ملک کے غریب اور متوسط طبقے کی زندگی کو ناگفتہ بہ صورت حال سے دو چار کررہا ہے۔ ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ہر نیا دن ان میں اضافے کے نت نئے ریکارڈ قائم کررہاہے۔ صرف بنیادی اشیائے ضرورت ہی نہیں ہر قابل استعمال چیز کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور جا چکی ہیں۔ حالات اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ سفید پوش لوگوں کے لئے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ غربت ، فاقہ کشی اور ناقابل برداشت مہنگائی کے ہاتھوں پورے پورے کنبے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے ان افسوس ناک ، درد ناک اور الم ناک واقعات کا ادراک کرلیجئے، جن کی تفصیلات کسی بھی ذی حس معاشرے کے افراد کے رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ کہیں سربراہ کنبہ اپنے بیوی بچوں کو موت کے گھاٹ اتار کر خود بھی خود کشی کرلیتا ہے ۔ کہیں ماں اپنے جگر گوشوں کو زہریلی گولیاں کھلا کر خود بھی انہیں نگل لیتی ہے۔ کہیں باپ اپنے بچوں کے گلے کاٹ کر خود کو بھی موت کی وادی میں اتار لیتا ہے۔

جس معاشرے میں یہ المیے صرف اس لئے جنم لے رہے ہوں کہ پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے لوگوں کے پاس وسائل نہ رہے ہوں اور نہ ہی حکومت اور اس کے ادارے اس قابل ہوں کہ وہ اپنے عوام کو بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک عادلانہ منصفانہ فلاحی و رفاہی نظام تشکیل دے سکیں، اس میں بھلا انسانی صحت کو برقرار رکھنے اور امراض کے ازالے کو کہاں اہمیت دی جاسکے گی؟ انسانی جان باقی رہے گی تو اس کی صحت کے بارے میں سوچا جاسکے گا۔ اور اگر اس کا سوچ بھی لیا جائے توا س کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مارکیٹ سے دوائیں ناپید ہورہی ہیں۔ بیرون ملک سے درآمدی خام مال کے حصول کے لئے ہمارے خزانے میں ڈالرز باقی نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ ادویات تیار نہیں ہو پارہیں اور مہنگائی کے مارے ہوئے لوگ امراض کی الم ناکیوں کا بھی شکار بن رہے ہیں۔

معاملہ صرف درآمدی خام مال اور اجزاء کا ہی نہیں ، ملک کے اندر اُگنے والی طبی مفردات اور معدنی و حیوانی مفردات بھی ہر روز قیمتوں میں اضافے کا نیا ریکارڈ قائم کررہی ہیں اور یوں وہ طریق علاج جس کی ادویہ کو سستی قرار دیا جاتا تھا ، انہیں سستا رکھنا ممکن نہیں رہا ۔ نایاب اور قیمتی اجزاء تو دسترس سے باہر جا چکے جبکہ عام استعمال کی مفردات بھی ناقابل تصور حد تک گراں ہو چکی ہیں۔ا یسے میں ملک کا مسئلہ صحت آنے والے ماہ و سال میں گھمبیر سے گھمبیر ہوتا چلا جائے گا۔ بیرونِ ملک سے درآمد کی جانے والی تیار ادویات کے ساتھ ساتھ خام مال کی کم یابی یا عدم دستیابی سے مقامی طور پر بنائی جانے والی ادویہ بھی مارکیٹ سے ناپید ہوں گی اور طبی دوا سازی کی صنعت کے لئے ملکی مفردات کی بے پناہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ان کی تیاری کی راہ میں حائل ہوجائیں گی اور اگر بالفرض انہیں جیسے تیسے بنا بھی لیا جائے تو لوگوں میں اتنی سکت کہاں سے آئے گی کہ وہ انہیں خرید کر استعمال میں لا سکیں۔ قوتِ خرید کی ہو ش ربا کمی مقامی صنعت دوا سازی کو شدید پریشانی میں مبتلا کردے گی اور اس کے ساتھ ہی لاکھوں کروڑوں انسان ملک کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کے حوالے سے بھی انتہائی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوجائیں گے۔

ملک اس وقت فوری سیاسی استحکام کا متقاضی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سازشوں کے تانے بانے بننے والی سبھی طاقتیں اپنے دھندے چھوڑ کر اس طرف توجہ کریں اور ملک کے استحکام و بقاء کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں۔

٭…٭…٭

اولین ترجیح

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *