بے موت مرتی طبی صنعت دوا سازی

کسی بھی طریق علاج کے لئے جہاں اس کی تعلیم و تدریس اور تحقیق کے لئے بنائے گئے اداروں اور ان کے معیار کی اہمیت و وقعت ہوتی ہے، وہی اس کی دوا سازی کی صنعت بھی، اس طریق علاج کی بقا، تحفظ اور ترقی کی ضامن ہوا کرتی ہے۔یہ صنعت اس کے اصول و مبادیات اور اساسات کی بنیاد پر جس قدر خالص اور معیاری ادویات فراہم کر پائے گی، یہ طریق علاج اسی قدر، اللہ تعالیٰ کے اذن سے ، امراض کے ازالے اور صحت عامہ کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکے گا۔

ہزار ہا سال کی تاریخ شاہد ہے کہ طب اسلامی و یونانی کی ادویات نے دکھی انسانیت کے آلام و آزار میں کمی اور ان کے خاتمے کے لئے ہر دور میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ چند صدیاں پیشتر تک صرف یہی طب، طبی طریق علاج اس کی ادویات اور ہر علاقے میں وہاں نے مقامی طریق علاج اور صدیوں کے تجربات کی روشنی میں ان کی بنائی گئی ادویہ ہی عالم انسانیت کی شفایابی کا ذریعہ بنتی رہی ہیں، اور آج بھی ان کی یہ حیثیت اور مقام ومرتبہ صحت کے سبھی بین الاقوامی اداروں کے ہاں معتبر و مستند ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر نظام طب کے اپنے ماہرین ہوتے ہیں جو اس کے جملہ فنی و قانونی امور و معاملات میں حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں۔

پاکستان میں رائج طب اسلامی و یونانی کی پشت پر ہزارہا برسوں کی تاریخ موجود ہے، وہ تاریخ جو بڑی تابناک بھی اور شان دار بھی۔ اسی نظام طب نے دنیا بھر میں اپنی عظمت کی دھاک قائم کی ، اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑے اور بلاشبہ پورے عالم انسانیت پر حکم رانی کی۔ ہمارا نظام طب آج بھی اپنی ہزارہا سالہ تاریخ کی تابندہ روایات کا امین بھی ہے اور اس کا نگہبان و پشتیبان بھی۔ سرکاری سطح پر اس کی بقاء، تحفظ اور ترویج کی راہ میں کھڑی کی گئی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود یہ فن اور اس سے وابستہ ادارے آج بھی زندہ ہیں،محض اس لئے کہ یہ فن عالم انسانیت کے لئے افادیت کا حامل ہے، اس کو لاحق ہونے والے امراض کے ازالے میں مؤثر کردار ادا کررہا ہے اور اس کی ادویات دکھی انسانیت کی تکالیف میں کمی اور ان کے خاتمے کے حوالے سے بے پناہ فوائد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں غیر ملکی آقائوں کی پالیسیوں کو جاری و ساری رکھا گیا حالانکہ قائداعظم ، مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین نے اس نوزائیدہ مملکت میں طب اسلامی و یونانی کی ترویج و ترقی کے وعدے کئے تھے، لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہ ہوسکا ۔جبکہ ہندوستان نے آزادی کے بعد غیر ملکی کی بجائے قومی سوچ کو اپنایا ، اپنے طریق ہائے علاج یونانی اور آیورویدک کو ترقی دی ، وہاں کی صنعت ِدوا سازی کی سرپرستی کی جس کے نتیجے میں آج اس کی ادویات صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کو برآمد کی جاتی ہیں اور اپنے ملک کے لئے خطیر زرِ مبادلہ کے حصول کا ذریعہ بن رہی ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں ہمیں، ہمارے نظامِ طب اور ہماری صنعت ِدوا سازی کو بے پناہ مشکلات و مصائب اور مخالفانہ پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے قیام کے بعد اس کی صنعت ِدوا سازی کو غیر ضروری قوانین کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا، جن کا مقصد اس صنعت کی بہتری، ترقی اور معیار بندی نہیں، اس کا خاتمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں معیاری طبی دوا ساز ادارے بے موت مارے جاچکے ہیں اور بچے کھچے بھی اپنی زندگی کے لئے ہاتھ پائوں مارنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ طبی صنعت ِدوا سازی کے لئے قوانین کی تیاری اور ان کے نفاذ کی ذمہ داری ان ہاتھوں کو سونپ دی گئی ہے جو ہزارہا سالہ تابندہ تاریخ کے حامل فن کی اساسات و مبادیات تک سے بھی آگاہ نہیں ہیں۔

اے کاش! ہمارے ہاں بھی ہندوستان کی طرح قومی سوچ کے مالک طبی ماہرین ہی اس نظام کے رکھوالے مقرر کئے جاتے ، تب یقیناہم بھی بین الاقوامی سطح پر بھارت کا کامیابی سے مقابلہ کررہے ہوتے۔ اے کاش کہ ایسا ہو پاتا… اے کاش کہ اب ہی ایسا ہو جائے۔

ڈاکٹر زاھد اشرف

٭…٭…٭

بے موت مرتی طبی صنعت دوا سازی
Tagged on:                     

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *