کورونائی وباسے چھٹکارے کا لائحہ عمل

خوف کے سائے ہیں کہ ہر سو دراز ہوچکے ۔ کورونا چند ایک ممالک کو چھوڑ کر ، ہر جگہ تباہی کی بھیانک داستانیں رقم کرچکا۔ اس وقت پاکستان اس کی زد میں ہے۔ ذرائع ابلاغ پر پیش کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد روزانہ سو(100) سے بڑھ چکی جبکہ اس وبا سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ۔ دوسری طرف یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ اس مرض میں مبتلا ہونے اور پھر شفا پانے والے بھی تیس ہزار سے بڑھ چکے ۔

ہماری اللہ تعالیٰ سے انتہائی عاجزی و انکساری سے دعا ہے کہ وہ اہل پاکستان کو ہی نہیں، پوری دنیا کو اس وبا سے جلد ازجلد نجات دیں۔ عالم انسانیت پر دراز کئے گئے خوف کے سائے سمٹ جائیں اور دنیا بھر کے معمولات پھر سے بحال ہوسکیں۔ فی الوقت تو عالمی و قومی میڈیا کے مسلط کردہ خوف نے زندگی کی ہر رونق کو ماند کردیا ہے، تجارتی و معاشرتی ، تعلیمی و معاشی، ہر قسم کی سرگرمیوں کو بہت حد تک معطل کررکھا ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار چھن چکا، بہت سے مستحکم ادارے ڈانواں ڈول ہیں، کئی ایک بند ہوچکے، اور اَن گنت جاں بلب ہیں۔ ایک نظر نہ آنے والے وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اربوں انسان لاک ڈائون کی ایذاء برداشت کرتے رہے، کررہے ہیں۔ معیشت کے جام پہیے نے لا تعداد لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا۔ دو وقت کے کھانے کا بندوبست کرنا بھی ان کے لئے مشکل ہوگیا ۔ حکومتوں نے اپنے اپنے وسائل کے مطابق اپنے عوام کو اربوں کھربوں کے امدادی پیکیج دیئے۔ اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ مسلسل لاک ڈائون کے نتیجے میں جنم لینے والی معاشی احوال کی سنگینی کو ان کے لئے کم کیا جاسکے، لیکن ایسا بھی تو حکومتیں ایک حد تک کر سکتی ہیں، بالخصوص معاشی اعتبار سے کم زور ممالک ، جیسا کہ پاکستان ۔

اس سنگینیٔ احوال کو اس خوف نے کئی گنا بڑھا دیا جو کورونا وائرس کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔ اس خوف کا ہی ایک مظہر وہ سلوک ہے جو کورونا میں مبتلا مریض یا خدانخواستہ اس کے باعث موت کی وادی میں اترنے والے شخص کی میت سے روا رکھا گیا ، روا رکھا جارہا ہے۔ یہ سلوک انتہائی نرم الفاظ میں انتہائی غیر انسانی ہے۔ یہ سلوک انسان سے جینے کی امنگ چھین لیتا ہے۔ اسے امید سے محروم کرکے یاس و ناامیدی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے،اور یوں اس میں اتنی قوت مدافعت بھی نہیں رہتی کہ وہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرسکے ۔ ہم نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ دیکھے جو میڈیا اور حکومتوں کے پھیلائے ہوئے خوف کے نتیجے میں نا امیدی کی کھائی میں لڑھکتے چلے گئے اور پھر جوں ہی امید کا کوئی ٹمٹماتا دیا دکھلائی دیا ، ان میں توانائی عود کر آئی، حوصلہ مندی سے وہ بہرہ وَر ہوئے اور بالآخر وہ اس وائرس کے اثراتِ بد سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔

ہمیں فوری طور پر خوف کے بھیانک سایوں سے اپنے عوام کو نجات دلانا ہوگی اور پھر نباتی اجزاء و ادویہ کے ساتھ ان کے مدافعتی نظام کو تقویت بہم پہنچانا ہوگی، اور یوں ہم ، ان شاء اللہ، اس وبا سے چھٹکارا حاصل کر پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حامی و ناصر ہوں۔

ڈاکٹر زاہد اشرف

کورونائی وباسے چھٹکارے کا لائحہ عمل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *