
طبی اعتبارسے دنیا بھر میں ایک ہیجان سا بپا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلائو کی وجہ سے افراد، اور حکومتوں کے ہاتھ پائوںپھول رہے ہیں۔ ہر سو اس کا چرچا ہے اور اس سے بچائو کی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ دوسری جانب اس کی ہلاکت خیزیاں ہیں کہ روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ روزانہ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں، جبکہ اس کے متاثر ین میں ہزاروں کے اعتبار سے روزانہ اضافہ ہورہا ہے۔
چین کا صنعتی شہر ووہان اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور بدیہی طور پر اس وائرس میں مبتلا مریضوں اور اس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بھی اسی شہر میں زیادہ ہے ۔ چین کے علاوہ دیگر ممالک بھی اس وائرس میں مبتلا مریض پائے گئے ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ کم وبیش چوبیس ممالک میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تصدیق ہوچکی ہے ۔ ان ممالک میں جاپان، تھائی لینڈ، آسٹریلیا اور امریکہ بھی شامل ہیں۔
اس وائرس کے پھیلائو کے مختلف اسباب بیان کئے جارہے ہیں، ابتدائی طور پر تسلسل کے ساتھ یہ کہا گیا کہ چینی قوم کی غذائی عادات اس وائرس کی پیدائش اور پھیلائو کی وجہ بنی ہیں۔چینی قوم چونکہ حشرات الارض تک کو کھانے کی عادی ہے ، اس لئے وہاں یہ بیماری ان سے ہی انسانوں میں منتقل ہوئی ہے ۔یہ بھی کہنا ہے کہ کوبرا سانپ کی دو اقسام ایسی ہیں جن سے یہ مرض انسانوں کو لگتا ہے اور چونکہ چینی لوگ سانپ کا گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں، اس لئے اس بیماری سے وہ زیادہ تر متاثر ہوئے ہیں۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین میں کرونا وائرس کے پھیلائو کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے جس نے عالمی سطح پر غلبہ پاتی ہوئی چینی معیشت کو کاری ضرب لگانے کے لئے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ چین پر ایک خوف ناک حیاتیاتی (Biological) حملہ کیا ہے ۔ اس نے ہی سفارتی ذرائع سے کرونا وائرس کو چین بھیجا اور اس کے لیے ووہان شہر کا اس لئے انتخاب کیا گیا کہ وہاں سے اس وائرس کی چین کے دیگر شہروں میں منتقلی زیادہ آسان ہے۔ انہی حلقوں کے مطابق اس حملے کے ذریعے امریکہ نے چینی معیشت پر کاری وار کیا ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث کئی ایک ممالک نے چینی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کردی ہے، جس کی وجہ سے چین کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ صورت حال اس کی دنیا پر غلبہ پاتی معیشت کے لیے شدید دھچکا ثابت ہوگی۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مغربی بالخصوص امریکی ادارے اور کمپنیاں کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین کی تیاری زور و شور سے کررہی ہیں، اور پھر اسے فروخت کرکے وہ اربوں ڈالر کمالیں گی۔ یوں چینی معیشت زوال کا شکار اور امریکی معیشت مستحکم تر ہوتی جائے گی ۔ مغربی کمپنیوں کی جانب سے پہلے امراض کا پھیلائو اور پھر دنیا بھر میں اس کی ادویات کی فروخت کا وطیرہ جس طرح ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے، اس کے تناظر میں کرونا وائرس کے پھیلائو میں ان کے کردار کو محض قصہ کہانی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
وجہ کچھ بھی ہو ، اس حقیقت کو تسلیم کئے بنا چارہ نہیں کہ انسان کا رہن سہن، اس کا بودوباش اور اس کی عاداتِ اکل و شرب فطرت اور فطرتی قوانین سے ہم آہنگ رہیں تو وہ کئی ایک امراض سے محفوظ و مامون رہ سکتے ہیں، اور اگر اقوام، اداروں اور حکومتوں میں دیانت و امانت اور خیر خواہی و بھلائی کے اصولوں کی فرماں روائی قائم رہے تو ظالمانہ اور بہیمانہ استحصالی رویوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے ۔
کیا انسانیت اور انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس پر غور کر پائیں گے؟
ڈاکٹر زاہد اشرف
Pingback:ڈینگی بخار - Rahnuma e Sehhat