
اے رب ذوالجلال!
ہم آپ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ آپ نے 25جولائی2021ء کو منعقد ہونے والے قومی طبی کونسل کے انتخابات میں پاکستان طبی کانفرنس کو ’’فتح مبین‘‘ سے سرفراز فرمایا، اسے تاریخی کامیابی سے ہم کنار فرمایا ۔یہ آپ کا وہ احسانِ عظیم ہے ، ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں ،کم ہے۔
اے اطبائے پاکستان!
ہم آپ کے ممنونِ احسان ہیں کہ آپ نے پاکستان طبی کانفرنس کے تمام امیدواروں کو اپنے بھر پور اعتماد سے نوازا۔ آپ نے ان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا اور انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب و کامران ٹھہرایا۔
اے کارکنان پاکستان طبی کانفرنس !
آپ نے جدوجہد کی لازوال داستان رقم کردی، آپ کا خلوص ، آپ کی لگن ، آپ کی جاں فشانی، آپ کی سعی پیہم ، آپ کی محنت رنگ لائی ، آپ نے اپنی جماعت کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کے اَن مٹ نقوش تاریخ کے اوراق پر ثبت کردیئے۔ آپ کے جذبوں اور ولولوں کو سلام اور آپ کی خدمت میں قیادت کی جانب سے ہدیۂ سپاس ، بلاشبہ 25جولائی کی فتح مبین آپ ہی کے نام ہے۔
یہ فتح مبین بلا شبہ تاریخی ہے ، اس ماحول میں جب کہ پاکستان طبی کانفرنس کے خلاف اتحاد وں کا ایک سیل رواں امڈا چلا آرہا تھا،پہلے ایک اتحاد ، پھر دوسرا اتحاد، اس کے بعد تیسرا اتحاد ، اور ہر اتحاد اس امر کا دعوے دار کہ اس کے پلڑے میں دسیوں جماعتوں نے اپنا ’’بھاری بھر کم ‘‘ وزن پورے کا پورا ڈال رکھا ہے۔ ان اتحادوں کی تگڑم بازیاں اس پر مستزاد تھیں، بنتے بگڑتے اتحاد اور پھر ان سب کا اکلوتا ہدف صرف اور صرف پاکستان طبی کانفرنس اور اس پر الزامات کی وہ بوچھاڑکہ الامان و الحفیظ ۔ ایسی زبان کا استعمال کہ اخلاقیات کا جنازہ اٹھتا ہوا دکھلائی دے اور شرافت و نجابت کی دھجیاں بکھرتی نظر آنے لگیں۔ امڈتی غلاظت کے اس عہد ِنارسا میں الحمد للہ پاکستان طبی کانفرنس کی قیادت اور کارکنان اپنی تابندہ روایات کے امین رہے، انھوں نے نسل در نسل اپنائے جانے والے رویوں کو بالعموم تسلسل دیا۔ انہوں نے جوابی الزامات عائد کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی کو اجاگر کیا، مستقبل کے اہداف بتلائے اور یوں یہ ثابت کردیا کہ سو سال سے زیادہ کی تابناک تاریخ کی حامل جماعت اجالوں کی علم بردار بن کر تاریکیوں کو پسپا کردینے کے عزم سے سرشار ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فتح مبین تاریخی ہے، اب اسے تاریخ ساز بنانے کی بھاری ذمہ داری پاکستان طبی کانفرنس کی قیادت ، اس کے کارکنان اور نو منتخب ارکان کے کندھوں پر عائد ہو چکی ہے ۔ تاریخی مینڈیٹ کو تاریخ ساز بنانے کے لئے ہمیں ہر قسم کے ذاتی و گروہی مفادات سے بالا تر ہو کر طب اسلامی(یونانی) کے بقاء و تحفظ اور ترویج و ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا ، اس کے وقار کو سر بلند کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا ہوگا ، اطباء کے حقوق کی نگہداشت کرنا ہوگی ، ان کے مسائل حل کرنے کے لئے سعی پیہم کو اپنا وطیرہ بنانا ہوگا، ان کے عملی تقاضوں کو یقینی بنانے کا اہتمام کرنا ہوگا ، معاشرے میں ان کے مقام و مرتبہ کو سربلند کرنے کے لئے کوشاں رہنا ہوگا۔
ان اہداف کو پانے کے لئے، ہماری رائے میں ، نئی تشکیل پانے والی کونسل کو درج ذیل جہات میں نتیجہ خیز کام کرنا ہوگا۔
1۔ قومی طبی کونسل کے وقار کو بلند کرنے اور اس کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کو منوانے کے لئے ، ہر سطح پر کام کرنا ہوگا، اسے مکمل با اختیار بنانے اور اس کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
2۔ طب اور اطباء کے وقار کو سربلند کرنے طبی تعلیمی نرسریوں میں معیاری تعلیم اور فول پروف نظام امتحانات کو یقینی بنانا ہوگا ۔ ہمیں بڑی اچھی طرح یہ سمجھ لینا چاہیے کہ طبیہ کالجز کو معیاری طبی تعلیم کے مراکز میں تبدیل کئے بغیر بقاء و تحفظ و ترقی طب کا کوئی سابھی خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔یہ درست کہ سابقہ کونسل کے دور میں اس پر کچھ کام ہوا، لیکن اب اس حوالے سے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے اس فن کے ساتھ مخلص ہیں جس نے ہمیں شناخت دی، ہمیں مقام ومرتبہ عطا کیا ، ہمیں معاشرے میں عزت اور نیک نامی سے سرفراز کیا تو ہمیں بھی اس فن کے لئے اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنا ہوگا۔ اس معاشرے کو قابل اطباء کی اشد ضرورت ہے، اس دور میں جبکہ دنیا نباتی ادویات اور نباتی طریق علاج کی طرف پلٹ رہی ہے ،ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا بھر پور احساس کرنا ہوگا۔ ہمیں طبیہ کالجز میں ہرصورت باقاعدہ معیاری تعلیم کا اہتمام کرنا ہوگا، ایسی تعلیم جس کی بدولت اپنے فن پر عبور رکھنے اور فخر کرنے والے اطباء میدانِ عمل میں آئیں اور اپنی قابلیت و حذاقت سے دکھی انسانیت کا کامیاب علاج معالجہ کرتے ہوئے اس طب کی برتری کو دنیا سے منوا سکیں۔ اس مقصد کے لئے قومی طبی کونسل کو نصاب، اساتذہ ، تعلیم و تدریس اور امتحانات کے معیارات کو ہر آن ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا، ان کے لئے ہر لحظہ مصروفِ عمل رہنا ہوگا۔
3۔ قومی طبی کونسل کے دائرہ اختیار میں یہ بات شامل ہے کہ وہ طب کی ترویج و ترقی کے لئے کام کرے ۔ طبی دوا سازی فن طب کا ایک اہم اساسی شعبہ ہے ، اسے طبی اصول و مبادیات کے مطابق ترقی دے کر ہی ایسی مفید و مؤثر ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جس کے ذریعے مریضوں کا کامیاب و شافی علاج معالجہ کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے کونسل کو جہاں طبیب کے حق دوا سازی کی حفاظت کا اہتمام کرنا ہوگا ، وہیں ملک کی طبی دوا سازی کی صنعت کو درپیش چیلنجز اور مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔
4۔ طب اور اطباء کے تشخص کی حفاظت اور اسے مستحکم کرنا بھی کونسل کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ طب کو اس کے مبادیات و اساسات کے مطابق فروغ دینا اور اطباء کی طبی شناخت کو محفوظ بنانا آج کے دور کی بنیادی ضرورت ہے۔ہمیں جدید طبی معلومات و تحقیقات سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے لیکن جدیدیت کی رو میں بہہ کر اپنے تشخص کو مجروح کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانا ہوگا ۔ ہمیں اپنے تشخص اور شناخت کو ہجوم اغیار میں خلط ملط ہونے سے بچانا ہوگا۔ طب و حکمت اور حکیم و طبیب کی ہزارہا سالہ روشن و تابناک تاریخ کے تسلسل کو برقرار رکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنے تعلیمی و تدریسی اور پیشہ وارانہ معیارات کو اپنے اسلاف کے وضع کردہ اصول و مبادی کے مطابق کچھ یوں بلند تر کرنا ہوگا کہ حکیم کہلانا ہمارے لئے باعث اعزاز ہو۔ اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ اچھے ، قابل اور تشخیص و معالجات پر عبور رکھنے والے حکماء و اطباء آج بھی معاشرے میں بے پناہ عزت و تکریم سے سرفراز کئے جاتے ہیں، اس لئے یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ نیک نامی و شہرت اور سربلندی طبی حذاقت ، خدا ترسی ،ہمدردی و خیر خواہی اور کردار و عمل کی بدولت ہی ملتی ہے۔ انہی خوبیوں اور صفات کو ہمارے اسلاف نے اپنایا تو اپنے ہی نہیں اغیار بھی ان کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔
5۔ نو تشکیل شدہ قومی طبی کونسل کو معیاری طبی فارما کوپیا کی تیاری کے کام کو اولین ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا ۔ یہ نہ صرف اطبائِ پاکستان کے لئے ایک بنیادی دستاویز ہوگا بلکہ دوا ساز اداروں کے لئے بھی بے پناہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔ بعدا زاں طبی فارمولری پر بھی کام کو آگے بڑھانا
ہوگا۔
6۔ مختصر المیعاد اور طویل المیعاد طبی کورسز کا اجراء بھی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ فی الوقت طبی دوا سازی کی صنعت کو ماہر دوا سازوں کی شدید ضرورت ہے۔یہ درست ہے کہ فاضل الطب والجراحت کے چار سالہ نصاب میں دوا سازی کے علم اور فن کی تدریس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور یہ ایک طبیب کو بطورِ دوا ساز بھی شناخت عطا کرتا ہے ،لیکن عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ فاضل الطب والجراحت کے حامل اطباء کے لئے فن دوا سازی کے تخصص کا ڈگری کورس شروع کیا جائے تاکہ طبی صنعت دوا سازی کو جدید تقاضوں سے باخبر اپنے ماہرین فن دستیاب ہوسکیں۔
اسی طرح فاضل الطب والجراحت کا کورس پاس کرنے والوں کے لئے حجامہ کا مختصر المیعاد کورس کا اجراء بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر یہ شافی طریق علاج جس طرح مقبول ہورہا ہے ، اس کا تقاضا ہے کہ حجامہ کے ماہر اطباء تیار کئے جائیں اور اس نبویؐ علاج کو غیر مستند لوگوں کی دستبرد سے محفوظ رکھا جائے۔
حجامہ کے ساتھ ساتھ فصد اور جونکوں سے علاج کی جانب بھی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔یہ طریق ہائے علاج بھی شفایابی کا اہم ذریعہ ہیں، اس لئے ان کے لئے مختصرالمیعاد کورسز تشکیل دیئے جانے چاہئیں۔ جراحی کے فن کو بھی کماحقہ اہمیت دیتے ہوئے اسے بھی تعلیمی سپیشلائزیشن (تخصص) سے ہم کنار کرنا چاہیے۔
ان کورسز کے اجراء اور ان کی باقاعدہ تعلیم سے جہاں طبیہ کالجز کی مالیاتی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی، وہیں طب کے مختلف میدانوں میں خدمات بجا لانے کے مواقع طلبائے طب کو حاصل ہوں گے ۔ ان کی بدولت جہاں ملک میں بے روزگاری اور معاشی مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی ، وہیں عوام کو بہترین طبی سہولتیں بھی میسر آسکیں گی۔
7۔ کونسل کو معیاری طبی کتب کی اشاعت کے لئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے ۔ہمیں نہ صرف عملی ورثہ اسلاف کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے بلکہ جدید معلومات کے تناظر میں طبی کتب کی تدوین بھی کرنا ہے تاکہ طلبائے طب قدیم و جدید معلومات سے آراستہ ہو کر بہتر معالجانہ خدمات سرانجام دے سکیں اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق طب کی حفاظت و افادیت کو منوا سکیں۔
8۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ فاضل الطب والجراحت کی سند کے حامل اطباء کے لئے مزید تعلیم کے دروازے کھولے جائیں ۔بی ای ایم ایس کے آغاز کے ساتھ ہی فاضل الطب والجراحت کا کورس کرنے والوں کے لئے کنڈینسڈ کورس کا اجراء کیا گیا تھا۔ یہ ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا اور اس کی وجہ سے طبی مبادیات و اساسات سے بخوبی آگاہ اطباء کے لئے جدید معلومات کی فراہمی کا ایک راستہ کھول دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے ماہر طبی معالجین معاشرے کو میسر آئیں۔ قومی طبی کونسل کو کنڈینسڈڈگری کورس کے از سر نو اجراء کے لئے ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لانا چاہیے۔
9۔ بی ای ایم ایس کے نصاب میں کئی ایک بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ اسے طبی فلاسفی سے زیادہ ہم آہنگ ہو نا چاہیے اور خالص طبی مضامین کو اس میں فوقیت حاصل ہونی چاہیے ۔ کلیات ، طبی ذرائع تشخیص اور مزاج وغیرہ پر کماحقہ توجہ مبذول کی جانی چاہیے۔ اس وقت بی ای ایم ایس کی ڈگری کے حامل افراد خود اس حوالے سے اپنے اندر بہت کمی محسوس کرتے ہیں۔
10۔ سابقہ کونسل کے دور میں ایک طویل عرصے کے بعد’’ الحکمۃ‘‘ کا احیاء ایک کارنامہ تھا ۔موجودہ کونسل کو اس کی اشاعت میں تسلسل لاتے ہوئے اسے قابل فخر علمی و تحقیقی معیاری رسالے کا روپ دینے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔
11۔ حج طبی مشن کا احیاء بھی کونسل کی اہم ترین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف علیہ الرحمہ نے اطبائے پاکستان کے اس دیرینہ مطالبے کی تکمیل کے لئے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے عہد میں جو قابل فخر کارنامہ سرانجام دیا تھا ، اس کی از سر نو بحالی کے لئے کونسل کو اپنے تمام تر اختیارات اور وسائل کو بروئے کار لانا چاہیے۔
12۔ سابقہ کونسل نے جن اہم کاموں کا آغاز کیا تھا ، ان میں فاضل الطب والجراحت کے ابتدائی دو سالوں کو ایف ایس سی کے برابر قرار دلوانا بھی شامل تھا، اسی طرح تب کے سیکرٹری صحت جناب ڈاکٹر اللہ بخش ملک، جناب حکیم حبیب اللہ چیمہ اور جناب ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کی کاوشوں سے کونسل کے دفتر کے لئے اپنی عمارت کی تعمیر کی غرض سے قومی ادارہ صحت ، اسلام آباد میں پانچ کنال کی اراضی مختص کردی گئی تھی ، اس پر عمارت کی تعمیر اور سند کے معادلہ کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کو خصوصی اہمیت دی جانی چاہیے۔
13۔ کونسل کے اندرونی نظام میں موجود خرابیوں کا ازالہ بھی بے حد ضروری ہے ۔ کسی کا بھی جائز کام کسی تاخیر کے بغیر ہونا چاہیے اور بغیر مالیاتی مفاسد کے۔ انرولمنٹ سے لے کر نتائج کے اعلان تک ، اسناد کے اجراء اور تجدید رجسٹریشن جیسے جملہ امور بڑے شفاف طریقے سے انتہائی عجلت سے سرانجام پانے چاہئیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے ہر معاملہ آن لائن پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے۔ ہر کام کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت کا تعین کیا جائے اور جہاں بھی متعین مدت میں کام مکمل نہ ہو تو متعلقہ اہل کار سے باز پرس کی جائے۔
14۔ اس وقت کالجز اور یونیورسٹیز میں مختلف کورسز کے لئے دو شفٹوں میں تدریس کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ اس سے جہاں زیادہ طلبہ کو حصول تعلیم کے مواقع میسر آتے ہیں، وہیں ملازمت پیشہ افراد کے لئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ قومی طبی کونسل کو اس معاملے کو بھی اپنے سنجیدہ غوروفکر کا موضوع بنانا چاہیے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ متذکرہ بالا امور کے علاوہ بھی قومی طبی کونسل کو کئی ایک اور امور و معاملات بھی سرانجام دینا ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ نئی تشکیل پانے والی کونسل مکمل فکری و عملی یگانگت اور وحدت کے ساتھ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مخلصانہ جدوجہد کرے گی اور تاریخی فتح مبین کو تاریخ ساز بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی ۔ ان کی محنت اور جدوجہد کا ثمر اللہ تعالیٰ ضرور دیں گے اور بے مثال کامیابیاں اور کامرانیاں اس کا مقدر یقینا بنیں گی۔ انہیں بھی ہر لحظہ اللہ تعالیٰ سے راہ نمائی اور نصرت و تائید کے لئے دست بدعا رہنا چاہیے۔
اور اب ایک گزارش اطبائے پاکستان سے!
قومی طبی کونسل کے دست و بازو بنیے ، اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مثبت تجاویز دیجئے، اس کے ساتھ عملی تعاون کیجئے۔ نہ اسے غلط کام کرنے دیجئے اور نہ ہی اس سے کسی ناجائز کام کا مطالبہ کیجئے۔ اسی سے طب ، طبی کونسل اور خودآپ کے وقار میں اضافہ ہوگا۔
اور آخر میں پاکستان طبی کانفرنس کے قابلِ فخر اراکین سے ایک استدعا!
فتح مبین پر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لایئے۔ یوم تشکر منائیے اور ان کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جائیے۔
فتح مبین کا جشن آپ نے منا لیا۔ یقینا یہ خوشی کا مقام تھا ۔ آپ کی محنت رنگ لائی اور آپ کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فتح و کامرانی کا جشن مناتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور پاکستان طبی کانفرنس کی تابندہ روایات سے انحراف نہ کیا جائے۔ اسلام ہمیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تشکرو امتنان کا درس دیتا ہے، جبکہ طبی کانفرنس کی روایات سنجیدگی و متانت کی مظہر ہیں، اس لئے ایسے مواقع پر ڈھول ڈھکما، ناچنے گانے اور ڈانس وغیرہ سے یکسر پرہیز کرنا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان طبی کانفرنس کے جیالے کارکن آئندہ اسے کماحقہ ملحوظ خاطر رکھیں گے۔
آئیے! اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں:
اے بار الہٰ !
نوتشکیل شدہ قومی طبی کونسل کے عہدے داران اور ارکان کو یہ توفیق عطا فرمائیے کہ وہ ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر طب اسلامی (یونانی) کی بقاء ، تحفظ ، ترویج و ترقی ، اطباء کے وقار کی سربلندی ، اطباء کے مسائل کے حل ، طب و اطباء کو درپیش چیلنجز سے بخوبی عہدہ برآ ہونے ، انہیں اندرونی و بیرونی سازشیوں اور دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مخلصانہ جدوجہد کرسکیں۔
اے اللہ ! ان کی راہ نمائی اور دستگیری فرمائیے اور کامیابیوں اور کامرانیوں سے ان کے دامن مراد کو لبریز کردیجئے۔ آمین۔
ڈاکٹر زاہد اشرف