غیر عادلانہ نظام

اس امر میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ہمارے ملک کا سارا نظام غیر عادلانہ رویوں پر مبنی ہے۔ اس نظام میں کہیں بھی عدل و انصاف کی فرماں روائی دکھلائی نہیں دیتی۔ سیاست و معیشت کے مراکز ہوں یا اقتصاد و معاشرت کے ادارے، ایوان ہائے سیاست ہوں یا انتظامی حکم رانوں کے دفاتر ، اقتدار کی راہ داریاں ہوں یا اختیارات کی لن ترانیاں ، آپ کو کم ہی کہیں انصاف کی شمع فروزاں دکھائی دے گی اور شاذو نادر ہی عدل کے ترازو سے عادلانہ رویے چھلکتے نظر آئیں گے۔ اور تو اور، وہ ادارے جو اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے اور بدعنوانی کی روک تھام کے لئے بنائے گئے ، وہ خود ان خرابیوں کی آماج گاہ بن گئے۔ وہ جنہیں غیر عادلانہ و غیر منصفانہ رویوں ، اقدامات اور اعمال کی اصلاح کرنا تھی، ان کے راستے کا سد گراں بننا تھا، اس کے مرتکبین کو قانون کی گرفت میں لانا تھا، وہ خود ان برائیوں اور خرابیوں میں ملوث ہو کر غیر عادلانہ نظام کے محافظ اور پشتیبان بن گئے۔

بات کسی اور طرف نکل جائے گی۔ ہم اس تلخ حقیقت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ طب اسلامی و یونانی او رہومیو پیتھک کی ترویج و ترقی کے لئے جن لوگوں کو کام کرنا تھا ، انہیں ان دونوں نظام ہائے صحت سے کوئی دلچسپی ہی نہ تھی، اور اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے ان کے خلاف معاندانہ اقدامات کئے، ان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں،یہاں تک کہ انہیں غیر قانونی دلوانے اوران کے خاتمے کے لئے منصوبہ سازی کی گئی تو بے جا نہ ہوگا۔ ایوب خان کے دور میں جنرل برکی نے ایسی ہی سازشوں کے تانے بانے بنے۔ ایسے میں بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ جب ملکی نظام صحت کے ذمہ داران ایلو پیتھک کے علاوہ کسی اور طریق علاج کے لئے نرم گوشہ تو کجا مثبت طرزِ فکر کے حامل ہی نہ ہوں تو وہ بھلا ان کی ترقی کے لئے اداروں کے قیام اور ان کے لئے وسائل مختص کرنے کا کیوں کر سوچ بھی سکتے ہیں۔معاملہ صرف یہیں تک ہی محدود نہ رہا ،ا ن دونوں نظام ہائے کی صنعت دوا سازی کو بھی ایسے لوگوں کے سپرد کردیا گیا جو ان دونوں نظاموں کی اساسات و مبادیات تک سے بھی آگاہ نہیں، ایسے میں ملک کی طبی صنعت دوا سازی ناگفتہ بہ صورت حال سے دو چار رہی، دو چار ہے۔ سینکڑوں ادارے لحد میں جا اترے اور باقی جاں بلب ہیں۔ جو موجود ہیں وہ بھی آئے روز نت نئے چیلنجز سے نبرد آزما ہورہے ہیں۔

اے کاش کہ اس ملک میں ہر سطح پر غیر عادلانہ نظام کا خاتمہ ہو اور دنیائے طب میں بھی ۔جب تک ایسا نہیں ہوگا ملک تباہی و بربادی سے دو چار ور ترقی کا ہر خواب چکنا چور ہو تا رہے گا ۔ اللہ کریں کہ ہمارے ہاں ذاتی کے بجائے ملکی و قومی سوچ پروان چڑھے اور ہم شاہ ِراہ ترقی پر گام زن ہوسکیں۔

ڈاکٹر زاھد اشرف

٭…٭…٭

غیر عادلانہ نظام
Tagged on:                     

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *