حقیقی آزادی کا حصول

لیلائے آزادی کا حصول فرد سے لے کر معاشرے تک اور طبقات سے لے کر اقوام و ملل تک کی تمنا اور خواہش ہی نہیں ہوتی ، وہ اس کے لئے ہر طرح کی جدوجہد کرتی ہیں، قربانیاں دیتی ہیں، سختیاں جھیلتی ہیں، ظلم و تشدد کو برداشت کرتی ہیں، جانیں نچھاور کرتی ہیں اور اگر پر امن ذرائع سے یہ ممکن نہ ہو تو وہ مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرتی ہیں، پرامن اور مسلح جدوجہد ، دونوں کی بے شمار مثالیں تاریخ انسانیت کے اوراق پر بکھری پڑی ہیں۔

پاکستان ایک پرامن جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا۔1940ء میں قرار دادِ پاکستان کی منظوری سے لے کر 27رمضان المبارک /14اگست1947ء کو حصول آزادی کے لمحے تک تحریک پاکستان کے قائدین میں سے کسی ایک نے بھی مسلح جدوجہد کی بات نہیں کی ، اور نہ ہی اسلامیانِ بر صغیر میں سے کسی نے ہتھیار اٹھائے۔ سیاسی میدان میں بے مثال جدوجہد کی، تحریک چلائی اور تحریک بھی وہ جس کی روحِ رواں ایک ہی نعرہ تھا : پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ۔ اسی نعرے کو اساس بناتے ہوئے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے وعدے کئے گئے اور وعدوں کی لاج رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسلامیانِ بر صغیر کو آزادی کی نعمت سے ہم کنار کیا اور انہیں ایک بے مثال قطعہ زمین پر مشتمل آزاد وطن عطا فرما دیا، اور وہ بھی رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں27ویں کی شب کو ،وہ شب جو اگر لیلۃ القدر ہوئی تو افضل ترین رات میں۔

اس آزادی پر ہمیں ہر آن اور ہر لحظہ خالق و مالک آقا کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہنا چاہیے تھا ، جنہوں نے سات سال کی قلیل مدت میںہمیں آزاد وطن عطا فرمایا، ورنہ کتنی ہی اقوام ہیں جو دہائیوں سے حصولِ آزادی کے لئے جاں گسل جدوجہد کررہی ہیں، خون کا نذرانہ پیش کررہی ہیں، اپنے بوڑھوں، جوانوں، بچوں اور عورتوں کی قربانیاں دے رہی ہیں، اپنے لہو سے اپنی سرزمین کو سیراب کررہی ہیں، لیکن پھر بھی حصولِ آزادی سے کوسوںدور ہیں۔ دور کیوں جائیے، اپنی شہ رگ کشمیر کو ہی دیکھ لیجئے، اور پھر ذرا آگے اپنے قبلہ اول کی زمین فلسطین پر نظر دوڑا لیجئے، ان دونوں خطوں کے باسیوں نے پون صدی سے زائد کا عرصہ حصول آزادی کی جدوجہد میں بتادیا، پھر بھی آزادیٔ وطن کے خواب کی تعبیر انہیں دوردور تک دکھلائی نہیں دیتی۔

ایسے میں ہمیں اپنی آزادی کی قدروقیمت سے ہر لحظہ آگاہ رہنا چاہیے تھا، اس کی قدرو منزلت کو اپنے دلوں میں جاگزیں رکھنا چاہیے تھا اور پھر اس کے تقاضوں کا مکمل ادراک کرتے ہوئے اس کے تحفظ و پاسبانی کا فریضہ ادا کرنے کے لئے ہر دم چاق و چوبندرہنا چاہیے تھا ۔یہ صرف اسی وقت تک ممکن تھا جب ہم تحریک ِآزادی کا ہدف اپنی آنکھوں میں سجائے رکھتے ، منزلِ آزادی کو پانے کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتے، تحریک ِآزادی کے دوران کئے گئے اپنے وعدوں اور دعووں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے۔

بد قسمتی سے ہم ایسا نہ کر پائے ۔ ہم اس ملک کو اس کی نظریاتی منزل کی طرف لے جانے کے لئے جدوجہد کرہی نہ سکے۔ ایک مختصر سے عرصے کی ٹھوس پیش رفت کے علاوہ ہم نے شعوری طور پر اپنے ہدف سے بر گشتہ ہونے کو ہی اپنا چلن بنا لیا۔ ہم نے آئینی طور پر اس ملک کو اسلامی قرار دیا ، اس کے قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق بنانے کا عہدو پیمان کیا، لیکن ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اسلام اور اس کی تعلیمات و احکامات سے دور ہوتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی آزادی ہم سے روٹھ گئی ، ہم آزاد ہونے کے باوجود غلامی کی اندرونی و بیرونی زنجیروں میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے اجتماعی نظام کا ہر دھارا ہماری بد ترین فکری و عملی غلامی کی چغلی کھار ہا ہے۔ اسی غلامانہ فکر نے ہمیں اتنی بھی آزادی نہ دی کہ ہم اسلامی شعائر تو کجا اپنے قومی مظاہر ، اپنی قومی زبان اور اپنی ملی و قومی روایات پر اظہار ِتفاخر کرسکیں، ان علوم وفنون کو فروغ دے سکیں جو ہمارے عظیم اسلاف کا قابل فخر سرمایہ ہیں۔

اے کاش! ہم نے حقیقی آزادی کے حصول کو اپنا ہدفِ اولین بنا لیا ہوتا۔

ڈاکٹر زاھد اشرف

٭…٭…٭

حقیقی آزادی کا حصول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *