علم کی قوت

علم کی قوت 

اس حقیقت سے شاید ہی کوئی ذی شعور انکار کرسکے کہ افراد، معاشروں اور قوموں کا عروج دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ علم کا بھی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ علم کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے ۔ اسی کی بنیاد پر تہذیب و تمدن نے مختلف ادوار میں ارتقائی مراحل طے کئے۔ قوموں نے اسی اساس پر اپنی ترقی کی منازل کو طے کیا اور عروج و سربلندی کے طرف اپنے سفر کو جاری و ساری رکھا۔

                 یہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو انسان کے ظاہر و باطن کی تنویر کرتاہے۔ ظلمات سے نجات دلا کر اسے روشنیوں کے شہر میں بساتا ہے ۔ اس کے ارد گرد نور کے ہالے تعمیر کرتا ہے ، اس کے ذہن و قلب کو مبہط انوار بناتا ہے ۔ اس کے وجود کو پورے معاشرے کے لیے نفع بخش بناتا ہے ، اسے پختگی ٔ کردار سے نوازتا ہے اور مجسم اخلاق بنا دیتا ہے ۔ علم کی قوت سے لیس اور ان اوصاف سے مزین فرد ہی اپنی ذات ، اپنے اہل و عیال ، اپنے گھرانے ، اپنے کنبے ، اپنے معاشرے، اپنی قوم ، اپنے ملک اور اپنی امت کے لئے نفع رسانی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایسے علم اور اوصاف سے اپنی شخصیت کی تعمیر کرنے والے افراد ہی قوم وملک اور امت کی ترقی کا سبب بنتے ہیں ۔ ان کی بدولت ہی قومیں زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتی چلی جاتی ہیں اور پھر ہمدوش ثریا ہو جاتی ہیں۔

                ہمارے دین کا پہلا سبق ہی ہمیں حصولِ علم کی تلقین کرتا ہے، اور علم بھی کون سا، جو اپنے رب اور خالق کا نام لے کر حاصل کیا جائے یعنی وہ علم جس کا تعلق الٰہ ِواحد سے جڑ ا ہوا ہو، الٰہیات اس علم کا جزوِ لاینفک ہو اور ایمان و اعتقاد میں اس کے حصول سے پختگی آئے ۔ ایسا علم جو مخلوق کا ناطہ خالق سے مستحکم کرسکے، جو اسے عبدیت سے متصف کرتے ہوئے اسے مخلوقِ خدا کے لئے نفع بخش اور مفید بنا سکے۔

                 ایک مسلمان کے لیے اسلامی علوم کے بعد اہم تر علم طب کا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑی صراحت سے ارشاد فرمایاتھا:

اَ لْعِلْمُ عِلْمَان: عِلْمُ الْاَدْیَانِ وَعِلْمُ الْاَبْدَانِ۔

علم دوہی ہیں : ادیان کا علم اور ابدان کا علم۔

                 ابدان کا علم ہونے کے ناطے طب کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور اسے ہی معرفت ِکردِگار کا ذریعہ بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید نے ہمیں یہی درس دیا ہے کہ تمہارے اپنے نفوس اور ذات میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی نشانیاں ہیں تو کیا تم ان پر غور نہیں کرتے؟ (الذّٰاریت21:51) ان نشانیوں کا ادراک ہمیں علم طب سے ہی ہوتا ہے۔ یوں علم طب اپنے خالق و مالک کو پہچاننے کا ذریعہ ہونے کے باعث حامل طب کا ناطہ اپنے خالق سے جوڑتا ہے اور اس حوالے سے طب کے طالب علم اور طبیب کا مقام دیگر شعبہ ہائے حیات میں مصروف ِعمل افراد کی نسبت کہیں بلند و بالا ہوتا ہے۔

                ہم اس بلند و بالا مقام کے سزا وار اسی وقت بن پائیں گے جب ہم علم طب کے حصول اور اس کے فروغ کے لئے اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچیں گے ، اس کے لئے اَن تھک جدوجہد کریں گے اور ایسے طبیب تیار کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیںگے اور طبی علم کی قوت سے لیس ہوں، فن طب پر مہارت رکھتے ہوں اور اپنی زندگیاں اسی مقصد کے لئے کھپاتے ہوئے فلاح انسانیت کے لئے ہر لحظہ مصروفِ عمل ہوں۔ اسی کی بدولت ہی وہ دنیا و آخرت میں سرخ رو ہو پائیں گے۔

ڈاکٹر زاہد اشرف

علم کی قوت