جس کا کام اسی کو ساجھے

بظاہر یہ ایک محاورہ ہے ،لیکن درحقیقت اس میں عقل و دانائی کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے۔ اس کی پشت پر صدیوں پر محیط انسانی تجربات موجود ہیں۔ وہ تجربات جو ہمیں بتلاتے ہیں کہ

لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ

ہر فن کے لئے اپنے مخصوص رجال ِکار ہوتے ہیں۔

تاریخ انسانی ہمیں یہی سبق سکھلاتی ہے اور خود انسانی فطرت اسی حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ ہر انسان کو اپنی استعداد و صلاحیت ، اپنی سمجھ بوجھ، اپنی عقل و دانش اور اپنے فہم و فراست کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اس کی قوتِ کار میں تفاوت موجود ہوتا ہے ۔ اس کی فکر کے دھارے ایک دوسرے سے مختلف سمت میں بہہ رہے ہوتے ہیں، اس کے اعمال کی رفتار اور گراف ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔

اوصاف و استعداد اور صلاحیت کے اسی فرق کے باعث انسانوں کے میدان ہائے کار بھی مختلف ہوتے ہیں۔یہ ممکن ہی نہیں کہ ہر فرد ایک جیسا کام سرانجام دے سکے۔ اس پر مستزاد اس کے رجحانات و میلانات ہوتے ہیں، اس کا ذوق و شوق ہوتا ہے۔ وہ ان کے مطابق ہی اپنی تعلیمی جہت کا تعین کرتا ہے، اپنے مستقبل کے لئے اپنی تعلیمی و فنی راہ کا انتخاب کرتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طبعی میلان اور شوق کے مطابق منتخب کردہ میدان ہی بالعموم کامیابی کا باعث بنتا ہے ۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی بچے کو والدین دبائو ڈال کر اس کے میلان سے ہٹ کر کوئی دوسرا شعبہ اپنانے پر مجبور کردیتے ہیں تو وہ اس میں بالعموم ناکام رہتا ہے۔

اسی اصول کو ہم ایک اور پہلوسے بھی دیکھتے ہیں ۔ ایک فرد اگر کسی ایک خاص شعبے میں تخصص(Specialization) کا حامل ہے تو اگر اس کی خدمات کسی دوسرے شعبے کے لئے حاصل کرلی جاتی ہیں ،یا اس کی ذمہ داری تفویض کردی جاتی ہے تو اس امر میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گا ، کیا ہم ایک انجینئر سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ اچھا معالج تو کجا،معمولی درجے کا معالج ہی ثابت ہوسکے۔ الٹایہ خدشہ ہمہ وقت دامن گیر رہے گا کہ اس کا مریض زندگی سے ہی محروم نہ ہو جائے۔ اسی طرح اگر کسی ڈاکٹر کو کسی عمارت کی تعمیر کا کام سونپ دیا جائے تو اس کی زیر نگرانی بننے والی بلڈنگ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی زمین بوس ہو جائے گی۔

بعینہٖ شعبہ طب کے مختلف شعبہ جات کا معاملہ ہے ۔کوئی ماہر چشم کسی کے امراض حلق و انف و اذن (ENT) کاعلاج نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کوئی ایک بھی طبی شعبے کا کوئی ماہر کسی دوسرے شعبے میں نہ دخل اندازی کرتا ہے ، نہ اس کے مریض پر ہاتھ ڈالتا ہے حالانکہ سبھی شعبۂ طب سے منسلک ہوتے ہیں۔ ایسے میں کیا یہ امر منصفانہ ہوگا کہ کسی ایک طریق علاج کے ماہر کو کسی دوسرے طریق علاج کی تعلیمی و تدریسی یا انتظامی و قانونی اور تنفیذی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ طب اسلامی (یونانی) کے جملہ امورو معاملات…تعلیم وتدریس، علاج معالجہ اور دوا سازی وغیرہ… سبھی کو اس فن کے ماہرین ہی نپٹائیں ۔ وہ ہی اس کی پالیسی بنائیں اور قوانین و ضوابط بھی اور ان کے نفاذ کا کام بھی انھی کے سپرد کیا جائے۔تب ہی یہ فن ترقی کرسکتا ہے اور ملکی مسئلہ صحت کے حل میں اپنا مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔

٭…٭…٭

جس کا کام اسی کو ساجھے
Tagged on:                 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *