معاشرے کو بیمار ہونے سے بچایئے

بے یقینی کا عفریت انسانی معاشروں کو کس طرح انفرادی و اجتماعی طور پر گھن کی طرح چاٹ کھاتا ہے اور کیسے ان کی جسمانی ، نفسیاتی اور معاشرتی و معاشی زندگی پر تباہ کن نتائج مرتب کرتا ہے ، اس کا اندازہ ملک کی موجودہ صورت حال سے بخوبی ہوسکتا ہے۔

پچھلی حکومت کے دور میں بھی کئی ایک معاشی مسائل نے عوام کی زندگی کو بعض حوالوں سے متاثر کررکھا تھا ، لوگ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان تھے، جس نے ان کے رو ز مرہ معمولات پر برے اثرات مرتب کررکھے تھے ۔ لوگوں کے لئے بنیادی ضروریات کی تکمیل ایسا مسئلہ بنتی جارہی تھی ، جس نے انہیں صحی و نفسیاتی عوارض آشنا کررکھا تھا ۔ لیکن جب سے ان دیکھی قوتوں اور نامعلوم مقتدر حلقوں کے منصوبے کے مطابق ملک بھر میں حکومت کی تبدیلی کو ممکن کر دکھایا گیا اور گنگا و جمنا میں اشنان کرنے والے پوتر لوگوں کو اس ملک پر مسلط کردیا گیا ، ملک کے حالات میں انتہائی بے یقینی کی صورتِ حال نے جنم لیا اور ہ اتنی تیز رفتاری سے انحطاط پذیر ہوئے کہ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور مہنگائی جو سابقہ حکومت کے دور میں ہمالہ کو بھی سر کرتی نظر آتی تھی وہ موجودہ ہول ناک مہنگائی کے سامنے رائی کے دانے کے برابر دکھلائی دینے لگی۔

اس کمر توڑ مہنگائی کو بے یقینی کی ہر سو پھیلتی تاریک رات نے تباہ کن بناتے ہوئے عوام کی اذیتوں کو کئی گنا کچھ یوں بڑھا دیا ہے کہ چند ماہ پہلے کے پاکستان کو لوگ ترسنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ ذرا اندازہ تو لگایئے کہ وہ پٹرول جو اپریل کے اوائل میں 150روپے کے لگ بھگ تھا ، اس وقت 234 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ ڈیزل جو پہلے پٹرول سے سستا تھا ، اب ترقی کی فلائنگ ککس لگاتے ہوئے 144روپے سے تقریباً 264 روپے تک جا پہنچا۔ اس کے نتیجے میں اشیائے خورو نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے نچلے اور متوسط درجے کے طبقات کی نہ صرف عمومی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے بلکہ انہیں بے شمار نفسیاتی مسائل سے بھی دو چار کردیا ہے۔ گھریلو اور معاشرتی پہلوئوں سے ناقابل بیان حد تک معاملات میں تلخی بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کے لئے رشتہ جسم و جان برقرار بھی دشوار ہے۔ ایسے میں وہ صحی مسائل کی طرف کیونکر متوجہ ہوسکتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس خوف ناک صورت ھال کے باعث وسائل سے محروم لوگ صحت کے مزید مسائل سے دوچار ہوں گے ، علاج معالجہ نہ کروا سکنے کی سکت ان کے امراض کو مزید پیچیدہ بنا دے گی جس کے نتیجے میں ملک کی ایک بڑی آبادی استعداد ِکار سے محروم ہوگی یا اس میں معتدبہ کمی آئے گی جو بالآخر ملکی ترقی پر بری طرح اثر انداز ہوگی ۔ افراد کی نفسیاتی کیفیات معاشرے کے تارپود بکھیرنے میں اہم کردار ادا کریں گی جبکہ ان کے امراض کی شدت میں اضافہ آنے والے ماہ و سال میں ملک کے صحی نظام کے لئے ایک بھیانک چیلنج کا روپ دھار لے گا۔ ہمیں یہ بھی ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا معاشرہ جس میں جسمانی ونفسانی امراض کا گراف اونچا ہوتا چلا جائے وہ ایک بیمار معاشرے کا روپ دھار لیتا ہے جو ملک کی ترقی کے ہر خواب کو چکنا چور کرکے رکھ دیتا ہے ۔

اس وقت ملک میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرکے اوپر سے نیچے تک پر تعیش زندگی کے ہر مظہر کو فوری طور پر ملیامیٹ کرنا ہوگا ، اسلامی تعلیمات کے مطابق سادہ طرز زندگی اپنا کر فوری طور پر وسائل کو اس ملک کی اشرافیہ کی بجائے عوام کے لئے مختص کرنا ہوگا ، پھر ہی ہم اپنے معاشرے کو ایک بیمار معاشرے کے قالب میں ڈھلنے سے بفضلہ تعالیٰ بچا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر زاہد اشرف

٭…٭…٭

معاشرے کو بیمار ہونے سے بچایئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *