سیلاب سے پھیلتی بیماریاں اور ان کا سدباب

پاکستان کی حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب نے تباہی و بربادی کی ہول ناک داستانیں رقم کردیں۔ تین ،ساڑھے تین کروڑ کی آبادی اس سے براہ ِراست بری طرح متاثر ہوئی۔ ان کا متاع زیست ان سے چھن گیا ، ان کے پیارے ان سے بچھڑ گئے، ان کے گھر بار صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ، ان کے مویشی تندو تیز موجوں کی نذر ہوگئے۔منہ زور سیلابی ریلوں سے ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل ہوگئے، ہزاروں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور پھلوں کے باغات تباہ و برباد ہوگئے۔ اسی بربادی نے باقی ماندہ پاکستان کے کروڑوں انسانوں کے لئے غذائی تحفظ کے مسئلے کو گھمبیر بنادیا اور اب مستقبل قریب کے حوالے سے مہیب خطرات سر پر منڈلاتے دکھلائی دے رہے ہیں۔

ایک طرف خدشات کا سرا ٹھاتا یہ طوفان، اور دوسری جانب سیلاب زدگان کی حالت زار۔ انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں وہ کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار بیٹھے ہیں۔ بے شمار لوگ ابھی تک سیلابی پانی میں گھرے ہوئے، نہ انہیں کھانے پینے کی اشیاء میسر ہیں اور نہ ہی ان کی رہائش کے لئے کوئی ٹھکانہ ، نہ موسم کی سختی سے بچنے کا کوئی سامان۔ اس پر مستزاد یہ کہ وبائی امراض ہیں کہ پھیلتی چلی جارہی ہیں، پیٹ کے امراض سے کئی لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں،جلدی بیماریاں انہیں بے حال کررہی ہیں، سانپوں کے ڈسنے سے بیسیوں لوگ موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔ مچھروں کی بہتا ت انہیں ملیریا اور بخاروں کی دیگر اقسام میں مبتلا کررہی ہے۔ ڈینگی بخار ہے کہ روز افزوں ہے۔ ہر دن سینکڑوں افراد میں یہ مرض سرایت کررہا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بھی یہ منہ زور ہورہا ہے جبکہ دیگر علاقوں اور شہروں میں بھی اس کے مریضوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ستم بالائے ستم ادویات کی کم یابی یا نایابی کا مسئلہ شدت اختیار کررہا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایسے گھمبیر احوال میں ہمارے اندر انسانی ہمدردی و خیر خواہی کا جذبہ اگر پروان چڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب ہمارے معاشرے میں ایسے سنگ دل مافیاز بھی موجود ہوتے ہیں جو ہوس زر کے مارے ہوئے ادویات کی ذخیرہ اندوزی کرلیتے ہیں اور پھر منہ مانگے داموں ا نہیں فروخت کرتے ہیں۔ ناجائز طریقوں سے دولت کمانا ان کا ہدف زندگی ہوتا ہے۔ وہ سسکتی انسانیت کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں نہ خوفِ خدا ہوتا ہے اور نہ ہی آخرت میں باز پرس کا کوئی احساس۔

دوسری جانب سرکاری پالیسیاں کہ اس صورت حال کو بہتر بنانے کی بجائے اسے مزید ابتر کردیتی ہیں۔ نہ سرکاری مشینری اس پریشان کن صورت حال سے چھٹکارے کا کوئی منصوبہ بنا پاتی ہے اور نہ ہی اس پر عمل درآمد کا کوئی داعیہ اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے پالیسی ساز اپنا پورا انحصار ایک ہی طریق علاج پر کئے رکھتے ہیں۔ سارے وسائل اسی کی خاطر وقف ہوتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ صحت عامہ کے تحفظ اور امراض سے چھٹکارے کے لئے ملک کے تسلیم شدہ دیگر طریق ہائے علاج سے استفادے کی بھی راہ تراشی جانی چاہیے۔ عالمی ادارہ صحت ایلو پیتھک کے علاوہ دیگر نظام ہائے طب کی افادیت کو تسلیم کرچکا ہے۔ اگر ہمارے پالیسی ساز ہزارہا سالوں پر محیط طبی طریق علاج کی افادیت کے قائل نہیں بھی ہیں تو انہیں کم از کم عالمی ادارۂ صحت کی بات تو مان لینی چاہیے۔

ہم اس یقین سے سرشار ہیں کہ اگر سیلاب کے بعد موجودہ گھمبیر صورتِ حال کے ازالے کے لئے سبھی طریق ہائے علاج سے مساوی طور پر استفادے کی پالیسی وضع کرلی جائے تو اس سے پھیلتی ہوئی وبائی بیماریوں سے نجات میں بہت مدد ملے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جانب فوری توجہ دی جائے ۔ ہمیں اب یہ مان ہی لینا چاہیے کہ تمام طریق ہائے علاج کو ان کے ماہرین کی زیر نگرانی سرکاری سرپرستی میں لینے سے ملک کے مسئلہ صحت کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ممکن ہو پائے گا۔

ڈاکٹر زاھد اشرف

٭…٭…٭

سیلاب سے پھیلتی بیماریاں اور ان کا سدباب
Tagged on:                     

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *