
تاریخ انسانیت کی ایک اہم تر حقیقت یہ ہے کہ اقوام کے عروج و سربلندی اور ترقی میں تعلیم اور تربیت بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔کوئی قوم جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہوگی ، اس کی تربیت کے لئے وضع کردہ نظام جس قدر ٹھوس اور ہمہ گیر ہوگا ، وہ قوم اسی قدر ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی ہمدوش ثریا ہو گی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقوام کو علمی ترقی سے ہمکنار اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب علوم بھی شاہ راہِ ترقی پر گام زن رہیں، ان میں نت نئے اضافہ جات کئے جاتے رہیں ۔ کسی بھی معاشرے کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان علوم کو اس کے لئے زیادہ مفید بنانے کے عمل کو جاری و ساری رکھا جائے، بدلتے ہوئے حالات اور نئے تقاضوں سے انہیں ہم آہنگ کرنے کے لئے جدوجہد کی جاتی رہے۔ غورو فکر کے ذریعے ان میںنت نئے آفاق کی تلاش کا عمل جاری رہے تحقیق کے ذریعے ان کے علمی و عملی سرمائے کو وقیع تر بنایا جاتا رہے۔
علم طب یقینی طور پر ان علوم میں سر فہرست ہے ۔ چونکہ اس کا تعلق براہِ راست اس وجود سے ہے جو علوم وفنون کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لئے اس وجود کو تن درست و توانا رکھنا اور اس کے جملہ اعضاء کے افعال کی درست انجام دہی اس کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ یہ انسانی وجود اپنی فکری و نظری اور عملی کے علاوہ اپنی جسمانی و بدنی جہات میں صحیح کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے اہل ہوگا تو وہ علوم وفنون کی ترقی میں اپنا حصہ بٹا سکے گا، اپنے کردار کو نبھاپائے اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکے گا۔ اس اعتبار سے ہی علم طب کو دینی علوم کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ۔
یہ اہمیت طب کے حاملین کو ابتدائے آفرینش سے ہی اہم تر مقام کا سزا وار قرار دیتی رہی ہے۔ ان کے بلند تر مقام کا اندازہ اس امر سے کر لیجئے کہ کرۂ ارض پر حضرت آدم علیہ السلام کے نزول کے بعد علم طب ابتدائی ادوار میں انبیائے کرام کے گھرانوں کی میراث بنا رہا، تاریخ طب کی کتب حضرت آدم علیہ السلام کو کرۂ ارض کا پہلا طبیب قرار دیتی ہیں جبکہ ان کے تیسرے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام علم طب میں ان کے وارث قرار پاتے ہیں۔ پھر نسل در نسل یہ علم چھٹی یا ساتویں نسل میں حضرت ادریس علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ روایات میں ان کے بارے میں یہ بھی موجود ہے کہ فن طب نبوت کے ایک حصے کے طور پران پر نازل کیا گیا۔ یوں اس علم کے ساتھ ایک تقدس وابستہ ہو جاتا ہے اور اس اعتبار سے علم و فن طب قداستوں کا حامل قرار پاتا ہے۔
تاریخ طب ہمیں یہ بھی بتلاتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام علم طب کے حوالے سے بھی اہم مقام پر فائز تھے ، ان کے بارے میں ارشاد نبویؐ ہے کہ وہ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے سامنے موجود درخت یا پودے سے دریافت کرتے کہ اسے کس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے؟ اگر وہ بطورِ دوا مستعمل ہوتا تو وہ اس کے جواب کو باقاعدہ لکھ لیا کرتے تھے۔
یہ ہے اس عظیم فن کا تقدس ، جس کے آج ہم وارث ہیں۔ پھر یہ تقدس یہیں تک محدود نہ رہا۔کائنات کے گل سرسبد، انبیائے کرام علیھم السلام کے سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جنہیں طبیب القلوب والابدان ( دلوں اور جسموں کے طبیب) بھی کہا جاتا ہے، انہوں نے اپنے فرامین کے ذریعے علم طب کو اعتقادی و عملی راہ نمائی سے سرفراز فرمایا۔ آپؐ نے اہم ترین تشخیصی و معالجاتی اور تحقیقی نکات اپنی امت کو عطا فرمائے، اور یوں یہ فن اور اس سے وابستہ لوگ قداستوں کی نئی رفعتوں سے ہم کنار ہوگئے۔
قداستوں کی اس تابندہ و درخشندہ تاریخ کے بعد یہ بھی مت بھولئے کہ یونانی اطباء کے بعد طبی ورثے کے تحفظ ، ترویج اور ارتقاء کے لئے جو قابل رشک کردار مسلم ادوار کے اطباء نے ادا کیا ، تاریخ انسانیت اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، جبھی تو یورپی مصنفین و مفکرین نے اس فن کو طب اسلامی Islamic Medicineیا طب العربArabian Medicine کے نام سے پکارا۔ طب اسلامی وعربی کے روشن ستاروں کی جلیل القدر طبی خدمات و تحقیقات کی بدولت ہی اسلامی عہد کو طب کا سب سے تابناک دور قرار دیا گیا۔ مغرب اسی دور کے شہرہ آفاق اطباء کا خوشہ چین کچھ یوں رہا کہ اس نے ہمیشہ ان کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔
مسلم ادوار کی اسی تابندگی نے طب و اطباء کے مقام کو عروج و سربلندی سے ہمکنار کیا۔ ان کی عظمت کو چار چاند لگے اور ان کا تشخص پورے عالم میں کچھ یسی انفرادیت کا حامل بن گیا کہ اس فن سے وابستہ ہر فرد عظمتوں کا حامل ہی نہیں رہا وہ عظمت گر بھی بنا۔
ہزارہا سال کی اس تابندہ تاریخ نے ہمارے تشخص کے خدو خال اجاگر کئے ، ہماری شناخت کو تابناکی عطا کی، ہماری پہچان کو قابل فخر بنایا،ہمارے مقام و مرتبہ کو بلند تر کرکے ہمیں سرخ روئی عطا کی، ہماری عظمت کی دھاک چاردانگ عالم میں قائم کی،ہمیں عظمتوں کا امین بنایا ، اپنی ضو فشانیوں سے ہمارے وجود کی تنویر کا اہتمام کیا،یہ تنویر ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اسلاف کی میراث کو سنبھالے رکھنے کا اہتمام کریں، اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے بنیادی اصولوں اور اساسات پر ثابت قدم رہتے ہوئے اسے عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں، اس کی عظمت رفتہ کی بازیابی کے لئے وہ سب کچھ کر گزریں جو ہمارے بس میں ہے، اور اگر اس پر کوئی اندرونی یا بیرونی یلغار ہوتی ہے تو اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں ، اس کے خلاف تیار کی گئی ہر سازش کو ناکام بنانے کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ رہیں۔
یہ فن طب ہمارے جن اسلاف کا ورثہ ہے، ان میں وہ خلفاء، امراء اور اطباء بھی شامل ہیں جنہوں نے طب یونانی کے علمی سرمایے کو زمانے کی دست برد سے محفوظ رکھا۔ اس کے حصول کے لئے مسلم خلفاء نے خزانوں کے منہ کھول دیئے اور پھر ان کے تراجم کے لئے دنیا بھر سے مترجمین کو بیت الحکمت میں اکٹھا کرکے انھیں عربی قالب پہنایا۔ انہی کی بنیاد پر نت نئے تجارب اور تحقیقات ہوئیں اور یوں اسلامی تعلیمات اور مسلم ادوار کی چھاپ لئے علم طب ترقی کے نئے آفاق سے ہمکنار ہوا۔ مسلم اور عرب ریاستوں کے بعد اس ورثے کا تحفظ بر صغیر پاک وہندکے علم برداران طب کی ذمہ داری قرار پائی، اور تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اس علاقے کے جلیل القدر اطبائے کرام نے اس ذمہ داری کو کماحقہ نبھاتے ہوئے اس فن کی ترویج و ترقی ہر سطح پر کی اور ہر میدان میں ۔ انہوں نے نہ صرف اس فن کی علمی و عملی حوالوں سے آبیاری کی بلکہ اس کے تشخص اور اطباء کی شناخت کو مستحکم تر کرنے میں ہر لحظہ مصروف عمل رہے۔ بر صغیر کے بے شمار نام ور اور شہرہ آفاق اطباء نے مغلیہ دور میں بھی اس میدان میں قابل رشک کارہائے نمایاں سرانجام دینے جبکہ فرنگی سامراج کے دورِ غلامی میں بھی اس کے تحفظ و بقا اور ترویج کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دی اور چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے اس فن کو زندہ رکھا، اس کے اساسات و مبادیات کی نگہبانی کی اور اس کے تشخص کے تحفظ و بقاء کے لئے ہر آن جہد مسلسل کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔
انہی اسلاف کے جانشین ہونے کے ناطے ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے درجِ ذیل نکات کو حرزِ جاں بنائیں اور ان پر عمل درآمد کو طبی و فنی اعتبار سے اپنا ہدف ِاولین قرار دے دیں۔
1۔ علمی معیارات کو بلند تر کرنا اور عملی استعداد و صلاحیت کو پروان چڑھانا ۔
2۔ طب کے اساسات و مبادیات کی روشنی میں تحقیق کے عمل کو آگے بڑھانا اور جدت طرازی کو فروغ دینا۔
3۔ بطورِ فن طب کے امتیازات کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں تابندہ تر بنانا۔
4۔ اطباء کے وقار ، مقام اور مرتبے میں کچھ اس طرح اضافہ کرنا کہ ان کا جداگانہ تشخص اور شناخت کسی صورت مجروح نہ ہونے پائے۔
اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ کوئی بھی علم یا فن صرف اسی صورت میں اپنی بقا کو یقینی بنا سکتا ہے جب اس کی تعلیمی نرسریاں قابل اور اہل افراد تیار کرنے کی استعداد رکھتی ہوں۔ اگر کسی علم یا فن سے وابستگی رکھنے والے لوگ علمی و عملی قابلیت کے حوالے سے استناد کا درجہ نہ رکھتے ہوں، ان کی صلاحیت مشکوک ہو، ان کی اپنے علم اور فن پر گرفت کمزور ہو تو یقینا اس میں ترقی کے خواب دیکھنا دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ اپنے فن طب کو شاہ راہِ ترقی پر گام زن دیکھتے رہنے کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔ علمی وعملی تفوق ہی کامرانی کی ضمانت ہوتا ہے۔اس ضمن میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے ایک بدیہی تقاضہ ہیں۔ فاضل الطب والجراحت کے بعد بی ای ایم ایس اور پھر ایم فل اور پی ایچ ڈی اس ناطے سے بلاشبہ خوش آئند ہیں اور ایک حد تک روشن مستقبل کی ضمانت بھی، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ علم طب کی بنیادی نرسریوں یعنی اپنے طبیہ کالجز میں تعلیمی و تربیتی حوالے سے فی الوقت موجود سنگین خرابیوں کا ہمیںفوری ازالہ کرنا ہوگا، انہیں معیاری درس گاہوں کے قالب میں ڈھالنا ہوگا ۔ ان میں متواتر ٹھوس تعلیم و تدریس کا اہتمام کرنا ہوگا ۔ ہمیں یونیورسٹیز میں قائم طبی شعبہ جات کو حقیقی معنوں میں اسلاف کے ورثے کا امین بنانا ہوگا، وہاں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے اذہان و قلوب میں فن طب کی عظمت کی دھاک بٹھانا ہوگی اور انہیں مرعوبیت کے عفریت سے محفوظ رکھنے کا سامان کرنا ہوگا۔ جدید یت کے شوق میں طب کی بنیادوں اور اساسات سے روگردانی کی کاوشوں سے گریز کی راہ اختیار کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنے جملہ اداروں میں اپنی تحقیق کی بنیاد انہی اصولوں پر وضع کرنا ہوگی جو ہمارے اسلاف نے اس عظیم فن کے لئے وضع کررکھے ہیں۔محض جدیدیت کے نام پر مبادیات و اساساتِ طب کو منہدم کرنے کی ہر کوشش کا مقابلہ کرنا ہوگا اور بڑی اچھی طرح یہ سمجھ لینا ہوگا کہ جدید علوم ہماری طب کے خادم تو ہوسکتے ہیں ، مخدوم نہیں ۔ ہم جدت طرازی کی خاطر اپنے علم و فن طب کی شان دار عمارت کو آئے دن بدلتے نظریات و افکار کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے۔ ہمارا علم طب آفاقی اصولوں کے تابع ہے، اس لئے اس کی آفاقیت کو نت نئے سائنسی افکار و نظریات اور طریقوں پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔
ہمیں یہ حقیقت بھی بڑی اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ ہمارا علم و فن طب ، ہر شعبے میں اپنے امتیازات و تفردات کا حامل ہے ۔ ذرائع و وسائل تشخیص سے معالجات تک، طرقِ علاج سے لے کر ادویات تک ، بنیادی نظریات سے لے کر عملی تجربات تک ، اس کی انفرادیت مسلمہ ہے۔ ہماری کلیات طب کا ایک ایک زاویہ ، ایک ایک گوشہ ، ایک ایک باب، اور ہر باب کی ایک ایک تفصیل ہماری طب کی جداگانہ حیثیت کی ناقابل تردید دلیل ہے، اور اسی وجہ سے اس کے الگ تشخص اور شناخت کی ترجمان۔ اس تشخص اورشناخت کو برقرار رکھ کر ہی ہم اپنے علم اور اس سے وابستہ لوگوں کی جداگانہ حیثیت اور مقام کا تحفظ کرسکتے ہیں۔
اب رہی یہ بات کہ ہم حاملین طب کے مقام و مرتبہ کو کیوں کر فزوں تر کرسکتے ہیں؟ یقینی طور پر اس کا ایک ہی اصول اور ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اہلیت و قابلیت اور کردار ان کی شخصیت کا جزو ِلاینفک بن جائے۔ آپ کو اپنے فن اور اس فن کی مختلف شاخوں پر جس قدر عبور حاصل ہوگا ، آپ کی علمی و عملی استعداد جس قدر بلند درجے کی حامل ہوگی ، آپ کا تجربہ جتنا وسیع ہوگا اور آپ کا اخلاقی وفنی کردار جس قدر ارفع ہوگا ، آپ کا مقام ومرتبہ اسی قدر عروج سے ہمکنار ہوگا۔ آپ کا تعلق اپنے خالق سے جتنا مضبوط ہوگا اور ان کی مخلوق کی ہمدردی و خیر خواہی آپ کے دل میں جس قدر جاگزیں ہوگی، آپ کا ہاتھ اسی قدر ’’شفا بخش ہاتھ‘‘ کا روپ دھار لے گا، اور تب آپ عظیم الشان مناصب اور اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل افراد سے زیادہ معزز و محترم، باوقار گردانے جائیں گے اور بلند تر مقام و مرتبہ کے مالک۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ طبیب یا حکیم کہلوانے سے آپ کا معاشرتی مقام و مرتبہ گہنا جاتا ہے اور ڈاکٹر کا سابقہ آپ کے نام کے ساتھ لگنے سے آپ بلند تر مرتبے پر فائز ہو جائیں گے تو اسے بصد معذرت ایک سطحی سوچ ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ہم اپنے ارد گرد کتنے ایسے افراد دیکھتے ہیں جن کے ناموں کے ساتھ بڑے بڑے سابقے اور لاحقے لگائے جاتے ہیں ، لیکن ان کی حقیقت حال جاننے والوں کی نظر میں ان کی حیثیت رائی سے بھی کم تر ہوتی ہے۔ ہم نے کتنے ہی اشخاص ایسے دیکھے ہیں جو ڈاکٹر تو کہلاتے ہیں لیکن انہیں جن القابات سے نوازا جاتا ہے ، انہیں سننے کا یارا بھی لوگوں میں نہیں پایا جاتا ۔ اگر آپ کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ موجود نہ ہو لیکن آپ کی صلاحیت ، استعداد ، قابلیت ، مہارت ، اہلیت ،ہمدردی و خیر خواہی اور ٹھوس کردار کا ایک زمانہ شاہد ہو تو لوگ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ، آپ کے احترام میں بچھے جاتے ہیں، آپ کی عظمت کے گن گاتے ہیں۔ اس کے برعکس آپ ڈاکٹر تو کہلوائیں لیکن متذکرہ بالا صفات سے عاری ہوں تو کوئی ایک فرد بھی آپ کوعزت و وقار کا سزا وار نہیں سمجھے گا۔ ہمارے ماضی و حال کے کتنے ہی اطباء اور حکماء ہیں جو اپنی اہلیت و قابلیت اور کردار کے باعث لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اپنی تعلیم گاہوں سے ایسے رجالِ کار تیار کریں جو اپنی اہلیت و قابلیت اور کردار سے ہر عام و خاص کے ذہن و قلب پر چھا جائیں، تب انہیں کسی بھی مخصوص سابقے یا لاحقے کو اپنی بیسا کھی بنانے کی حاجت نہیں رہے گی۔
کچھ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر کہلوانے سے ہم ہزاروں سالہ دقیانوسیت سے ناطہ توڑ کر جدید عہد سے اپنا رشتہ قائم کرلیں گے اور یوں عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جائیں گے ۔یہ دلیل اس اعتبار سے حیران کن ہے کہ عہد جدید میں بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ جس ادارے کی تاریخ جتنی پرانی ہوگی ، وہ اسی قدر معتبر اور قابل اعتماد ہوتا ہے ۔ خود ہمارے اپنے شعبے میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ ہو یا دوا سازی کا ، وہ جتنا قدیم ہوگا اتنا ہی وہ اسے اپنے لئے لائق افتخار گردانتا ہے۔ لوگ کیوں اپنی سلور ، گولڈن اور پلاٹینم جوبلی بڑے اعزاز کے ساتھ مناتے ہیں؟ صرف اس لئے کہ ان کی قدامت ، ان کا اثاثہ ہوتی ہے۔ پھر اس امر پر بھی ذرا غور کیجئے کہ کیا اپنے ماضی سے ناطہ توڑ کر کسی کے لئے بھی اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانا ممکن ہوتا ہے؟ اپنی جڑوں سے کٹ کر تو کوئی درخت بھی زندہ نہیں رہ پاتا۔ ہم بھی اپنے ماضی سے اپنا رشتہ توڑ کر حوادثِ زمانہ کے تھپیڑوں کی نذر ہو جائیں گے۔
ایک عرصے سے یہ بحث مباحثہ جاری ہے کہ بی ای ایم ایس گریجوایٹس کو ڈاکٹر آف نیچرل میڈیسن یا ڈاکٹر آف ایسٹرن میڈیسن کے نام سے پکارا جائے۔ ہم نے متذکرہ بالا گفتگو اسی تناظر میں کی ہے۔ ذاتی طور پر ہمیں اس سوچ سے شدید اختلاف ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کہلانے سے طب اور اطباء دونوں کا تشخص بری طرح مجروح ہوگا ۔ طب ہر دور میں ایک معزز اورباوقار پیشہ رہا ہے اور اس کے حامل اطباء کو ان کی صلاحیت و استعداد ، اہلیت و قابلیت اور کردار کی بدولت معاشرے کے بلند ترین افراد سمجھا جاتا ہے اور اب بھی یہی کیفیت ہے ۔ طبیب یا حکیم کو اس کے متذکرہ بالا اوصاف کی بدولت صرف ایک معالج ہی نہیں سمجھا جاتا رہا، اسے پورے معاشرے میں باوقار شخصیت کے طور پر بھی جانا جاتا رہا۔ لوگ طبیب سے اپنے عائلی مسائل تک بیان کردیا کرتے تھے ، اس سے مشورہ طلب کرتے اور راہ نمائی لیتے اور اس کی روشنی میں اپنے مسائل کو حل کرتے۔ اہل ، قابل اور صاحب کردار اطباء اور حکماء آج بھی اسی مقام کے حامل ہیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ طبیب یا حکیم کہلوا کر ہی ہم اپنے اس منفرد امتیاز کو برقرار رکھ سکتے ہیں، اپنے تشخص کومزید مستحکم کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی بھی مریض اگر کسی مطب کا رخ کرتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک طبیب کے پاس اپنے آلام کا مداوا کرنے کے لئے جارہا ہے۔ ڈاکٹر کہلوانے سے ہماری یہ شناخت معدوم ہوجائے گی اور ڈاکٹروں کی کان میں جا کر ہم بھی اسی نمک کا روپ دھار لیں گے جو اس کان میں موجود ہے۔ نہ ہمارا اپنا کوئی تشخص رہے گا اور نہ ہی انفرادیت ۔ یہی صورتِ حال رفتہ رفتہ فن طب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور پھر اس کا تشخص اور شناخت بھی ملیا میٹ ہو کر رہ جائے گی، جو ہزاروں سالہ تابندہ تاریخ کے حامل فن کو بے موت لحدمیں اتارنے کے مترادف ہوگی۔
ہمیں , Herbal Medicine,Eastern Medicine, Natural Medicine Alternative Medicineجیسی اصطلاحات کے استعمال پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہمارے نظام طب کے لئے مختلف اصلاحات وضع کرنا ، اسے اس کی حقیقی شناخت اور تشخص سے محروم کرنے کی سازش ہے۔ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ ایلو پیتھک یا ہو میو پیتھک کے لئے کوئی اور نام تجویز کیا جائے؟ پھر یہ کھلواڑ ہمارے نظام طب سے ہی کیوں ہوتا ہے؟ ہماری رائے میں ہمارے طریق علاج کے لئے سب سے بہتر اور حقائق سے قریب تر نام طب اسلامی ہے۔ فی الوقت اس پر طویل گفتگو کرنے کے نہ ضرورت ہے اور نہ ہی گنجائش۔ بس صرف اس قدر کہنا ضروری ہے کہ یورپ بھر کے مصنفین و مؤرخین نے اس نظام طب کوIslamic Medicineیا Arabian Medicine کے نام سے ہی یاد کیا ہے بالکل اسی طرح جیسےe Islamic Cultur،Islamic Philosophy اور Islamic Architectureوغیرہ کے نام استعمال کئے گئے ۔چونکہ 1965 کے طبی رجسٹریشن ایکٹ میں ہمارے نظام طب کے لئے طب یونانی کی اصطلاح وضع کی گئی اس لئے ہم نے ا سے بادل نخواستہ اسی نام سے موسوم کردیا ورنہ تاریخی و فنی حقائق کی روشنی میں ہم اسے علیٰ وجہ البصیرت طب اسلامی کے نام سے یاد کرنا زیادہ قرین قیاس اور درست تسلیم کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر اصطلاحات تو کسی طور بھی طب کے لئے مناسب نہیں ہیں۔
ہم ببانگ دہل اپنے اس موقف کا اظہار کرتے ہیں کہ طبیب اور حکیم کے لفظ کے بجائے ڈاکٹر کا استعمال ہمارے فن اور اس سے وابستہ لوگوں کے تشخص کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ اس سے معاشرے میں ہماری شناخت مٹ جائے گی۔ اس کی انفرادیت اور جداگانہ حیثیت پر ضرب کاری لگے گی۔ اس کی تابندہ تاریخ سے ہمارا رشتہ و ناطہ منقطع ہو جائے گا، ہمارے فن کے امتیازات و تفردات پر کاری وار ہوگا اور بالآخر ہمارے اسلاف کے عظیم فن کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔
اللہ تعالیٰ اس روزِ بد سے ہمیں محفوظ رکھیں۔
٭…٭…٭