تھیراپیوٹک گڈز کنٹرول ایکٹ اور ہماری گزارشات

ہم اسے طب اسلامی کا نام دیں، طب یونانی کے نام سے پکاریں یا طب مشرق کا لیبل اس پر چسپاں کریں، اسے ہمیشہ ایک الگ نظامِ طب کے طور پر جانا ، پہچانا اور مانا گیا۔ اسی لئے اس فن سے وابستہ افراد کو قانون کے دائرہ میں لانے کے لئے 1965ء میں ایکٹ IIکے طور پر جداگانہ قانون تشکیل دیا گیا ۔ اسے پارلیمنٹ نے منظور کیا۔ اس کی رو سے طب یونانی، آیورویدک اور ہومیوپیتھک نظام ہائے طب کے حاملین کی رجسٹریشن کی گئی اور ان کی تعلیم ، تدریس ، امتحانات ،  طبی تحقیق اور فارغ التحصیل ہونے والے حضرات کی رجسٹریشن کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے تحت طبی تعلیمی ادارے وجود پذیر ہوئے اور ان کی سرکاری طو رپر منظوری دی گئی۔ پہلے یہ امور بورڈ آف یونانی اینڈ آیورویدک سسٹمز آف میڈیسن سرانجام دیتا تھا ۔ بعد ازاں اس ادارے کو دیگر نظام ہائے علاج کے لئے قائم کردہ کونسلز کے ہم پلہ بنانے کے لئے اسے قومی طبی کونسل کا نام دے دیا گیا۔

            طب کے اس جداگانہ تشخص کے پیش نظر 1985ء میں طبی دو ا سازی کے لئے ایک الگ قانون کی تشکیل کا عمل شروع ہوا۔ کبھی اسے طبی بورڈ ؍ کونسل کے دائرہ کار میں لانے کے لئے قانون سازی پر غور و فکر ہوتا رہا اور کبھی اس کے لئے ایک الگ قانون کی تشکیل اور منظوری کے لئے جدوجہد جاری رہی۔ یہ عمل کم و بیش 27طویل برسوں پر محیط رہا۔ اس دوران چار بار یہ بل کی صورت میں قو می اسمبلی میں پیش ہوا، لیکن قانون سازی کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد بھی اسے قانون کے طور پر منظور نہ کیا جاسکا۔ شائد کچھ نادیدہ ہاتھ ایسا نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طبی ،آیورویدک اور ہومیوپیتھک ادویات کو 1976ء کے ڈرگ ایکٹ میں ڈرگ کی تعریف سے استثنیٰ حاصل رہا۔

2012ء میں تب کی حکومت نے اپنے مخصوص مفادات کی غرض سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کا قانون آرڈی ننس کی صورت میں نافذ کیا اور طبی دو ا سازی کی صنعت پر بھی اسے لاگو کر دیا گیا۔ یہ قانون چونکہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر تیار اور نافذ کیا گیا تھا اس لئے اس میںکئی ایک تضادات موجود تھے۔ طبی ادویات کے لئے جو ڈائریکٹوریٹ بنایا گیا، اسے ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ اینڈ او ٹی سی (نان ڈرگز) کا نام دیا گیا لیکن طبی دوا سازی کی صنعت اور ادویات کی انلسٹمنٹ کے لئے جو طریقِ کار ایس آر او 412میں تجویز کیا گیا وہ عملاً ایلوپیتھک نظام کا ہی چربہ تھا، او ر اس کا دور دور تک کوئی ناطہ طب یونانی کی فلاسفی،اس کی صنعت دوا سازی اور زمینی حقائق سے ہر گز ہر گز نہ تھا۔ غیر منطقی اور غیر ضروری قواعد و ضوابط کے نفاذ نے طبی دو ا ساز اداروں کے لئے زہر ہلاہل کا کام کیا اور سینکڑوں چھوٹے اور درمیانے درجے کے معیاری دو ا ساز اداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کئی نسلوں سے طبی صنعت ِ دوا سازی سے وابستہ خاندان اپنے جدی پشتی پیشے کو ترک کرنے پر مجبور کر دیئے گئے۔ اس دوران بار بار کے غیر منصفانہ کریک ڈائون نے معززو باوقار لوگوں کی عزتِ نفس کو مجروح کیا۔ ان کے اداروں کو سیل کیا گیا، ان پر مقدمات قائم کئے گئے اور انہیں پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس مشینری کے ذریعے کیا گیا جو طب یونانی اور اس کے طریقِ دو ا سازی کی مبادیات سے بھی آگاہ نہ تھی۔

اس عمل کے نتیجے میں سینکڑوں دوا ساز اداروں کے بند ہونے سے ہزارہا لوگ بے روزگار ہو گئے، لاکھوں کا کاروبار متاثر ہوا۔ دوسری طرف وہ صنعت جسے حکومت کی طرف سرپرستی حاصل ہونی چاہیے تھی اور اسے سہولیات بہم پہنچائی جانی چاہئیں تھیں ، وہ موت کے منہ میں دھکیلی جانے لگی۔ اندازہ صرف اس امر سے لگا لیجئے کہ 2014ء میں ایس آر او 412کے نفاذ کے بعد سے اب تک کے سات برسوں پر محیط عرصے میں طب یونانی کی صنعتِ دوا سازی کے کم و بیش 30ادارے ہی انلسٹمنٹ سرٹیفکیٹ حاصل کرسکے، اور ان اداروں کو بھی نظام کے ہاتھوں بے پناہ مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے۔

ہم نہیں جانتے کہ سابقہ اور موجودہ حکم رانوں کو صورتِ حال کی اس سنگینی کا ادراک ہے یا نہیں؟ چونکہ سرکاری سطح پر یونانی دوا سازی کی صنعت کے نمائندوں کی مختلف سطحوں پر کم ہی شنوائی ہوتی ہے ، اس لئے اغلب امکان تو یہی ہے کہ وہ اس سے بے خبر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نے جب بھی DRAPکے نقصانات کا ذکرکیا ہے تو فارماسیکٹر اور اور اس کی برآمدات کے حوالے سے ہی کیا ہے۔ حالانکہ انھیں اس تلخ حقیقت سے بھی آگاہ ہونا چاہیے کہ DRAPکی وجہ سے پوری طبی صنعتِ دوا سازی کا وجود ہی دائو پر لگ چکا ہے۔ اس وقت جبکہ حکومت ڈریپ کے فارماسیکٹر پر مرتب ہونے والے بُرے اثرات کو زائل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے ، اسے ان محرکات کا جائزہ بھی لینا چاہیے جن کے تحت طبی صنعتِ دوا سازی کو DRAPکے کنٹرول میں دیا گیا اور پھر اس کی مقامی صنعت کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا گیا، حالانکہ یہ وہ صنعت ہے جسے اگر حکومت کی باقاعدہ سرپرستی حاصل ہو، وہ اس صنعت کے نمائندوں کی مشاورت سے پالیسیاں وضع کرے اور پھر اس نظام کے ماہرین کے ذریعے اس صنعت کو ریگولیٹ کرے تو یہ صنعت بین الاقوامی مارکیٹ میں ہمسایہ ملک کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئے ملک کے لئے بہت ہی قیمتی زر مبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔

وفاقی حکومت اس وقت DRAPکی جگہ پر Therapeatic Goods Control Actلانے پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی غرض سے قانون کا مسودہ ان کی آراء کے حصول کے لئے انھیں بھجوایا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام یقینا لائقِ تحسین ہے۔ اس مسودے کی رو سے ہم درج ذیل سفارشات پیش کرتے ہیں

1۔  طب یونانی اور آیورویدک کی ادویات کو ڈرگ ایکٹ1976ء کی طرح Drugکی تعریف سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ مختلف ممالک کے قوانین میں بھی ان پر یا توDrugکا اطلاق نہیں ہوتا، یا پھر ان کے لئے قانون میں الگ باب تشکیل دے کر اسے باقی ماندہ سارے قانون کی جملہ دفعات سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

2۔   طبی دوا سازی کی صنعت کی ترقی کے لئے سب سے بہتر حل تو یہ ہے کہ اسے مجوزہ قانون کا حصہ نہ بنایا جائے بلکہ اسے پہلے سے موجود اُس سرکاری ادارے کے سپرد کر دیا جائے جہاں طب یونانی کے ماہرین موجود ہیں۔ یہ ادارہ قومی طبی کونسل ہے جو وزارتِ صحت کے تحت کام کرتا ہے۔

3۔   اگر اس صنعت کو مجوزہ قانون کے تحت ہی لانا ضروری ہے تو مجوزہ اتھارٹی میں طب یونانی کی دوا سازی کے لئے الگ ڈائریکٹوریٹ ؍ ڈویژن قائم کیا جائے جس میں صرف طب یونانی کے ماہرین کا ہی تقرر کیا جائے۔

4۔   یونانی دواسازی کی صنعت کو ہمارے ہمسایہ ملک میں کئی دہائیوں سے ریگولیٹ کیا جا رہا ہے، اس لئے اس کے ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے مقامی زمینی حقائق اور تقاضوں کے مطابق ، دوا سازاداروں کے نمائندوں کی مشاورت سے نظام وضع کیا جائے اور اسے کسی طو رپر غیر طبی ماہرین کے سپرد نہ کیا جائے۔

5۔   جو بھی قانون یا نظام وضع کیا جائے، اس کا اصل ہدف طبی دوا سازی کی مقامی صنعت کو سہولیات بہم پہنچا کر اس کی ترقی ہو۔ غیر ضروری اور غیر منطقی پابندیوں سے اسے بہر صورت بچایا جائے۔

6۔   تشکیل دیئے جانے والے قانون کا اطلاق اپنے اپنے مطب کے لئے اطباء کی دوا سازی پر نہیں ہونا چاہیے۔ اطباء کی اپنے مریضوں کے لئے دوا سازی ہمارے فن کا بنیادی تقاضا اور ضرورت ہے۔

ہم اس یقین سے سرشار ہیں کہ موجودہ حکومت نے مشاورت کے جس اچھے عمل کا آغاز کیا ہے ، وہ اسے پورے خلوص اور نیک نیتی سے پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ وہ ان سفارشات پر یقینا عمل درآمد کرے گی جو طبی دوا ساز اداروں کی واحد نمائندہ تنظیم پاکستان طبی فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے پیش کی ہیں۔ ایسا کرنے سے ان شاء اللہ یہ صنعت ترقی کرے گی، مریضوں کو سستی ، مؤثر اور معیاری ادویات فراہم کر سکے گی اور طبی ادویات کی برآمد سے ملک کے لئے قیمتی زر مبادلہ کے حصول کا ذریعہ بن جائے گی۔

ڈاکٹر زاہد اشرف

٭…٭…٭

تھیراپیوٹک گڈز کنٹرول ایکٹ اور ہماری گزارشات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *