طب کے امتیازی تفردات اور ہماری کامیابی

اس وقت دنیا میں مختلف نظام ہائے طب رائج ہیں ۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو مختلف علاقوں ، خطوں ، ممالک اور مناطق میں رائج رہے، رائج ہیں۔ ان کی ابتداء وہیں ہوئی، پھر تدریجاً ان کی ترقی کی منازل طے ہوتی رہیں ۔ ہم تاریخ طب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں طب مصری ، طب بابلی ، طب یونانی ، طب ہندی، طب فارس، طب چین اور طب عربی جیسے معروف نام تو ملتے ہی ہیں ، ان کے علاوہ بھی کئی ایک علاقائی طبیں تھیں جو اپنے اپنے محدود علاقوں میں رائج رہیں اور وہاں کے باشندے ازالہ امراض و اعادۂ صحت اور حفظان و بقائے صحت کے لئے ان سے استفادہ کرتے رہے۔ ان طبوں کو پروان چڑھانے میں ان علاقوں اور خطوں کے ماہرین طب نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے فکری و نظری اور علمی و عملی اعتبار سے انہیں ترقی دی۔ ترقی کے مدارج رفتہ رفتہ طے ہوتے رہے۔ ابتداء ً اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی فراہم کردہ راہ نمائی او پھر تجرباتی بنیادوں پر طبی معلومات کی دریافت نے علم طب اور اس کی مختلف شاخوں کی ترقی کو ممکن بنایا ۔ انفرادی سطح پر حاصل ہونے والی معلومات آہستہ آہستہ جمع و تدوین کے مراحل سے گزرنے لگیں جس کے نتیجے میں علم طب کے خدو خال اجاگر ہوئے ، اس کے ڈھانچے کی تشکیل ہوئی۔ اس کے اساسات و مبادیات کا تعین ہوا ، اس کی مختلف شاخیں وجود آشنا ہوئیں اور سب سے بڑھ کر تصنیف و تالیف کے مرحلے کا آغاز ہوا۔

قدیم اطباء کی تصنیفات ہی آنے والی نسلوں کی راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں۔ ان میں ہر طب کی فلاسفی ، اس کی اساسات و مبادیات ، اس کے نظام تشخیص و علاج کا احاطہ کیا گیا ۔ اس کی مفرد و مرکب ادویات اور ان کے افعال و خواص کو بیان کیا گیا ۔ متذکرہ بالا نظام ہائے طب کی قدیم کتب کا مطالعہ کرلیجئے ، آپ کو یہ سب کچھ ان میں ملے گا۔ ہر نظام ط کئی پہلوئوں سے آپ کو دیگر طریق ہائے علاج و طب سے مختلف نظر آئے گا۔ ان کے اصول و نظریات میں تفاوت ہوگا ، ان کے تشخیصی طریقے ایک دوسرے سے جداہوں گے، ان کے معالجات میں فرق ہوگا ، ان کی ادویات ایک جیسی نہیں ہوں گی۔

طب یونانی ، جسے طب اسلامی اور طب عربی کے نام بھی دیئے جاتے ہیں اور تاریخی تناظر میں یہی درست بھی لگتے ہیں، اس کے اساسات و مبادیات دیگر طبوں سے یکسر مختلف ہیں۔ اس کا فلسفہ ان سب سے یگانہ و مختلف ہے۔ اس میں مزاج، ارکان اور اخلاط سے متعلقہ نظریات اس کے امتیازات میں سر فہرست ہیں اور اسی بنیاد پر یہ فن طب انفرادیت کا حامل ہے۔ جب تک اس کی یہ انفرادیت برقرار رہے گی، اس کا تشخص اور اس کی شناخت برقرار رہے گی اور اس اعتبار سے اس کی افادیت بھی۔

بطور ِمثال ہماری طب میں مزاج کا نظریہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو قطعاً غلط نہیں ہوگا کہ یہ نظام علاج جن ستونوں پر قائم ہے ان میں مزاج کی حیثیت محض ایک ستون ہی کی نہیں ، یہ اس کی بنیاد ہے۔یہ مزاج مرض،مریض اور دوا تینوں کا ہوتا ہے اور تینوں کے مزاج کی موافقت ہی اللہ تعالیٰ کے اِذن سے شافی علاج کی ضمانت قرار پاتی ہے۔ نبی محتشم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ:

اِذَا وَافَقَ الدَّوَائُ الدَّائَ بَرِیَٔ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔

جب دوا مرض کے موافق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے مرض سے نجات مل جاتی ہے۔

انھی اساسات و مبادیات، اصول علاج اور امتیازی تفردات کی بدولت ہی ہر فن زندہ رہتا ہے ۔ اس حقیقت سے کماحقہ آگہی ہی اپنے فن کے ساتھ ہماری وابستگی کو مستحکم کرے گی اور اسی کی بنیاد پر ہی ہم کامیاب معالج کا روپ دھار سکیں گے، ان شاء اللہ۔

ڈاکٹر زاھد اشرف

٭…٭…٭

طب کے امتیازی تفردات اور ہماری کامیابی
Tagged on:                     

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *