
نسان کے لئے انتہائی مفید خاصیت رکھنے والے اس ادویاتی پودے کو لوگ اسگند کے نام سے جانتے ہیں مگر اسے آکسن بھی کہتے ہیں۔ قدیم ہندوستانی کتب میں اسے اسگند ہی کہا جاتاہے۔یہ ایک خود رواگنے والا پوداہے، جو پاکستان میں پنجاب کے مرطوب،گرم خشک یانیم صحرائی علاقوں میں تقریباً سبھی جگہ عام پایا جاتا ہے۔ اس پودے کی لگ بھگ 84اقسام دنیا کے بیشتر حصوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ صدیوں سے مختلف امراض کے علاج کے لیے مقامی آبادیوں میں استعمال ہو رہا ہے ۔مگر اتنی اقسام میں سے صرف دو اقسام وتھانیا سومنیفیرا دنل(Withania Somnifera) اور وتھانیا کوآگولانز (Withania Coagulans)ہی برصغیر میں زیادہ معروف و مستعمل ہیں۔
مندرجہ بالادو اقسام کی اب تو باقاعدہ کاشت کی جاتی ہے۔ اس کی دو اقسام ہوتی ہیں جنگلی اور بستانی(کاشت شدہ) جنگلی یعنی خودرو کی نسبت کاشت شدہ آکسن کی افادیت قدرے کم ہے۔ ایک زمانے میں انڈیا کے علاقے راجستھان سے آکسن،اسگند ناگوری کے نام سے ملا کرتی تھی جو دراصل وہاں کے ایک شہر ناگور کے نواحی علاقوں کی پیداوارتھی اور خاصیت میں اعلی سمجھی جاتی تھی لیکن اب یہ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے۔ وطن عزیز میں وسطی یا جنوبی پنجاب، سندھ یا پھر بلوچستان سے ملنے والی اسگند اِستعمال کی جاتی ہے۔ ان علاقوں سے ملنے والی آکسن اپنی افادیت میں ہندوستانی اسگند سے کسی طرح بھی کم نہیںبلکہ قدرے بہتر ہے۔
یوں تو پورا پودا ہی مستعمل ہے مگر یہاں تک کہ اس کے تازہ پتے بھی امراض کی بعض نوعیتوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس پودے کا سب سے مفید جز اس کی خشک جڑ ہے جو زیادہ تر اِستعمال کی جاتی ہیں۔ یہ خشک جڑیں پنساری کے ہاںبآ سانی دستیاب ہیں۔ صرف یہ خیال رہے کہ انہیں کیڑا لگا ہوا نہ ہو ۔ ان جڑوں کو کیڑا بہت جلد لگ جاتا ہے۔جس کے بعد یہ استعمال کے قابل نہیں رہتیں۔ خریدتے وقت ایک اور بات کا بھی خیال رکھیں کہ یہ ایک سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں۔ کیونکہ ان کی افادیت دو سال تک برقرار رہتی ہے لیکن اگر ایک سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں تو افادیت نسبتاً بھرپور رہے گی۔
پاکستان میں آکسن ہی کی طرح کی ایک اور جڑ بھی ہے جس کا ذکر قبل ازیں اس کی اقسام میں کیا جا چکا ہے یعنی(Withania Coagulans)اس کا نام یاوتھانیا کوایگولینز ہے۔ اسے طبی زبان میں تخم حیات ، پنیر ڈوڈی آو شک یا خماز ور مختلف مقامی زبانوں میںکہتے ہیں۔ پشاور، وسطی و جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مقامی لوگ ایک عرصہ سے اس کا استعمال جانتے ہیں۔ تخم حیات کے سات سے دس دانے موٹا موٹا کوٹ کر کسی باریک کپڑے میں پوٹلی باندھ کر کلو بھرنیم گرم دودھ میں رکھیں تو ایک گھنٹے میں دودھ پھٹ کر جم جائے گا اور نہایت اعلی درجہ کا پنیر یا دہی تیار ہو گا اسی عمل کے باعث اسے پنیر ڈوڈی یا ڈوڈھی کہتے ہیں۔
آج کل جوڑوں یا ہڈیوں میں درد کے علاج کے طور پر سٹیرائیڈز کے استعمال کا رواج بہت عام ہے، اس سے مضر اثرات شروع ہوجاتے ہیں۔جب کہ ان سٹیرائیڈز کی نسبت اسگند کا استعمال بہت بہتر رہتا ہے کیونکہ مضر اثرات نہ ہونے کی وجہ سے مریض پیچیدگیوں سے محفوظ رہتا ہے۔آکسن سکون آور ہونے کے علاوہ اعصابی کمزوری کی وجہ سے لاحق ہونے والے درد، رگوں و پٹھوں میں کچھائو (اینٹھن) اور نیند نہ آنے کی شکایت کو دور کرتی ہے۔بدن میں چستی لاتی اور ذہنی تنائو دورکرتی ہے ۔ اس کے استعمال سے جوڑوں میں درد کے ساتھ سوجن بھی ختم ہو جاتی ہے۔
اس کے مسلسل استعمال سے ہڈیاں مضبوط ہو تی ہیں۔ پچاس سے اوپر کی عمر والی عورتوں میں آسٹیوپروسس کی وجہ سے ہڈیاں کمزور اور بوسیدہ ہونے لگتی ہیں۔انہیں یہ دیسی دوا استعمال کرانے سے خاص فائدہ ہوتا ہے۔ جوڑوں یا کمر کے مہروں کا اپنی جگہ سے ہل جانا،گنٹھیا،درد کمر،کولہے کا درد اور عرق النسا وغیرہ سب درست ہو جاتے ہیں۔
کتاب المفردات میں اس کے طبی اوصاف مندرجہ ذیل درج ہیں’’یہ دوا مقوی اعصاب، مقوی بدن، بندش سیلان و جریان، مقویِ باہ اور مساعد حمل ہے۔ ولادت کے وقت زچہ کواس کا استعمال کرایا جاتا ہے اور ایسا کرنے سے بچے کی پیدائش باسہولت ہو جاتی ہے۔‘‘
کیلوری کی ضروریات دن بدن قوت کے استعمال کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ زیادہ فارغ رہنے والے آدمی کو 2500 کیلوری یومیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اوسط متحرک آدمی کو 3000 کی اور محنت مزدوری کرنے والے کو 4500 یا اس سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک عورت کو کم کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، اگر وہ فارغ ہے، تو 2100 اور اگر زیادہ کام کرتی ہے تو 3000 کی۔ ایک تین سالہ بچے کو 1200 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وزن کو کم کرنے کے لیے زیادہ کیلوریز والے کھانے پر سختی سے کنٹرول کرتے ہوئے مجموعی کیلوریز کی حد کے اندر رہتے ہوئے موٹاپا کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف کم کیلوریز والے کھانے مثلًا :تازہ سلاد، پھل، جوس، دود ھ اور جڑوں والی سبزیاں بھوک کو مٹانے کے لیے استعمال کی جانی چاہئیں۔ نوجوانوں کے لیے جو موٹاپے کا شکار ہیں، بہت ضروری ہے کہ نشاستہ دار کھانوں، بازاری مشروبات جیسے کوکا کولا، مٹھائیاں اور دوسرے کھانے جن میں کاربوہائیڈریٹس زیادہ ہوتے ہیں سے پرہیز کریں۔
جن میاں بیوی کے ہاں کسی نقص کی بنا پر اولاد نہیں ہوتی تو اسگند کے استعمال سے مرداورعورت دونوں کے نقائص دور ہو جاتے ہیں۔ کرم منی کی تعداد میں کمی ہو یا کرم کمزور ہوں تو وہ بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ اسگندکے مرکبات استعمال کرنے سے بے اولاد جوڑے صاحب اولاد ہوجاتے ہیں۔ یہ جسم میں خون کی کمی کو دور کرتی ہے۔ یہ شکایت عموما ًعمر رسیدہ افراد کو رہتی ہے یہ دوا خون میں شکر کو معمول کی حد تک رکھنے کی طبی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ ذیابیطس کوکنٹرول کرتی اورمعدہ و امعاء کو بھی صحت مند حالت میں رکھتی ہے۔ معدے کی گیس اور بواسیر کے نسخوں میں اسگند کو بھی بطور جز شامل کیا جاتا ہے۔
ایک جگہ لکھا ہے کہ سو برس کے عمر رسیدہ آدمیوں کو مسلسل ایک برس تک اسگند استعمال کرائی گئی تو مرد عورت کی تفریق کے بغیر بال سفید ہونا رک گئے اور ان میں سفیدی کی جگہ سرمئی جھلک آ گئی۔ غرض کہ اسگند کے اِستعمال سے بڑھاپے کی آمد سست ہو جاتی ہے۔اس کے مسلسل اِستعمال سے معدہ درست ، کھانا ہضم اور کھایا پیا جزوِبدن بن جاتا ہے۔ ہڈیوں اور عضلات میں قوت آتی ہے۔ بالوں کی سیاہی واپس آنا شروع ہو جاتی ہے، جگر بہتر کام کرنے لگتا ہے اور یادداشت بھی اچھی ہوجاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ ڈھلتا شباب بڑھاپے کی طرف جاتے ہوئے واپس لوٹ آتا ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔جسمانی تھکن،بے چینی،چڑچڑا پن،بھوک میں کمی، کمزوری،نیند میں کمی،جنسی دل چسپی میں کمی ،خود اعتمادی میں کمی وغیرہ سب دور ہو جاتے ہیں۔ چہرے پر سرخی آنے کے ساتھ ساتھ چہرے کی جھریوں میں بھی کمی آجاتی ہے۔ آکسن کا مفرد استعمال اپنے آپ میں طبی فوائد تو بہت رکھتا ہے لیکن اگر اسے دیگر مفید مفردات کے ساتھ مرکب کر لیا جائے تو فوائد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ایک آسان نسخہ پیش ہے،جس کی افادیت مسلم ہے۔سرعت انزال اور کثرت احتلام وغیرہ کی روک تھام،رقت منی میں بہتری، کرم منی کی تعداد میں کمی،ضعف نیز اس سے پیدا شدہ نقص افعال معدہ اور بچوں کی جسمانی لاغری دور ہو جاتی ہے۔ زچہ کو دودھ کی فراہمی میں کمی،مسلسل زیر استعمال رکھنے سے عمر رسیدگی سے منسوب جِسمانی کمزوری، خون کی کمی دور ہوتی ہیں۔نسخہ درج کرنے سے پہلے کچھ اہم باتیں ذہین نشین کرلیں۔جو اشیا ء خریدی جائیں وہ پرانی، پھپھوندی اورملاوٹ زدہ نہ ہوں اور کسی بھی جز کا بدل نہ لیاجائے۔ دیئے گئے اوزان کی نسبت میں کمی بیشی ہرگز نہ کی جائے۔انہیں کوٹنے یاپیسنے سے پہلے صاف کرلیں۔ غیر مطلوب، غیرمانوس اشیاء کو چن لیا جائے۔ تیاری کے بعد دوا کو دھاتی کی بجائے شیشے کے ظرف میں رکھیں ،ہوا اور رطوبت سے بچائیں۔
ہوالشافی
اسگند 50گرام بدھارا 50گرام ستاور 50گرام
تینوں اجزاء گرائنڈر کی مدد سے علیحدہ علیحدہ سے باریک سفوف بنالیں۔ سفوف ہو جانے کے بعد وزن کر یں اور باہم ملا لیں، دوا تیار ہے۔ مٹھاس کے لئے مصری چاہیں توملالیں۔ بغیر مصری شامل کئے ذیابیطس کے مریض بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ بالغ افرادکے لیے اِس کی خوراک بقدر چھ گرام روزانہ صبح و شام ایک گلاس نیم گرم گائے یابھینس کے دودھ کے ساتھ ہے۔پانچ سال سے بارہ سال عمر کے بچوں کو دو سے تین گرام کی ایک خوراک سے زیادہ نہ دیں۔ دبلے اور کمزورجسم کے بچوں کواسے کھلانے سے بہت فائدہ ہوتا ہے ۔ ان کا جسم فربہ اور وزن میں بہتری آتی ہے۔بچوں کے لیے اگر یہی نسخہ اِستعمال کرنا ہو تو صرف دو اجزا ء اسگند اور بدھارا لے لیں۔ فوائد وہی رہیں گے۔
جب مرد حضرات عمر میں پچاس سال سے اوپر ہو جائیں اور وہ قبل ازیں کثرت جماع کے عادی رہے ہوں مگر اب صرف حسرت جماع ہی باقی رہ جائے توایسے حضرات آٹھ گرام پِسی ہوئی آکسن یا اسگند لیں اور تقریبا کلو بھر دودھ میں شامل کر نے کے بعد دودھ کو ہلکی آنچ پر ابلنے دیں ۔ جب دودھ تقریبا ًآدھا رہ جائے تو موسم کی مناسبت سے اگر موسم گرم ہے تو دودھ ٹھنڈا کرلیں اور اگر موسم سرد ہے تو دودھ نیم گرم ہی لیں۔ دودھ میں اگر شہد ملا لیں تو خوب ورنہ شکرملا کر اِستعمال کیجئے۔ذیابیطس کے مریض بغیر شکرملائے استعمال کریں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ شکر کے بغیر پینے کی عادت رکھنا افضل فعل ہو گا۔یہ نسخہ دو سے تین ماہ استعمال کریں، چاہیں تو زیادہ عرصہ بھی اِستعمال رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ کہ یہ ایک دیسی نوعیت کا جنرل ٹانک ہے۔
حکیم راناعبدالستار
٭…٭…٭