
19ویں صدی کے برطانوی راج میں مصنوعی برف کی سلیں امریکہ سے کلکتہ آنے والے جہازوں کے ذریعے سے بر صغیر آنے لگی تھیں۔ اس سے پہلے مغلوں کے لئے کشمیر سے پہاڑوں کی قدرتی برف لا کر تہ خانوں میں گرمیوں کے لئے محفوظ رکھی جاتی تھی۔ ان دنوں برف عوام کے لئے اتنی عام نہیں تھی،جتنی آج ہے۔
گرمیوں کے آتے ہی گلی کوچوں میں رنگ برنگے شربتوں کی بوتلوں سے سجے ٹھیلوں یا ہاتھ گاڑیوں پر بانس کی تیلیوں پر لپٹا ہوا سفید براق برف کا چورا، دو تین مختلف رنگوں کے شربتوں میں نہا کر آنکھوں کو بڑی طراوت ، زبان کو مزہ اور کلیجے کو ٹھنڈک مہیا کرتا ہوا نظر آتاہے۔ اسے زیادہ تر گولا گنڈاکہتے ہیں ، کہیں یہ چسکی بھی کہلاتا ہے ۔ گجراتی زبان میں یہ برف نوگولو، یعنی برف کا گولا کہلاتا ہے ۔ دنیا بھر کی طرح گولا گنڈا پاکستانی عوام خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کو بے حد مرغوب ہے۔ شدید گرمیوں میں جس طرح بہار کی تازہ ہوادل کا ملال لے جاتی ہے ، بالکل اسی طرح ٹھنڈا میٹھا گولا گنڈا بھی دل کی ساری کلفتوں کو دور کردیتا ہے۔ گولے گنڈے کو شیریں ڈش کے طور پر گلاسوں اور پیالوں میں بھی کھایا جاتا ہے
یہاں یہ تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ گولا گنڈا دوسرے ملکوں میں بھی شوق سے کھایا جاتا ہے اور ہر جگہ اس مقصد کے لئے اچھی قسم کی صاف ستھری اور محفوظ برف استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،لیکن بنیادی طور پر یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ صاف ستھرے جراثیم سے پاک پانی سے اسے جمایا جائے۔
جنوبی ایشیا کے ہر شہر میں گولا گنڈا بیچنے والے گلی گلی نظر آتے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی بچے اس دل پسند، ٹھنڈے میٹھے گولے کو خریدنے کے لئے لپکتے ہیں۔ گلی محلے میں بچے، بچیاں اور نوجوان تیلیوں میں لپٹے رنگ برنگے گولوں کی شکل میں ، کٹوروں اور پیالوں میں اسے خوشی خوشی خرید کر لے جاتے ہیں۔ اس موسم میں گولا گنڈا والا سب کو بہت بھلا لگتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے برف کو ٹ کر چورا کی جاتی تھی ، لیکن اب ایسی چرخیاں آنے لگی ہیں جو برف کو چھیل کر گولا بنانے کے قابل بنادیتی ہیں۔ دوسری صورت میں لکڑی چھیلنے کے رندے سے بھی کام لیا جاتا ہے۔
گولے گنڈے کے استعمال یا اس کے آغاز کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ 19ویں صدی میں تجارتی پیمانے پر برف کی تیاری کے بعد یہ سلسلہ امریکہ کے شہربالٹی مور سے شروع ہوا۔ اس وقت اسے انڈوں کے کسٹرڈ کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔1934ء میں ارنسٹ ہینسن نامی ایک شخص نے برف چھیلنے کی مشین بنائی اور اس کی بیوی نے کئی خوشبو دار شربت اس مقصد کے لئے تیار کئے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اٹلی کے مقابلے میں یہ گولے گنڈے صاف پانی سے جمی برف سے بنانے کا خاص اہتمام کیا۔
امریکہ کے جزیرے ہوائی میں برف کا چورا مخروطی شکل کے کاغذی پیالوں میں فروخت ہوتا ہے۔ ملائشیا اور انڈونیشیا میں یہ ٹھنڈی و شیریں مٹھائی مقامی طور پر کاچنگ کے نام سے فروخت ہوتی ہے۔ شروع شروع میں اس کے اوپر سرخ سیم کے نرم اور میٹھے بیج ڈالے جاتے تھے ، اس کے علاوہ دوسری میٹھی اشیاء بھی اوپر سے ڈالی جاتی تھیں۔
دوسرے ملکوں میں گولا گنڈا اب گلی کوچوں سے نکل کر ہوٹلوں میں فروخت ہونے لگا ہے جو یقینا مہنگا ہوتا ہے ،لیکن یہ ہوتا بہت مزے دار اور صاف ستھرا ہے۔ اس کی تیاری میں تین چار اقسام کے ذائقے والے مختلف رنگوں کے شربت استعمال کئے جاتے ہیں ۔ عام طور پر پیالے میں پہلے سیم کے میٹھے بیج یا ونیلا آئس کریم ، برف کا چورا اور رنگین شربت اوپر سے ڈال کر گاہکوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کے رنگ برنگے برف کے چورے کے اوپر کھویا بھی ڈالا جاتا ہے ۔یہ سلسلہ پاکستان میں بھی عام ہے۔

گولا گنڈا ایک سستی اور مقبول ٹھنڈی میٹھی عوامی ڈش ہے، جو گرم ممالک کے لوگوں کو ٹھنڈک اور تسکین پہنچاتی ہے ۔ آئس کریم کے بر خلاف اس میں چکنائی نہیں ہوتی۔ہاں صحت کے معاملے میں محتاط افراد اس کے استعمال سے کتراتے ہیں،کیوں کہ برف اور شربت دونوں کا معیاری ہونا ضروری ہے۔
بر صغیر پاک و ہند میں صحت کے معاملے میں محتاط خواتین پچھلے ایک سو سال سے گھر میں صاف ستھری برف کے چورے میں خوش بودار اور خوش رنگ روح افزا یا جام شیریں کے ساتھ یہ میٹھی ڈش تیار کررہی ہیں ، جو کئی اعتبار سے مفید اور مؤثر ہے۔
اس میں شک نہیں کہ گلی کوچوں میں ملنے والا گولا گنڈا خطرۂ صحت ہوتا ہے ، اس سے بالعموم دست و بدہضمی، گلے کی خرابی، کھانسی اوردانتوں کی حساسیت کی شکایت ہو جاتی ہے۔
لیکن صرف گولا گنڈا ہی کیوں برا ٹھہرے، ہمارے بازاروں میں ملنے والی کن کن اشیاء کو آپ جراثیم سے پاک صاف قرار دے سکتے ہیں۔ ہم تو گوشت اورمچھلی جیسی مہنگی اشیاء خرید کر بھی امراض خرید لیتے ہیں۔ سستے گولا گنڈے کا کیا قصور! اس سلسلے میں اگر خود خریدار صاف پانی سے دھلے گلاس اور پیالوں پر اصرار کریں تو گولا گنڈے والا بھی اس کا پابند ہو سکتا ہے یا پھر بہتر یہ ہے کہ کم از کم گھر کے صاف برتن میں اسے تیار کروا کر کھائیں۔ بوتلوں میں مختلف رنگوں کے نجانے کب کے بنائے ہوئے شربت جمع ہوتے ہیں، گندے گلاس رکھے ہوتے ہیں، ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوتی ہیں اور گلی سڑی آلودہ بوری میں لپٹی برف کی سل پیچھے فٹ پاتھ پر رکھی ہوتی ہے، اس برف سے لے کر تیار کیا ہوا گولا گنڈا ہم شوق سے کھاتے ہیں۔
یہ صرف بچوں اور نوجوانوں کی پسندیدہ ٹھنڈی اور میٹھی ڈش نہیں بلکہ بڑے بوڑھے بھی اسے گھر کے اندر کھانا پسند کرتے ہیں، بشرطیکہ ان کے دانتوں میں ٹھنڈک نہ لگتی ہو۔ ہاں جن کے دانت سلامت اور صحت مند ہوں، وہ بھلا اس کا استعمال کیوں چھوڑیں، وہ تو نوجوانوں کی طرح برف بھی چبا ڈالتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گولا گنڈا صحت مندوں کی پسندیدہ ٹھنڈی میٹھی ڈش ہے۔ شوق فرمائیے، مگر ذرا دیکھ بھال کے۔

٭…٭…٭