گوشت کے غذائی اجزاء

عید قربان جیسے خوشی کے موقع پر بچے بڑے سبھی پر جوش دکھائی دیتے ہیں ۔ عید سے قبل مویشی منڈیوں میں خوب صورت، تندرست ، فربہ اور جوان جانوروں ( اونٹ، بیل، گائے ، بکرا، چھترا اور دنبہ وغیرہ) کو تلاش کیا جاتا ہے اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بجٹ کے مطابق بہترین جانور خرید کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں قربان کرکے سنت ابراہیمیؑ (حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل ؑ کی سنت ) ادا کرے، لیکن خیال رہے کہ قربانی ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، ایک حصہ غرباء و مساکین، یتیموں، بیوائوں اور مسافروں کے لئے ہے، دوسرا حصہ غریب ہمسایوں اور رشتہ داروں کے لئے جبکہ تیسرا حصہ اپنے لئے رکھ سکتے ہیں۔

قربانی کا گوشت انسانی جسم کے لئے کتنا مفید؟

اللہ تعالیٰ نے انسانی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے حیوانات(حلال جانوروں کا گوشت، دودھ) نباتات، (پھل ، سبزیاں، دالیں، جڑی بوٹیاں) وغیرہ پیدا کی ہیں اور انہیں کھانے کے لئے حضرت انسان کو (سپاٹ نوکیلے) دانت دیئے ہیں تاکہ وہ انہیں آسانی کے ساتھ چبا کر یا کاٹ کر کھا سکے۔

گوشت کتنا کھانا چاہیے؟

گوشت کتنا کھانا چاہیے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ہمارے معاشرے میں عید الاضحی یا خوشی کے موقع پر بار بی کیو( ران روسٹ اور کباب وغیرہ) کا رواج عام ہو گیا ہے اور لوگ اس چیز کا خیال کئے بغیر اتنا گوشت کھا جاتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتاکہ اس کا کتنا استعمال فائدہ مند ہے اور کتنا نقصان دہ؟ ڈاکٹرز اور طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ایک وقت (24گھنٹوں میں ) 250گرام گوشت سے زیادہ نہ کھایا جائے اور ہفتے میں زیادہ سے زیادہ2مرتبہ ہی اتنی ہی مقدار میں گوشت کھایا جائے تاکہ انسانی جسم کی ضروریات کو بآسانی پورا کیا جاسکے۔ اس سے زیادہ گوشت کا استعمال انسانی جسم کے لئے نہ صرف مضر ہوتا بلکہ بہت ساری بیماریوں کا باعث بھی بنتا ہے جن میں ہارٹ اٹیک اور بلڈ پریشر وغیرہ جیسے امراض بہت عام ہوگئے ہیں۔

گوشت میں کیا کچھ ہوتا ہے؟

گوشت پروٹینز، روغنیات/ چکنائی، منرلز اوروٹامنز سے بھرپور ہوتا ہے جو انسانی نشو ونما کے لئے بہت ضروری ہے۔گوشت جہاں حصولِ صحت ِبدن کے لئے ضروری ہے وہیں اگر زیادہ مقدارمیں کھا لیا جائے تو بہت سی بیماریوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

بیماریاں دو طرح کی ہوتی ہیں ، ایک موروثی اور دوسری وہ بیماریاں جو ہمارے طرز زندگی کی خرابیوں کے باعث وجود میں آتی ہیں مثلاً وہ ہماری خوراک، ہمارے کھانے پینے کے طریقے ،ہماری عادات، ہمارے شغل جیسے کہ سگریٹ نوشی وغیرہ یا ورزش نہ کرنے کی عادت اور ہمارے رہن سہن کے طریقہ کار پر منحصر ہے ۔ اکثر بیماریاں مثلاً خون کے جمنے کی بیماریٰؓ(Cloting) ( کلاٹ بن جاتا ) اور دل و جگر کی بعض بیماریاں وغیرہ بہت حد تک ہماری خوراک کے غلط انتخاب مثلاً ایسی خوراک جو کولیسٹرول پیدا کرے ۔اسی طرح خوراک کو صحیح ہضم نہ کرپانا یعنی ورزش یا سیر وغیرہ نہ کرنے کی عادات کی وجہ سے خوراک صحیح طور پر جسم کا حصہ نہ بننا۔ اصل خرابی یہ ہے کہ ہم لوگ ذہنی طور پر یہ چیز سوچنے کے عادی ہی نہیں کہ خوراک کون سے اجزاء پر مشتمل ہونی چاہیے۔ کون سے اجزاء ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اور کون سی خوراک کے کون سے اجزاء ہمیں فائدہ مند ہیں۔ خوراک میں بنیادی طور پر تین چیزیں ہونی چاہئیں:

1۔ یہ ہماری صحت کی محافظ ہو اور وہ ضرورت کے مطابق ہمیں قوت و توانائی مہیا کرے۔
2۔ ہمیں وہ قوت مدافعت دے جو بیماریوں کے خلاف ہماری حفاظت کرے۔
3۔ ذائقے میں اچھی ہو تاکہ کھانے کے اعتبار سے قابل قبول ہو۔

پروٹینز(Proteins)

ہمارے جسم کے ہر حصے کو بڑھنے اور قائم رہنے اوراستحالہ کے عمل کے لئے جو توانائی درکار ہوتی ہے ، وہ پروٹین فراہم کرتی ہے۔ اس کی ضرورت ہمارے نظام ہضم کو بھی ہے۔ جن چیزوں میں بھرپور توانائی ہوتی ہے، ان میں سر فہرست انواع و اقسام کے گوشت، مچھلی ، انڈے ، سویا بینز، دودھ ، دہی، پنیر ، سبزیاں ،پھل اور دالیں وغیرہ ہیں۔

روغنیات/ چکنائی (Fats)

گوشت میں چکنائی ( روغنیات) کی کیلوریز بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ چکنائی جہاں ہمارے جسم کو پروٹینز اور کاربو ہائیڈریٹس سے تقریباً دگنی کیلوریز اور قوت دیتی ہیں وہاں ان کی زیادتی ہمارے لئے کولیسٹرول جیسے مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔

معدنیات(Minerals)

ہمارے جسم کو صحت مند رہنے کے لئے کافی زیادہ معدنیات (Minerals)کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ یہ ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہ خود حفاظتی نظام کو جراثیموں کے خلاف مضبوط کرتے اور وٹامنز کی مدد کرتے ہیں تاکہ انسان صحت مندانہ طریقے سے کام کرتا رہے۔گوشت میں منزلر کی کافی مقدار پائی جاتی ہے جو انسانی جسم کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔

وٹامنز(Vitamins)

گوشت بالخصوص بکرے کے گوشت میں وٹامنز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ گوشت میں وٹامن اے، بی اور ای بکثرت پایا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔

وٹامنز کی کمی کی علامات اور علاج

جیسے جیسے عمر اور ذمہ داریاں بڑھتی جاتی ہیں اور بھاگ دوڑ زیادہ ہو جاتی ہے ہمیں کچھ وٹامنز اور منرلز ( معدنیات) کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ بڑھتی عمر کے ساتھ خون بننا کم ہو جاتا ہے اور جسم بھی وٹامنز پیدا نہیں کرتا۔ایسے میں گوشت بالخصوص قربانی کا گوشت نہ صرف آپ کے جسم میں وٹامنز اورنمکیات کی کمی کو پورا کرتا ہے بلکہ آپ کو صحت مند و تندرست رہنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

عمر بڑھنے کے ساتھ جسمانی اور دماغی صلاحیت میں کمی اور تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں اور یہ تبدیلیاں سر سے لے کر پائوں کے ناخنوں تک آتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر انسان میں یہ تبدیلیاں ایک جیسی ہوں بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کا طرز زندگی کیا ہے اور آپ غذا میںکیا لیتے ہیں ۔ کتنی چکنائی والی خوراک لیتے ہیں۔ کیلوریز کس حساب کے ساتھ لیتے ہیں۔ جوانی میں بھاگ دوڑ کیسے کی، ورزش کی عادت رہی یا آرام کو زیادہ ترجیح دی۔ بلوغت کی عمر میں پہنچنے کے بعد جسمانی نظام میں بہت بڑی تبدیلی(Great Metabolism Change) آتی ہے۔ انسان اوپر کی طرف نہیں بڑھ پا تا لیکن آگے پیچھے کی طرف بڑھ سکتا ہے ۔ موٹائی کی ایک اور تہہ بننا شروع ہو جاتی ہے اور جب یہ بننے لگتی ہے تواس موٹی تہہ اور جسم کے عضلات کا تناسب بگڑنے لگتا ہے اور عضلات کمزور ہونے لگتے ہیں اور یہ تناسب بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتاجاتا ہے۔ ہڈیاں سکڑنے لگتی ہیں کیونکہ 40کی عمر میں پہنچنے تک پہلے جسمانی اعضاء جو معدنیات(Minerals) خوراک سے لیتے تھے ۔40سال کے بعد جب جسم کی خوراک جذب کرنے کی صلاحیت بتدریج کم ہونے لگتی ہے تو ان معدنی اجزاء مثلاً کیلشیم، پوٹاشیم، میگنیشیم، فاسفورس ، کاپر وغیرہ کی کمی ہونے لگتی ہے اور جسمانی اعضاء ان کو ہڈیوں سے لینے لگتے ہیں جس سے یہ ہڈیاں آہستہ آہستہ اپنی توانائی کھونے لگتی ہیں اورایک اندازے کے مطابق 65سال کی عمر میں پہنچنے تک یہ توانائی تقریباً آدھی رہ جاتی ہے ۔ ہڈیوں کی یہ کمزوری انسانی قد پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ہڈیاں کمزور ہونے سے ریڑھ کی ہڈی کی موٹائی بھی کم ہوجاتی اور 70سال کی عمر میں پہنچنے تک ایک اندازے کے مطابق یہ 25فیصد کم ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کی بڑھاپے میں کمر جھک جاتی ہے۔جب ریڑھ کی ہڈی سے یہ معدنی اجزاء کم ہونے لگتے ہیں تو پھر ریڑھ کی ہڈی کے کمزور ہونے سے اس کی موٹائی اور اونچائی کم ہونے لگتی ہے جس سے مردوں کی ریڑھ کی ہڈی کی اونچائی27انچ سے کم اور عورتوں کی24انچ سے کم ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بوڑھے لوگوں کا قد جوانی کے مقابلے میں چھوٹا ہو جاتا ہے۔

گوشت کا ہڈیوں کی مضبوطی میں کردار

گوشت کا انسانی جسم میں بہت اہم کردار ہے۔ یہ جہاں ہمارے جسم کا حصہ بن کر ہماری ہڈیوں کی حفاظت کرتا ہے وہیں انہیں طاقت ور بھی بناتا ہے۔ہماری ہڈیاں ایک بینک کی طرح ہیںجو سٹاک میں اپنے پاس معدنی اجزاء رکھتا ہے جیسے کیلشیم، میگنیشیم ،فاسفورس، سلیکون، فلورائیڈ اور کاپر۔ اس بینک میں سے لگا تار یہ معدنی اجزاء جسم کے مختلف حصے بھی لیتے ہیں اور خوراک ان کو واپس بینک میں جمع بھی کرواتی رہتی ہیں۔ ان منرلز ، وٹامنز، روغنیات کی کمی کو گوشت پورا کرتا ہے۔ا گر آپ کی عمر 20اور 30سال کے درمیان ہے تو آپ کا یہ بینک اکائونٹ بہت مضبوط ہے اور آپ کے پاس یہ اجزاء بھی بہتات میں ہیں لیکن جیسے ہی عمر 40 سال کے نزدیک پہنچنے لگتی ہے ، مردو زن دونوں کا جسم خوراک میں سے یہ اجزاء کم جذب کرنے لگتا ہے اور جب عمر 65 سال کے نزدیک پہنچتی ہے تو یہ جسمانی صلاحیت آدھی رہ جاتی ہے اور جب جسم کیلشیم ، میگنیشیم ، پوٹاشیم وغیرہ خوراک میںسے جذب کرنے کے قابل نہیں رہتا تو پھر ان معدنی اجزاء کو ہڈیوں میں سے لینے لگتا ہے جس سے بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں سے لگاتار ان معدنی اجزاء میں کمی آنے سے ہڈیاں کمزور، بھربھری اور نازک ہو جاتی ہیں اور ہڈیوں میں یہ کمزوری صرف اور صرف ان کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ ہڈیوں میں یہ کمی ہڈیوں کو پتلا اور چھوٹا کرنا شروع کردیتی ہے اور یہ کمزوری خاص طور پر ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کرتی ہے اور 70سال کی عمر میں پہنچنے تک عام طور پر آدمی 2-3/4 انچ اور عورت کی7/8انچ ریڑھ کی ہڈی چھوٹی اور کمر جھکنا شروع کردیتی ہے ۔ ہڈیاں معدنی اجزاء کی زیادہ کمی کی وجہ سے ٹوٹ بھی سکتی ہیں اور کئی دفعہ ہڈیوں میں بہت زیادہ کمزوری اموات کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر آپ ہڈیوں میں آنے والی معدنی اجزاء کی اس کمی کو پورا کرتے رہتے ہیں توآپ کی ہڈیاں مضبوط اور جوان رہ سکتی ہیں اور آپ کی جسمانی حرکات بھی عمر بڑھنے کے باوجود اس طرح چست اور تیز رہ سکتی ہیںجیسے کہ جوانی میں تھیں۔

نظام ہضم میں تبدیلیاں

نظام ہضم ہماری خوراک(گوشت، سبزی، پھل، دالیں وغیرہ) کو اس حالت میں تبدیل کرتا ہے کہ جس میں وہ خون میں جذب ہو سکے تاکہ خون کے ذریعے وہ خوراک مختلف جسمانی اعضاء کو مل سکے اور جسم طاقت و توانائی حاصل کرسکے ۔یہ توانائی جسم کی مختلف بافتوں(Tissues) میں جو توڑ پھوڑ ہوتی ہے ، اس کی مرمت کے لئے بھی ضروری ہے ۔تمام ڈاکٹرز،حکیم اور جسمانی صحت کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ نظام ہضم پر جسمانی صحت کا دارو مدار ہے اور اس کو ٹھیک رکھے بغیر صحت ٹھیک نہیں رہ سکتی۔ بڑھتی عمر میں ہاضمہ خراب رہتا ہے اور تھوڑی سی کھائی ہوئی خوراک بھی ہضم ہونے میں بہت دیر لیتی ہے ۔ صحت مند آدمی خوراک ہضم کرنے میں جتنی دیر لیتا ہے اس کی تفصیل اس طرح سے ہے:

1۔ منہ میں (ایک منٹ)
2۔ ہاضمے کی نالی میں (دوسے تین سیکنڈ)
3۔ معدے میں ( دو سے چار گھنٹے)
4۔ چھوٹی آنت میں ( ایک سے دو گھنٹے)

عمر کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیاں

ریڑھ کی ہڈی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بتدریج کمزور، بھربھری ، پتلی ہو جاتی ہے اور قد میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کی لچک کم ہو جاتی ہے ۔ نسیں (Nerves) بتدریج سخت، بے لچک اورتنگ ہو جاتی ہیں ، جن کی وجوہات میں مختلف بیماریاں ، غلط عادات اور غلط طرز زندگی شامل ہے۔ پٹھوں میں کمزوری آجاتی ہے ۔ نسوں کی کمزوری اور ان کے ذریعے دماغ سے رابطہ مقابلتاً کمزور ہو جاتا ہے، جس سے حرکات آہستہ اور دیر سے ہونے لگتی ہیں۔ آنکھوں کے عدسے(lens) میں لچک کم ہو جاتی ہے اور وہ دور سے نزدیک نظر کی تبدیلی کرتے وقت فوکس میں دقت محسوس کرتے ہیں جس سے نزدیککی نظر کمزور ہونے لگتی ہے۔آنکھوں میں موتیا اترنے لگتا ہے اور نظر آنا کم ہو جاتا ہے۔ کان20سال کی عمر سے ہی اونچا سننے کے عمل سے دوچار ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن اس عمر میں تبدیلی کی شرح بہت کم ہوتی ہے ، اس لئے 60سال کی عمر تک یہ تبدیلی بہت زیادہ محسوس نہیں ہوتی۔ کچھ نقصان کانوں کو اونچی آوازوں جیسے اونچے میوزک ، شور شرابہ وغیرہ سے بھی پہنچتا ہے اور کانوں کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے سینسرز(Sensors) جن کی تعداد کم وبیش 23ہزار ہوتی ہے گزرتے وقت کے ساتھ کمزور اور مردہ ہونے لگتے ہیں اور سماعت کم ہو جاتی ہے ۔

میری نظر میں بڑھتی عمر کے اثرات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور انسان کی صحت موجودہ سائنسی دور میں جب ہر طرح کی رہنمائی میسر ہے، نظرآنے والی عمر ، اصلی عمر سے کم ازکم 15سال کم نظر آنی چاہیے اور اسی تناسب سے جسمانی اعضاء کو بھی بہتر کام کرنا چاہیے، اس مقصد کے لئے آپ کو مناسب خوراک (گوشت، سبزیاں، پھل) کھانے سمیت ورزش کی بھی عادت ڈالنی ہوگی۔

مدثر نذر قریشی

٭…٭…٭

گوشت کے غذائی اجزاء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *