گوشت کی فضیلت

ہماری غذا چھ قسم کے اجزاء پر مشتمل ہے:

لحمیات (Proteins)یعنی گوشت پر مشتمل غذائیںنشاستہ دار غذائیں،(Carbohydrates) ،چکنائیاں یا شحمیات(Fats) نمکیات(Salts)، حیاتین(Vitamines) اور پانی۔

ان میں سے پہلے تین اجزاء لحمیات، نشاستہ دار غذائیں اور چکنائیاں ہماری غذا کے بنیادی اجزاء ہیں ۔ دوسرے تین اجزاء نمکیات، وٹامنز اور پانی ان بنیادی غذائی اجزاء کو ہضم بدل ما یتحل اور عضوی خلیات میں جذب ہونے کے قابل بنانے کا کام کرتے ہیں ۔ اس طرح یہ ثانوی بنیادی حیثیت کے غذائی اجزاء ہیں۔جب غذا کے پہلے بنیادی تین اجزاء کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ لحمیات پانچ بڑے کیمیاوی اجزاء:

جو کہ کاربن(C)، ہائیڈروجن(H)، آکسیجن(O)، نائٹروجن(N)اور سلفر(S)ہیں اور اسی طرح نشاستہ دار غذائیں تین اجزاء:کاربن(C)، ہائیڈروجن(H)، اور آکسیجن(O) پر مشتمل ہیں ۔ جبکہ شحمیات کے اہم اجزاء بھی کاربن(C)، ہائیڈروجن(H)، اور آکسیجن(O) پر مشتمل ہیں۔

اس طرح معلوم ہوا کہ پروٹین و گوشت میں دو جز نائٹروجن اور سلفر مقابلتاًزیادہ اور باقی سب اجزاء مشترک ہیں اور پھر ان میں ہر قسم کے نمکیات،وٹامن اور پانی بھی شامل ہیں ۔ گوشت و لحم غذائی اجزاء میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لہٰذاگوشت(لحم) سید الطعام ہے جس طرح لوگوں میں کسی سردار یا راہنما و قائد کی حیثیت و خصوصیت زیادہ نمایاں ہوتی ہے ۔ اسی طرح کھانوں میں سے گوشت کی بھی یہ وقعت و خصوصیت منفرد ہے کہ یہ کھانوں کا سردار ہے۔ گوشت کی فوقیت اسی طرح بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل نے ’’من وسلویٰ‘‘ گوشت اور مٹھاس (حیوانی پروٹین و شکر جو آسمان سے آتی تھی) کے مقابل زمین سے اگنے والی ادنیٰسبزیوں و دالوں کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ اعلیٰ و بہتر کو ادنیٰ یا گھٹیا سے بدلنا چاہتے ہو؟ اس سے دوسری نباتاتی، جماداتی غذائوں پر گوشت کی اہمیت و افادیت اور فوقیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ تیسرے گوشت حیوانی غذا ہونے کے ناطے حیوان ناطق انسان کے جسم میں ہضم ہو کر جلدی سے جز بن جاتا ہے اسی طرح حیوانی شکر ( دودھ و شہد) بھی جلد جزو بدن بن جاتا ہے۔

شیخ الرئیس بو علی سینا رحمۃ اللہ علیہ جو طب قدیم اور اسلامی دور کی طب اسلامی اور قوانین فطرت کے شارح ہیں نے غذا کی تعریف یہ کی ہے کہ

جو شے بدن کا جز بنے وہ غذا ہے اور جو شے بدن کا جز نہ بنے اور اس کی کیفیات کو تبدیل کردے وہ دوا ہے۔ تو اس طرح ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ حیوانی غذائیں گوشت ، دودھ، شہد اور انڈے وغیرہ جلدی ہضم ہو کر بدن کا جز بن کر اسے فوری طاقت دیتے ہیں۔ دودھ اور شہد نومولود بچوں کی ابتدائی غذا قرار پاتے ہیں۔ ماں کا دودھ بھی ایسی ہی بچہ کی ابتدائی غذا ہے اسی طرح شہد بھی گھٹی کے طور پر پیدائش کے وقت بچے کو دیا جاتا ہے یعنی حیوانی غذائیں زود ہضم اور بنیادی غذائیں ہیں۔

نباتاتی غذائیں اور نباتاتی پروٹین جسم میں حرارت اور قوت تو پہنچاتے ہیں مگر بدن کا جزو بہت ہی کم بنتے ہیں کیونکہ ان میں ضروری امائنو ایسڈز(جسم میں پروٹین اور گوشت بنانے والے بنیادی اجزاء نائٹریٹس ، نائٹروجنی مرکبات) نہیں ہوتے یا بہت ہی کم ہوتے ہیں جس کے باعث وہ جسم کی لحمی ساخت میں اضافہ کئے بغیرجسم سے خارج ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ امور یاد رکھیں کہ:

1۔ حیوانی پروٹین ، گوشت و لحمیات نباتاتی پودوں اور اناجوں سے حاصل شدہ پروٹین سے بہتر اور افضل ہے۔
2۔ حیوانی پروٹین جسم انسانی میں جا کر خون اور جسم کا جزو بن جاتے ہیں ۔ نباتاتی پروٹین جسم میں کیفیت ( سردی ،گرمی، تری یا خشکی) پیدا کرکے جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ نباتاتی پروٹین پیٹ بھرنے کے لئے تو بہتر ہے ، لیکن بدنی نشوو نما اور ارتقاء کے لئے اتنی مفید نہیں ہیں۔
3۔ حیوانی پروٹین ہمارے بدن میں گوشت پوست بنانے کے علاوہ حیوانی چربی اور حیوانی نشاستہ( گلائی کوجن) اور گلو کوز بھی بناتے ہیں جو ایندھن کا کام دیتے ہیں۔
4۔ یہ بات یادر ہے کہ گوشت ہضم ہونے پر پیپٹونز ( کیلوس کی صورت میں) اور پھر امائنو ایسڈز ( کیموس کی صورت میں) لطیف تر سے لطیف ترین اجزاء اور صورت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ امائنو ایسڈز میں امونیائی(NH3) مالیکیولز ہوتے ہیں۔
5۔ امائنو ایسڈز مزید جسمانی بائیو کیمک تعاملات سے ٹوٹ کر اپنی نائٹروجن خارج کردیتے ہیں اور فیٹی ایسڈز ( شحمی تیزابات و چربی) اور حیوانی شکر ( گلائی کوجن و گلوکوز) میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
6۔ فیٹی ایسڈز ( شحمی تیزابات) آکسیجن کے ساتھ مل کر پہلے چربی میں تبدیل ہوتے ہیں اور پھر چربی جسم میں گردوں کے آس پاس اور آنتوں میں جمع ہو جاتی ہے۔
7۔ کچھ امائنو ایسڈز جو ان تبدیلیوں سے نہیں گزرتے وہ جسم کی بافتوں ( ٹشوز) میں تقسیم اور جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر بدنی عضوی کیمیاوی تعاملات( میٹا بولزم) کے ذریعے دوبارہ پروٹین و گوشت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
8۔ پروٹین سے زیادہ تر عضلات اور ان کی بافتیں (عضلاتی ٹشوز) اور خون کے سرخ ذرات( RBC)بنتے ہیں اور ہر طرح کی جسمانی حرکات اور جسم میں آکسیجن کی آمد کی رفتار کو باقاعدہ رکھنا ان کا کام ہے اور پروٹین میں کاربن اور ہائیڈروجن موجود ہوتے ہیں، اس لئے یہ جسم و بدن میں ایندھن کا کام بھی کرتے ہیں۔
9۔ جب معدہ میں غذا ہضم کے عمل سے گزرتی ہے تو پروٹین پہلے استحالہ کے عمل میں پیپٹو نز (لطیف اجزاء) میں تبدیل ہو کر کیلوس و کیموس کی صورت میں متغیر و متبدل ہو جاتے ہیں ، پھر یہ خون میں جذب ہو کر جگر میں چلے جاتے ہیں ۔جگر اپنے کیمیائی عمل سے ان سے نائٹروجن علیحدہ کرکے یوریا میں تبدیل کردیتا ہے۔ یوریا وہاں سے خون میں شامل ہو کر گردوں کے ذریعہ پیشاب کے ساتھ خارج ہو جاتا ہے ،اسی وجہ سے پیشاب کو یورن کہہ دیتے ہیں۔
10۔ ان حقیقتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ انسانی غذا ، حیوانی پروٹین ہے، اگرچہ نباتاتی پروٹین بھی کسی قدر مفید ہے لیکن وہ اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتی جب تک وہ حیوانی پروٹین میں تبدیل نہ ہو اور وہ اکثر نہیں ہوتی صرف کسی قدر حرارت اور عارضی قوت کے بعد خارج و ضائع ہو جاتی ہے، اسی طرح نباتاتی روغن و چکنائیاں اور نباتاتی شکر بھی انسانی جسم کے لئے غذا ئے لحمیہ نہیں بنتے بلکہ اکثر نقصان کا سبب بنتے ہیں اس لئے انسانی زندگی میں حیات و صحت اور طاقت کے لئے حیوانی پروٹین(گوشت و انڈے) ، حیوانی روغن(گھی وچربی اور حیوانی شکر (شہدو گلائی کوجن) ہی زیادہ مفید ہیں اور انہی سے جسم کی تعمیر و تکمیل ، نشوونما اور ارتقاء ، مرمت و بدل و مایتحل ( صرف و تحلیل ہوجانے والی توانائی ا ور ٹشوز کا بدل) حاصل ہوتا ہے۔ گوشت جسم میں خون بن کر زندگی ، صحت و طاقت پیدا کرتا ہے اور جوانی کو قائم رکھتا ہے۔

11۔ اسی طرح خشک میوہ جات اور پھلوں میں حرارت و قوت ، اناجوں اور سبزیوں سے زیادہ ہوتی ہے لیکن حیونی پروٹین(گوشت) سے کم ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے خشک میوہ جات اور پھلوں میں غذائیت کا معیار پروٹین کے قریب قریب ہے جیسے مویز منقیٰ اور انگور ، چھوہارے و کھجور ، انجیر ، آم ، انار اورزیتون وغیرہ ۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کے لیے پھلوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اناج اور سبزیاں ادنیٰ درجے کی غذائیں ہیں۔ مذکورہ بالا مسلمہ حقائق پر غور و فکر اور تدبر کرنے سے قدرت کی طرف سے انسان ہی کے لئے پیدا کردہ اشیاء جن میں خاص طور پر لحم و گوشت بصورت حیوانات انسانی غذائوں میں فطری طور پر سب غذائوں سے اعلیٰ و افضل اور ضروری ہے۔ نہ کہ خود غرض مادہ و دولت پر ست شاطر انسانوں کی بنائی ہوئی مصنوعی غذائی اشیاء۔
12۔ یہ امر بھی یاد رکھیں کہ مجموعی طور پر کسی بھی قدرتی غذا کے جو اثرات و افعال اور خواص ہوتے ہیں، وہ اس کے انفرادی و تجزیاتی اجزاء میں نہیں ہوتے مثلاً دودھ کے جو افعال و اثرات اور خواص ہیں وہ مکھن یا پنیر یا ملک شوگر یا ملک سالٹس میں نہیں پائے جاتے یا اس طرح سمجھ لیں کہ ہر غذا میں کاربن، ہائیڈروجن ، آکسیجن، نائٹروجن اور سلفر وغیرہ ہیں۔ لیکن ہر ایک غذا کے افعال و اثرات اور خواص ایک دوسری غذا سے بالکل مختلف ہیں۔ حالانکہ مختلف غذائوں میں اجزاء تو ملتے جلتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر غذا کی قسم و نوعیت اور انفرادیت کے لحاظ سے اس کے اجزائے ترکیبی کی ترکیب و ساخت اور نسبت و تناسب میں فرق ہوتا ہے اور اسی اجزائے ترکیبی نسبتی فرق کی بنا پر ہر چیز اور غذا میں انفرادیت اور ایک دوسری غذا سے امتیازی انفرادی افعال و اثرات اور خواص پائے جاتے ہیں اور اسی بنیادی فرق کی وجہ سے ہر قسم کی غذا کے اعضائے جسم پر مخصوص افعال و اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کسی غذا کے اجزاء کو الگ الگ استعمال کرنے، کرانے سے ان کے اپنے جزوی افعال و اثرات مرتب ہوتے ہیں نہ کہ اس غذا کے کلی اثرات جیسے کہ جس کے وہ اجزاء ہیں۔
انڈے اور گاجر کے اجزائے ترکیبی کی مثال سے یہ بات مختصراً سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ انڈے اور گاجر میں تقریباً ہر قسم کے وٹامن بکثرت ہوتے ہیں جبکہ انڈا حیوانی غذا ہے اور گاجر نباتاتی۔ لیکن دونوں میں برابر کے وٹامنز اور طاقت پائی جاتی ہے لیکن جب تجربہ اور مشاہدہ کیاجاتا ہے تو نتیجہ خوف ناک حد تک تکلیف دہ اور نقصان رساں ہوتا ہے مثلاً جب بکثرت انڈوں کو مسلسل استعمال کیا جاتا ہے تو بواسیر ، گردوں یا مثانہ میں پتھری ، پیشاب میں کمی و جلن اور دل کی دھڑکن میں تیزی آکر بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے لیکن جب گاجر کو مسلسل بکثرت استعمال کیا جاتا ہے تو نزلہ، زکام ، ریشہ اورپیشاب کی کثرت عارض ہو جاتا ہے۔ یعنی ایک دوسرے سے بالکل کے متضاد علامات پیدا ہوجاتی ہیں۔دونوں میں ایک ہی قسم اور ایک جیسی مقدار کے وٹامن پائے جاتے ہیں مگر افعال و اثرات بالکل متضاد و مختلف پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دونوں میں اجزائے ترکیب اور نمکیات مختلف قسم کے ہیں۔ انڈوں میں کیلشیم (خشک گرم مزاج ) اور گاجر میں پوٹاشیم (کیروٹین) اور پوٹاشیم کے تر گرم مزاج ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے افعال واثرات بھی مختلف اور متضاد پیدا ہوتے ہیں ۔
کسی بھی چیز کی حدود سے زیادہ کمی یا زیادتی نقصان رساں ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اور بھوک کے مطابق ہی غذا و دوا کے استعمال سے زندگی و صحت اور طاقت قائم رہے گی، ان شاء اللہ۔
13۔ یہ امر نہایت قابل توجہ ہے کہ لحمیات ( گوشت) یعنی پروٹین اور فیٹس و چکنائیوں کو جسم انسان کیلئے نہایت ضروری اور بنیادی اشیاء و غذائیں تسلیم کیا جاتا ہے ۔یہ نہ صرف اپنی انفرادی حیثیت رکھتی ہے بلکہ ہمارے تمام اعضائے جسم اور خون کا حصہ ہیں۔ پروٹین سے بدن کے تمام عضلات، عضلاتی بافتیں دل و خون ، خون کے سرخ خلیات(RBC)، ہیموگلوبین(ہیم بمعنی فولاد+گلوبین بمعنی پروٹین کا مرکب) تشکیل پاتے ہیں۔ بدن و خون میں آکسیجن اور ارواح کی مقدار اور رفتار کو ضرورت و مواقع اور حالات کے مطابق پورا اور باقاعدہ پروٹینز و عضلات ہی رکھتے ہیں۔ تمام قسم کی جسمانی، حسی و حرکی حرکات پروٹین اور عضلات ہی کی مرہون منت ہیں۔ حیوانی قوتیں زندگی میں پیش آنے والے کٹھن و مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی جرأت ، انا و خودداری اور عز م و استقلال ، کسی بھی طرح کی نیت و یقین اور ارادہ کی پختگی پروٹین ہی کی اعلیٰ و ادنیٰ اور خالص اقسام کی نوعیت و جنس کے لحاظ سے ہوتا ہے ۔ بدن کا تمام گوشت و عضلات اور خون کے اجزاء اور قلب پروٹین سے تخلیق شدہ ہیں۔

(1) ’’دنیا کی زندگی کی مثال تو اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا تو اس کی وجہ سے زمین سے اُگنے والی چیزیں خوب مل جل گئیں، جن میں سے لوگ بھی کھاتے ہیں اورچوپائے بھی۔‘‘ (یونس(10:24)

فیٹس اور چکنائیاں بھی بدن میں انفرادی حیثیت کی حامل ہیں۔ہماری غذا اور وٹامنز کا 2/3حصہ یعنی67فیصد صرف چربی و چکنائی میں حل ہوتا ہے جو ضرورت کے مطابق جسم و اعضاء اور خون کو غذا پہنچاتی ہیں اور جسم میں جہاں بھی تراوٹ(Lubrication)(نرمی و ملائمت اور چکنائی ) کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پر یہ اپنا کام انجام دیتی اور جسم کی تقویت اور لچک کا باعث ہوتی ہیں۔یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے جس انسان اور حیوان میں صالح چربی زیادہ ہو اچھی صحت کا حامل ہوتا ہے، دیکھنے والوں کی نظروں اور دل کو بھاتا ہے۔ مگر ان فطری غذائی لحمیات و شحمیات اور نشاستہ دار غذائوں کے استعمال کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان جسمانی مشقت اور ریاضت کا بھی عادی ہو اور وہ گوشت ، مکھن، گھی اور دیگر حیوانی اغذیہ مثلاً دیسی انڈے، پرندوں کا گوشت اور شہد وغیرہ بھی ایک اعتدال کی حد تک کرے تو یہ مقصدحاصل ہوسکتا ہے۔یہ علمی و سائنسی اور میڈیکل کے مسلمہ حقائق ہیں۔ ان حقائق کے باوجود دیگر نقطۂ نظر کے حاملین کی طرف سے گوشت و چربی، دیسی گھی وبالائی اورمکھن جیسی فطری حیوانی غذائوں کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے اور ان کی بجائے وائیٹ میٹ ( ولائتی برائلر مرغی اور فارمی مچھلی) وغیرہ کے علاوہ مصنوعی گھی( بناسپتی گھی) اور کوکنگ آئل کے استعمال کی تاکید کی جاتی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ مادیت پرستانہ سوچ اور غیر طبعی ریسرچ ہے کہ سرخ گوشت (بکرا ،گائے اوراونٹ وغیرہ) اور دیسی گھی و چکنائیاں، بلڈ پریشر ،کو لیسٹرول اور دل کے امراض کو بڑھا دیتے ہیں ۔ اس لئے ان کی بجائے White Meat(برائلر و وفارمی گوشت) ، فارمولا دودھ، بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل استعمال کریں کہ یہ ان امراض سے محفوظ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طبعی غذائوں کے ساتھ بدنی مشقت بھی ضروری ہوتی ہے اور یہ ایک مکمل حقیقت نہیں کہ انسان غیر فطری غذائوںکو تو اختیار کرکے اپنا طرز عمل پر مشقت کی بجائے پر آسائش بنالے۔ اس طرز زندگی کو اختیار کرتے ہوئے جب غیر طبعی اغذیہ مثلاً برائلر یا دیگر فارمی جانور اور فارمولا دودھ و بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل استعمال کرے گا تو اس کی قوت مدافعت دائو پر لگ جائے گی اور یہی اس دور کے پیچیدہ اورنئے نئے امراض پیدا کرنے اور پنپنے کا سبب ہے ۔

اہل تدبر و حکمت اور مقتدر اداروں اور حکومت سے درخواست ہے کہ ان مضر صحت مصنوعات اور غذائی اجناس کی بجائے قدرت کی طرف سے پیدا کردہ اشیاء کو فطری و قدرتی طریقوں کے مطابق زیادہ پیدا کرنے کی تدابیر کرے۔

حکیم محمد عبداللہ ابو بکر رفیق

٭…٭…٭

گوشت کی فضیلت
Tagged on:                                     

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *