
میری امی جنوبی ایشیا کی بڑی بوڑھیوں کے دیسی نسخوں پر پکا یقین رکھتی ہیں اور ان کے خیال میں چند ہی ایسے امراض ہیں جن کا علاج وہ غذا سے نہیں کر سکتیں۔ ان کے دیسی نسخوں کی پٹاری میں ایک چیز سب سے نمایاں ہے اور ان کے تیار کردہ خاص قسم کے معجونوں اور کسیلے جوشاندوں میں سے یہ ہی ایک چیز ہے جسے آسانی سے نگلا جا سکتا ہے۔
پہلی بار میں نے اپنی ماں کے کہنے پر گڑ اس وقت چکھا تھا جب مجھے خیبر پختونخوا میں شدید زکام ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ بظاہر میلی اور بدنما سی ڈلی کیسے صحت بخش ہو سکتی ہے مگر جیسے ہی اس کی مٹھاس میرے حلق سے اتری تو میں نے خود میں توانائی اور گرمی محسوس کی۔اس کے بعد جلد ہی مجھے پتا چل گیا کہ یہ چیز دیسی ادویاتی غذا اور خوش ذائقہ مٹھائی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دراصل یہ تو صدیوں پرانی ایک روایت کا نچوڑ تھا۔
پاکستان میں تو گڑ گنے کے تازہ رس کو اچھی طرح پکا کر حاصل کیا جاتا ہے لیکن بہت سے دوسرے خطوں میں یہ پام، کھوپرے اور کھجور کے رس سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔پہلے تو رس کو کڑاہے میں اچھی طرح پکا کر گاڑھا کیا جاتا ہے پھر اس کے بعد اس کی ڈلیاں بنائی جاتی ہیں۔ اسے کولمبیا اور جزائر غرب الہند میں پنیلا، جاپان میں ککوٹو اور برازیل میں راپاڈورا کہا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق گنے کے اس طرح جمائے ہوئے رس میں موجود خواص مثلاً گلوکوز، فرکٹوز اور دوسرے معدنیاتی نمک ضائع نہیں ہوتے جیسا کہ چینی بنانے کے پیچیدہ عمل میں ہوتا ہے۔چینی بنانے کے لیے نتھارنے کا جو عمل کیا جاتا ہے اس سے کثافتیں تو دور ہو جاتی ہیں مگر اس سے باریک غذائی اجزاء بھی زائل ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس گڑ بنانے کے عمل میں ایسا نہیں ہوتا اور اس کی تمام غذائیت اور کیلشیم و میگنیشم جیسے صحت افزاء اجزاء قائم رہتے ہیں۔
ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر حکیم عبدالحنان کہتے ہیں کہ گڑ بنانے کی شروعات کا مقصد گنے کی فصل کو محفوظ رکھنا بھی ہو سکتا ہے تاکہ قدیم انسان اپنے لیے سال بھر مٹھاس بہم پہنچاتا رہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ بر صغیر میں گنا چھ ہزار سال قبل مسیح میں برما اور جزیرہ نما ملاوی سے آیا تھا۔ایگری کلچرآف دی شوگر کین کے مصنف اے سی بارنس لکھتے ہیں کہ یہ توانائی کا سب سے سستا ذریعہ ہے جو زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر کاشت کیا جا سکتا ہے۔
انڈیا میں گنے کی سینکڑوں اقسام پیدا ہوتی ہیں جن سے دنیا کا 70 فیصد گڑ بنتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی اسے وسیع پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔
غذائی محقق ہیرولڈ میکجی اپنی کتاب آن فوڈ اینڈ ککنگ: دا سائنس اینڈ لور آف دا کیچن میں لکھتے ہیں کہ اس کی مخصوص مہک انڈین، تھائی، برمی، جنوبی ایشیائی اور افریقی پکوانوں کو الگ پہچان دیتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں گڑ پکوان میں مٹھاس اور بعض بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں گڑ کے دانوں اور ڈلوں سے بھری بوریاں بڑے بازاروں میں دستیاب ہوتی ہیں۔ گھروں میں گڑ مخصوص پکوانوں یا علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔بہت سے مسافر گڑ کا حلوہ ساتھ رکھتے ہیں۔ اس میں تل، مونگ پھلی اور دوسرے خشک میوے ملا کر اس کے لڈو بھی بنائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے سرد علاقوں میں گڑ کی چائے بھی بڑے شوق سے پی جاتی ہے، خاص طور سے شاہراہوں پر ٹرک ڈرائیوروں کے لیے بنے تھڑوں پر۔دیہی علاقوں میں تو بچوں کو ٹافی کی جگہ بھی گڑدیا جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے بچپن میں ہم کتنی بے چینی سے اس ریڑھی والے کا انتظار کرتے تھے جو تل کے لڈو اور مونگ پھلی والی چکی (دونوں گڑ کے شیرے میں بنائے جاتے ہیں)لے کر آیا کرتا تھا۔گڑ کو خود میٹھے کے طور پر بھی کھایا جاتا ہے اور اس کی مدد سے میٹھے پکوان بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے علاقہ چارسدہ میں گڑ کی گھریلو صنعت کے کاریگر نہایت سادہ طریقے سے گڑ بناتے ہیں اور گنے کے رس کو پکانے کے لیے آگ بھی گنے کے بیرونی پرتوں(کھوری) سے جلائی جاتی ہے۔ اس طرح اس فصل کا کوئی حصہ بھی ضائع نہیں ہوتا۔
پاکستان میں گڑ کے کئی مصرف ہیں۔ خواتین اسے حیض سے قبل اٹھنے والے درد میں آرام کے لیے یا بچے کی پیدائش کا عمل تیز کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ والدین فولاد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ بڑے بوڑھے کھانے کے بعد ہاضمہ بہتر کرنے اور جوڑوں کے درد میں آرام کے لیے گڑ کی ایک ڈلی چباتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کو کہتے ہیں۔
علاج کی غرض سے گڑ کا استعمال ہزاروں برس سے ہوتا آیا ہے۔ خیال ہے کہ گڑ اگر تین سال یا اس سے پرانا ہو تو اس میں زیادہ ادویاتی اثر ہوتا ہے۔ علاج اور جراحی سے متعلق بعض قدیم کتب میں پرانے گڑ کے فوائد کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ خون صاف کرتا ہے، صفراء (جگر کی رطوبت) سے پیدا ہونے والے بدنی نقائص کو دور اور جوڑوں کا درد رفع کرتا ہے۔
ایران کے قدیم طریق علاج میں بھی گڑ کے کئی خواص بیان کیے گئے ہیں جس کے مطابق انسان کے چار مختلف مزاجوں (صفراوی، دموی، سوداوی، بلغمی) پر اثر انداز ہوتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ گڑ خون کی افزائش کرتا ہے۔
آیورویدک طریقہ علاج میں بھی گڑ کی اہمیت بیان کی گئی ہے جس کے مطابق یہ انسانی جسم کی تین توانائیوں میں سے ایک وتا دوشا میں توازن پیدا کر کے شفایابی کے عمل میں تیزی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ذائقہ قابل برداشت بنانے کے لیے دوسری دوائوں میں بھی ملایا جاتا ہے۔
بعض ماہرین طب کے بقول یہ کیلشیم، فاسفورس، فولاد اور میگنیشم جیسے غذائی اجزاء کا ذخیرہ ہے جو قوت مدافعت بڑھانے، جگر صاف کرنے، قبض دور کرنے، بلغم نکالنے علاوہ ازیں مغز بادام، مغز چہار اور تل سفید کی شمولیت سے تیار ہونے والا گڑ ماں کی چھاتیوں میں دودھ بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
کراچی کی آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر سارہ ندیم کا کہنا ہے کہ شوگر یا ذیابیطس ہونے کی صورت میں گڑ کا استعمال بہر حال خطرہ ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ذیابیطس کا شکار جسم چینی اور گڑ میں تمیز نہیں کرتا۔ البتہ گڑ کے ہاضمے کا عمل چینی کے مقابلے میں قدرے پیچیدہ ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ خون میں شکر کی مقدار میں اضافہ دیر سے ہو مگر آخر کار ہوگا ضرور۔ اس لیے شوگر کے مریضوں کو دوسری میٹھی چیزوں کے ساتھ گڑ سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر سارہ کے خیال میں گڑ میں موجود فولاد ممکنہ طور پر اس کڑاہی سے شامل ہو جاتا ہو جس میں گنے کا رس پکایا جاتا ہے۔گڑ کے اندر مونگ پھلی اور تل وغیرہ ملا کر میٹھے سنیکس بنائے جاتے ہیںتاہم پاکستان میں گڑ کی ثقافتی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک غذائی جنس سے زیادہ ایک سوچ ہے جس کے مطابق یہ بیماریوں کو ٹھیک کرتا ، نزلہ زکام ٹھیک کرتا ہے اور بدن میں فورا توانائی پیدا کرتا ہے۔یہ سوچ بہت گہری ہے اور نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ میری بیٹی نے اس دنیا میں آنے کے بعد جو پہلی مٹھاس چکھی وہ گڑ تھا اور میں جانتی ہوں جب بھی اسے نزلہ ہو گا میں اسے گڑ کی چائے پلائوں گی، بالکل ویسے جیسی میری ماں نے میرے لیے کیا اور ان کی ماں نے ان کے لیے۔

عائشہ امتیاز
٭…٭…٭