
مچھلی اور شیل فش وغیرہ ہمارے کھانوں کا ایک اہم جزو ہیں۔ دوائے غذائی میں مچھلی کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔بعض لوگ اس دل کی بیماریوں کیلئے مفید غذا کو اپنی ڈشوں میں شامل کرنے سے کتراتے ہیں۔ عام طور پر بنا احتیاط کے انتخاب کی گئی مچھلی میں موجود زہریلے مادوں، مرکری اور دیگر بیکٹیریا وغیرہ کی وجہ سے یہ تاثر پایا جاتا ہے۔
مچھلی بہت سے اہم غذائی اجزاء کا ذریعہ ہے جس میں اومیگاتھری، وٹامن ڈی اور سیلینیم قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹین بھی مچھلی کا ایک اہم حصہ ہے۔ خاص طور پر اومیگاتھری ہمارے دل کے لئے بہت مفید ہے ۔بڑھی ہوئی دل کی دھڑکن اوربڑھے ہوئے بلڈ پریشر میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ کولیسٹرول کی مقدار میں کمی کا بھی باعث بنتا ہے اور نتیجتاً عارضہ دل اور سٹروک جیسی بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔ فوائد کے ساتھ ساتھ چند احتیاطی تدابیر پر بھی عمل لازمی ہے۔ جو افراد مچھلی کھانے سے گریزاں ہیں انہیں اس کے کھانے سے فوائد و نقصانات کے تناسب کا اندازہ کرنے کے بعد اس چیز کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
مچھلی استعمال کرتے ہوئے کچھ مضر اثرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ زہر یلے مادے جیسا کہ مرکری بعض اقسام کی مچھلیوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں جن میں ٹونا، مرکل، سارڈ فش اور مارلن شامل ہیں۔ کچی مچھلیوں اور شیل فش جیسا کہ آئسٹرز، سکیلوپس اور کلیمز وغیرہ میں بیکٹیریا کی نشوونما بھی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ بعض لوگ صرف اس لئے مچھلی نہیں کھاتے کہ اسے تیار کرنا اور کھانا مشکل ہے۔ مذکورہ پیچیدگیوں کے باعث ہمیں مچھلی کو ترک نہیں کرنا چاہیے اسے اپنی خوراک میں لازمی شامل کرنا چاہیے۔ دل کی صحت پر سمندری غذا(Sea food) کے مثبت اثرات تحقیق سے ثابت شدہ ہیں۔ لہٰذا آئیے ہمارے اذہان میں موجود شک و شبہات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
مرکری کی زیادہ مقدار والی مچھلی سے گریز کریں
شملہ مرچ کو ’’پیپر‘‘ (Pepper) کا نام معروف سیاح کرسٹو فر کولمبس نے دیا تھا اور اسے یورپ میں متعارف کروانے کا سہرا بھی اسی کے سر ہے۔ شملہ مرچ کی سب سے زیادہ کاشت چین میں کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میکسیکو، ترکی ، انڈو نیشیا اور امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر یہ مرچ پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں عام طور پر سبز کے علاوہ سرخ اور پیلی شملہ مرچ بڑے سپر اسٹوروں پر مل سکتی ہیں، جب کہ نارنجی، گلابی ، جامنی اورسفید رنگ کی شملہ مرچ بھی دنیا کے مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں موجود مختلف کیمیائی اجزاء ان کو منفرد رنگ اور ذائقہ دینے کا باعث ہوتے ہیں۔
الف: سمندری غذا(Sea food) میں عام طور پر ہی مرکری کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر بعض مچھلیوں (جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے)میںیہ نسبتاً کافی زیادہ پائی جاتی ہے۔ حاملہ خواتین اور بچوں کو ان مچھلیوں سے گریزکرنا چاہیے۔
ب: اگر آپ مرکری کی زیادہ مقدار والی مچھلیوں کا استعمال کثرت سے کر رہے ہیں تو آپ مرکری کی زیادتی کے باعث ہاتھوں کی کپکپاہٹ، جسم کا سن ہونا یا یادداشت کے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں مگرایسا بہت کم ہوتا ہے۔
ج: ایک ہفتے میں مچھلی کی مجوزہ مقدار12 اونس ہے۔
کچی مچھلی کھانے سے گریز کریں
الف: آئسٹرز سمندری غذا(Sea food) کا وہ جزو
ہے جسے کچا بھی کھایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہیضہ ہونے کے امکانات بہت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔
ب: لہٰذا اگر آپ کو آئسٹرز پسند ہیں تو ان امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔
سمندری غذا کو گرل، بیک یا ساتے کر کے کھائیں
الف: سمندری غذا(Sea food) کو پکانے کے بہت ہی آسان طریقے موجود ہیں۔ محض پکانے میں دقت کی وجہ سے سی فوڈ کھانے سے اجتناب نہ کریں۔ اور ان طریقوں کو سیکھ کر اس اہم غذاکو خوراک کا حصہ بنا لیں۔
لہٰذا سمندری غذا(Sea food) کا ہفتے میں ایک یا دو بار استعمال صحت کے لئے مفید ہے۔ تاہم حاملہ خواتین اور بچوں کو مچھلی کھاتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے۔
٭…٭…٭