
ٹماٹر جو کہ اپنی اصل اور ہیئت ترکیبی کے اعتبار سے پھل ہے بظاہر بطور سبزی استعمال ہوتا ہے مگر ایسا مکمل طور پر نہیں ہے اس لئے اسے دونوں طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے سچ تو یہ ہے کہ یہ کئی غذائیت بخش پروڈکٹس (products) کا حصہ ہے اور چونکہ اس کو کئی طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے اس لیے اس کو دستر خوان سے دور رکھنے کی کوئی بھی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ ٹماٹر کھانے کا سب سے بڑا فائدہ اس میں موجود لائیکوپین Lycopene ہے۔یہ ایک طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ (antioxidant) ہے جو کہ سرطان کے سیل (cell)کو بننے سے روکتا اور انسانی صحت کو درپیش دیگر مسائل اور بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ انسانی جسم میں موجود مضر صحت فری ریڈیکل (free radical) سیل لائیکوپین کے ساتھ جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ اس میں بڑی مقدار میں اینٹی آکسیڈنٹ اجزاء ہوتے ہیں جو بے شمار غذائیت بخش اجزاء سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔
لائیکوپین ایسا اینٹی آکسیڈنٹ نہیں ہے جو انسانی جسم میں خودپیدا ہوتا ہو ، بلکہ یہ انسانی جسم کو بیرونی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے یہ بدن کے لئے اہم اس لئے ہے تاکہ جسم کا نظام ٹھیک طریقے سے چلتا رہے ،اکثر دیگر پھلوں اور سبزیوں میں بھی ضروری صحت بخش اجزاء ہوتے ہیں مگر لائیکوپین اس سلسلے میں بہت اہم ہے، اس اعتبار سے جس قدر ٹماٹر مالا مال ہے کوئی اور نہیں۔
ٹماٹر کے حوالے سے پوری دنیا میں تحقیق اور مطالعہ کیا گیا اور میڈیکل سائنس (medical science) اس حوالے سے لوگوں کو بلاشبہ بہت کچھ بتا چکی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ لوگوں تک پہنچایا جا چکا ہے اس سے کہیں زیادہ ٹماٹر کے فوائد ہیں۔ ان مطالعے سے نہ صرف یہ پتہ چلا ہے کہ ٹماٹر سرطان اور امراض قلب سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ کولیسٹرول (cholesterol) کو بھی اعتدال میں رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اس میں شک نہیں کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہٹماٹر کے صحت پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کو ہرگزرنے والے دن کے ساتھ دستاویزی شکل دی جارہی ہے اور ہرگزرنے والے دن کے ساتھ ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ نیا ہی معلوم ہوتا ہے۔
سرطان اور خاص کر پروسٹیٹ سرطان، رحم کا سرطان، آنتوں اور پیٹ کا سرطان، منہ اور غذائی نالی کا سرطان ان سب کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو روکنے اور ان کے خلاف مزاحمت پیش کرنے میں لائیکوپین زبردست کردار ادا کرتا ہے۔ لائیکوپین پہلے سے موجود سرطان کے خلیوں کو ختم کرتا ہے اور بعد میں پیدا ہونے والے خلیوں کو روک دیتا ہے۔ ٹماٹر کی اہمیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ روزانہ 450 ملی لٹر ٹماٹر کا جوس، لائیکوپین سے بھرپور ہوتا ہے اور وہ تمام فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ مطلب اگر کوئی شخص روازنہ ٹماٹر کا جوس مذکورہ مقدار میں پیئے تو وہ ساری زندگی صحت مند رہ سکتا ہے۔
سرطان اور خاص کر پروسٹیٹ سرطان، رحم کا سرطان، آنتوں اور پیٹ کا سرطان، منہ اور غذائی نالی کا سرطان ان سب کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو روکنے اور ان کے خلاف مزاحمت پیش کرنے میں لائیکوپین زبردست کردار ادا کرتا ہے۔ لائیکوپین پہلے سے موجود سرطان کے خلیوں کو ختم کرتا ہے اور بعد میں پیدا ہونے والے خلیوں کو روک دیتا ہے۔ ٹماٹر کی اہمیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ روزانہ 450 ملی لٹر ٹماٹر کا جوس، لائیکوپین سے بھرپور ہوتا ہے اور وہ تمام فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ مطلب اگر کوئی شخص روازنہ ٹماٹر کا جوس مذکورہ مقدار میں پیئے تو وہ ساری زندگی صحت مند رہ سکتا ہے۔
ٹماٹر کے جوس میں بھی وہی غذائیت بخش اجزاء ہوتے ہیں۔ اگرچہ ٹماٹر مختلف فارم (form) میں لگایا جاتا ہے اور اس کی شکل ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے مگر غذائیت میں سب برابر ہوتے ہیں۔ جب ٹماٹر کی پروڈکٹس (products) بناتے وقت اسے حرارت کے عمل سے گزارا جاتا ہے تو لائیکوپین میں کمی ہونے کی بجائے اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ٹماٹر کے انسانی صحت پر اثرات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور تحقیق بھی کی گئی ہے اس کے باوجود میڈیکل سائنس (medical science) کے حاملین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب بھی ٹماٹر کے سارے فوائد کے بارے میں جاننے میں ناکام رہے ہیں اور اس حوالے سے مسلسل تحقیق کی جارہی ہے۔
ٹماٹر اب تک پھلوں اور سبزیوں کے مقابلے میں ان بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوئے ہیں جو بنی نوع انسان کی جان کو عموماً لگی رہتی ہیں۔ بازار میں ٹماٹر کی بے شمار اقسام موجود ہیں اور ایسے میں اس کو استعمال کرکے صحت بخش فوائد حاصل کرنا اور بھی آسان ہو گیا ہے اگر آپ بھی اس سے سو فیصد مستفید ہونا چاہتے ہیں تو اسے خود اپنے فارم میں اگائیں۔ اچھا ہو گا کہ آپ نامیاتی (آرگینک) ٹماٹر اگائیں یہ ایک تفریحی عمل ہوگا۔ آپ کو دھوپ کے ذریعے کچھ وٹامن ڈی (vitamin D) بھی مل جائے گا اور ٹماٹر تو ہے ہی صحت بخش۔

ٹماٹر کھانے کے بے شمار فوائد ہیں۔ ٹماٹر میں ایسے مرکب شامل ہیں جو سرطان، امراض قلب ،موتیا اور دیگر عارضہ میں نہ صرف بہت مفید ثابت ہوئے ہیں بلکہ ان کے خلاف سخت مزاحمت کے علاوہ ان جراثیم کی افزائش کو بھی روکتے ہیں۔ ابتداء میں ٹماٹر کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے استعمال سے دماغ کا بخار اور سرطان ہوتا ہے اور اسے صحت کے لیے خطرناک سمجھا گیا۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے ایک بھی بات درست نہیں ہے اور اس کے اثرات تو ان باتوں کے برعکس ہیں۔
1800 ء تک امریکہ میں ٹماٹر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ اٹھارہویں صدی کی دوسری دہائی کے آخر میں نیوجرسی کا ایک شخص کرنل رابرٹ گیبون جونسن اسے بیرون ملک سے امریکہ لے کر آیا چونکہ لوگ ٹماٹر سے خائف تھے لہٰذا اس نے اعلان کیا کہ وہ 26 ستمبر 1820 ء کو ٹماٹر کھانے کا مظاہرہ کرے گا اس نے اپنے آبائی شہر سلیم (Salem) میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے مظاہرہ کیا اور ٹماٹر کی پوری ایک ٹوکری کھا گیا۔ لوگ اس انتظار میں تھے کہ بس یہ لڑھکنے ہی والا ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور تب سے ٹماٹر امریکیوں کی غذا کا ایک اہم جزو بن گیا۔
ٹماٹر میں وٹامن سی کی بھاری مقدار ہوتی ہے۔ ایک انسان کو روزانہ جس قدر یہ وٹامن چاہیے اس کا 40 فی صد ٹماٹر سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے ذریعے وٹامن اے 15 فی صد، پوٹاشیم 8 فی صد اور 7فیصد آئرن خواتین کو ملتا ہے جبکہ مردوں کو اس سے دس فی صد آئرن ملتا ہے۔
ٹماٹر میں جو لال لال مواد ہوتا ہے اسے لائیکوپین کہتے ہیں۔ یہ مرکب اینٹی آکسیڈنٹ ہوتا ہے اور فری ریڈیکل سیل کو نیوٹرلائز (Neutralize) کرتا ہے جو انسانی سیل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ ایک اور جانا پہچانا اینٹی آکسیڈنٹ بیٹا کروٹین (Beta-carotene) کے مقابلے میں لائیکوپین دوگنی قوت کا حامل ہے۔ ہارورڈیونیورسٹی (Harvard university) کی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو شخص ہفتہ میں دس بار ٹماٹر کھاتا ہے اس میں سرطان کے امکانات 45 فی صد کم ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس کے فوائد صرف پروسٹیٹ کینسر تک ہیں۔ اٹلی میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ جو شخص روزانہ ٹماٹر بطور سلاد کھاجاتا ہے اس میں آنتوں اور پیٹ میں سرطان ہونے کے خطرات میں 60 فی صد کمی آجاتی ہے۔ اسرائیلی تحقیق کاروں کے مطابق لائیکوپین پھیپھڑے، چھاتی اور رحم کے سرطان کے خلاف سخت مزاحمت پیش کرتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لائیکوپین کی وجہ سے بزرگ لوگ زیادہ عرصہ تک سرگرم رہ سکتے ہیں۔
یہ صرف بچوں اور نوجوانوں کی پسندیدہ ٹھنڈی اور میٹھی ڈش نہیں بلکہ بڑے بوڑھے بھی اسے گھر کے اندر کھانا پسند کرتے ہیں، بشرطیکہ ان کے دانتوں میں ٹھنڈک نہ لگتی ہو۔ ہاں جن کے دانت سلامت اور صحت مند ہوں، وہ بھلا اس کا استعمال کیوں چھوڑیں، وہ تو نوجوانوں کی طرح برف بھی چبا ڈالتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گولا گنڈا صحت مندوں کی پسندیدہ ٹھنڈی میٹھی ڈش ہے۔ شوق فرمائیے، مگر ذرا دیکھ بھال کے۔

٭…٭…٭