
ایچ آئی وی، ایڈز کی زد میں آنے والا سب سے بڑا طبقہ نوجوان ہیں۔ خاندان میں ایڈز کے باعث اموات کی تعداد بھی سب سے زیادہ اسی طبقہ کے حصہ میں آتی ہے ۔ نوجوانوں کا ایک طبقہ بعض وجوہات کی بنیاد پر جنسی بے راہ روی اور منشیات کے استعمال کے سبب ایچ آئی وی ، ایڈز کی زد میں آجاتا ہے ، یا بد نصیبی غالب ہو تو اس کا شکاربھی ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نوجوان ہی معاشرے کا وہ جان دار اور متحرک طبقہ ہے کہ اگر اسے اخلاقی بے راہ روی سے بچا لیا جائے اور اسلامی طرز زندگی کا عادی بنا دیا جائے تو نہ صرف خود کو ایچ آئی وی ، ایڈز سے بچا لیتا ہے ، بلکہ معاشرے میں بھی ایچ آئی وی ، ایڈز کو پھیلنے سے روک دیتا ہے۔
ایک کروڑ سے زیادہ نوجوان
اس وقت دنیا میں ایک کروڑ سے زائد نوجوان اس مرض سے متاثر ہوچکے ہیں اور ہر روز چھ ہزار سے زائد نوجوان اس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ نوجوانوں کا ابتدائی عمر میں جنسی طور پر متحرک اور جنسی تعلقات میں مشغول ہوجانا ہے ۔ نوجوانی کا تجسس اور جستجو بھی انہیں منشیات کی دلدل میں پھنسادیتیہے ۔یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب وہ نیا نیا جوان ہوا ہوتا ہے ۔ اسے نہ تو ایچ آئی وی ، ایڈز کا خوف ہوتا ہے ، نہ ہی اپنی معاشرتی اور انفرادی ذمے داریوں کا احساس ۔ دوست ہی سب کچھ ہوتے ہیں، وہ چاہیں بنادیں چاہے بگاڑ دیں۔
یہ حقائق اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ نوجوانوں کو جوان ہونے سے قبل ہی اسلام کے مطابق پاکبازی سے آگاہ کردیا جائے۔ اس سلسلے میں مذہبی تعلیم نے اہم کردار انجام دیا ہے ۔ایسی تعلیم جو جنسی تعلقات کو ذاتی اور معاشرتی ذمے داریوں سے نتھی کردے ، جو اس کے بے محابا اور غیر ذمے دارانہ استعمال کے مضر اثرات سے آگاہ کردے، جو مذہبی اقدار کو صحت کے تقاضوں سے منسلک کردے۔
پسماندہ علاقوں میں بسنے والے
پسماندہ علاقوں میں بسنے والے نونہال اور نوجوان، ہماری توجہ اور ہمدردی کے زیادہ مستحق ہیں۔ وہ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں اس قدر بری حالت میں ہوتے ہیں کہ ذرا سا لالچ انہیں خطرناک کاموں پر مجبور کردیتا ہے۔ ذرا سا خوف انہیں اپنی دولت حسن لٹانے پر مجبور کردیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندہ علاقوں میں بسنے والے دس لاکھ سے زائد بچے دنیا بھر میں جنسی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں اور جنوبی ایشیا بہر صورت اس سے مستثنیٰ نہیں۔
ایڈز سے متعلق لاعلمی ، معاشرے کی بے فکری
نوجوانوں میںا یچ آئی وی ایڈز کے پھیلائو کی ایک بڑی وجہ مرض کے متعلق لاعلمی بھی ہے اور اگر کہیں معلومات فراہم ہیں بھی تو یہ خوف نہیں کہ وہ بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں اور ان کا وہ ساتھی بھی اس مرض کا شکار ہوسکتا ہے جو بظاہر صحت مند نظر آتا ہے اس مرض کا شکار ہو سکتا ہے ۔ محض ایچ آئی وی ، ایڈز کے بارے میں واقفیت عام کرکے ہم اس مرض کا توڑ نہیں کرسکتے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ تربیت کا بھی انتظام ہو اور اس ماحول کا بھی اہتمام ہو جو بچوں اور نوجوانوں کو شر انگیز ماحول سے تحفظ اور اخلاقی اقدار پر اعتماد فراہم کرسکے۔
ایسا ماحول کہ جہاں پرجنسی اور معاشی استحصال کا دور دورہ نہ ہو ۔ پسماندہ علاقوں میں بسنے والے بچوں اور جوانوں کو تعلیم و تربیت ، علاج معالجہ اور خوراک و رہائش کا معقول انتظام ہو ۔ نوجوانوں میں جنسی صحت کے تقاضوں سے آگہی اور کامل صحت حصول میں حائل رکاوٹوں سے دوری ہی وقت کا تقاضا ہے ۔جس سے مزید روگردانی نہیں کرنی چاہیے۔کہیں ہمیں اس کی بھاری قیمت ادا نہ کرنی پڑ جائے۔
اقوام متحدہ اپنی قرار داد میں اقوام عالم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نوجوانوں کو ایڈز کے متعلق مکمل شعور اور آگہی حاصل ہونا چاہیے اور ان میں وہ صلاحیت بیدار ہونی چاہیے جو ان میں معاشی اور جنسی استحصال کا مقابلہ کرنے کی سکت عطا کرسکے۔
کنڈوم اور سوئی کی دستیابی اور حصول میں آسانی
منشیات کا استعمال اور خاص طورسے نس کے ذریعے نشہ کرنے کی عادت اور جنسی بے راہ روی، ایچ آئی وی ، ایڈز کے فروغ کے اسباب پیدا کرتی ہے ۔ اس لئے انسداد ایڈز کی کوششوں کا بنیادی محور اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان عادات بد کے خلاف شعور بیدار کیا جائے اور ان کی ان صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے جو مضر صحت خواہشوں کو رد اور ان اسباب کی بیخ کنی کرسکیں جو ان عادات کے فروغ کا سبب بنتی ہیں۔
ہمہ گیر اور مسلسل کوششوں کی ضرورت
یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی ادارہ اس مقصد کو چشم زدن میں حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ہمہ جہت اور مسلسل کوشش درکار ہے۔ تاریخ انسانی بتاتی ہے کہ کوئی بھی دور انسان کی ان بشری کمزوریوں سے پاک نہیں رہا۔ چنانچہ ہر دور میںاس مقصد کے حصول کے لیے حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کرنے پڑتے ہیں ۔ ایڈز کی وبا ء کا خطرہ حقیقی بھی ہے اور فی الفور بھی ۔ اگر معاشرہ کے چند طبقات کسی بھی شخصی لغزش یا معاشرتی جبر کی وجہ سے اس مرض کا شکار ہوجاتے ہیں تو وہ تنہا اس مرض کی آگ میں نہیں جھلستے ، بلکہ پورا معاشرہ اس کی تپش کو محسوس کرتا ہے اور پھر یہ کوئی بعید نہیں رہتا کہ ہم خود یا ہمارے گھر کا کوئی فرد ، دوست یا رشتہ دار کسی حادثہ کے سبب اس مرض کا شکار نہ ہو جائے۔ انتقال خون اور آلودہ سوئیوں کے باعث اس مرض کا شکار ہونے والے افراد بالآخر اس مرض کا اس لئے شکار ہوئے کیونکہ یہ مرض ان کے معاشرہ میں موجود تھا۔ اگر یہ نہ ہوتا تووہ بھی اس مرض کا شکار نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو ایک بھول چوک یا کوتاہی کے سبب اس مرض کا شکار ہوگیا پھر وہ زندگی بھرکا روگی بن گیا ۔ واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اس کے مقابلے میں اس نے صاف ستھری زندگی اختیار کرلی تو معاشرہ بھی اس مرض سے محفوظ ہوگیا اور اس کے پاس بھی شریعت کے مطابق ازدواجی زندگی اختیار کرنے کا راستہ کھلا رہا۔ ہدایت اور راہنمائی کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ، یہ خدا کی طرف سے کبھی بھی آسکتی ہے۔
ایڈز سے بچاؤکا سب سے بنیادی اور مؤثر طریقہ
جنسی بے راہ روی سے مکمل احتراز ایڈز سے بچائو کاسب سے مؤ ثر طریقہ ہے۔ یوگنڈا ایچ وی آئی ، ایڈز کے طوفان کی بری طرح سے لپیٹ میں تھا۔ وہاں کے نوجوانوں نے ان اقدار کو فروغ دے کر ایڈز کے خلاف مؤ ثر بند باندھا ہے ۔ یوگنڈا میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور مذہبی علماء نے ایچ آئی وی ، ایڈز کے خطرے کو بھانپتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر گھراور معاشرے کو ایچ آئی وی ، ایڈز کے ناسور سے بچانا مقصود ہوتو پھر جنسی بے راہ روی سے بچنا ہوگا ۔
نئی سرنج کی فراہمی
انجکشن لگواتے وقت ڈاکٹر کو ہمیشہ نئی سرنج استعمال کرنے پر مجبور کریں ، اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انجکشن لگوانے والا خود نئی سرنج لے کر جائے اور ڈاکٹر کو انجکشن لگواتے وقت نئی سرنج خود پیش کرے۔
علماء اور مذہبی تنظیموں سے تعاون اور اشتراک
مذہبی تنظیمیں انسداد ایڈز کے لیے اہم کردار اد اکرسکتی ہیں۔ ان کا حلقہ اثر بہت وسیع اور گہرا ہوتا ہے ۔ یہ فرد اور معاشرہ کو راہنمائی فراہم کرتی ہیں ۔ عوام میں ان کے لیے محبت اور احترام کا رشتہ پایا جاتا ہے لوگ اپنے ذاتی اور اجتماعی مسائل کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں ۔ معاشرہ میں اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے یہ علماء اور دینی ادارے سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ مریضوں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دے سکتے ہیں۔مریضوں میں امید کا چراغ روشن کرسکتے ہیں ، ان میں احساس ذمہ داری بیدار کرسکتے ہیں ۔ ایڈز کے شکار بے کس و بیمار ماں باپ کی سرپرستی سے محروم بچوں پر دست شفقت دراز فرما سکتے ہیں ۔ الغرض مذہبی تنظیموں اور علماء کے تعاون اور اشتراک سے انسداد ایڈز کی کوششوں کو مؤ ثر اور عوام میں مقبول بنایا جاسکتا ہے ۔ علماء اور طبی عملے کے تعاون اور اشتراک سے انسداد ایڈز کی کوششوں کو راہنمائی بھی مل سکتی ہے اور ان کی قابل عمل حیثیت بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔
ہمارے مذہبی علماء عمومی طور پر ایچ آئی وی ، ایڈز سے بچائو کے نقطہ نظر سے کنڈوم کے استعمال پر محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن وہ بھی ازدواجی تعلقات میں جب ایک فریق ایچ آئی وی، ایڈز سے متاثر ہو چکا ہو تو کنڈوم کے استعمال کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ لازمی قرار دیتے ہیں ۔ جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو ہلاکت میں ڈال دینا مطلق حرام ہے ۔ بیرون ملک کے بعض علماء اور اسلامی تنظیمیں کنڈوم کے استعمال کے مشورے کو طبی عملے کا صوابدید اختیار سمجھتی ہیں اور توقع رکھتی ہیں کہ وہ اس کے ذمے دارانہ استعمال کو فروغ دیں گے۔
افریقہ میں کلیسا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کررہا ہے ۔ وہ ایک طرف تو معاشرے میں اخلاقی قدروں کو فروغ دے کر انسداد ایڈز کی کوششوں کو تیز کررہا ہے ۔ دوسری طرف ایڈز کے مریضوں کے علاج معالجہ ، توجہ اور نگہداشت کی سہولت بھی مہیا کررہا ہے ۔ اس کے علاوہ ایڈز کے باعث ماں یا باپ کی شفقت سے محروم بچوں کی سرپرستی کا انتظام کررہا ہے۔ اس سلسلے میں نیشنل کیرٹاس نامی ادارہ کا ایچ آئی وی، ایڈز سے متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے لیے خوراک ادویات ، توجہ اور نگہداشت کا پروگرام خاصا قابل ستائش کام ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا ء میں یہ کام بدھ مت کے پیرو کار خاص کر راہب بہ احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔
یوگنڈا میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کا اس سلسلے میں کام قابل فخر ہے اور دیگر اسلامی تنظیموں کے لیے عمدہ نظیر بھی ہے ۔ بعض مذہبی تنظیمیں جنسی تعلیم کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے اس طرح پیش کررہی ہیں کہ عوام کی جنسی معلومات تشنہ بھی نہ رہیں اور انہیں اس کے غیر ذمے دارانہ استعمال کے مضر اثرات سے واقفیت بھی رہے اور وہ اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار کی افادیت کو بھی محسوس کرسکیں۔
متعدی جنسی امراض کا انسداد
عالمی ادارہ صحت (W.H.O) کے مطابق اس وقت دنیا میں تیس کروڑ سے زائد افراد مختلف قسم کے متعدی جنسی امراض کا شکار ہیں اور ان میں سے اکثر امراض قابل علاج ہیں۔ متعدی جنسی امراض میں مبتلا افراد عام افراد کے مقابلے میں ایچ آئی وی ،ایڈز کے خطرہ سے دس گنا زیادہ دوچار ہوتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ جنسی امراض جنسی اعضاء پر زخم پیدا کرتے ہیں اور یہ زخم ایچ آئی وی کو جسم میں داخلے کاراستہ دکھاتے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ متعدی جنسی امراض میں مبتلا افراد اپنی غیر محفوظ عادات و اطوار کے باعث ویسے ہی ایچ آئی وی ، ایڈز کی زد میں مسلسل رہتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمجیب