
یہ تصور کسی نہ کسی حدتک شعوری یا غیر شعوری طور پر ہمارے معاشرے میں آج بھی پایا جاتا ہے کہ جس عورت کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوتا ، وہ منحوس سمجھی جاتی ہے۔
شادی کے بعد تین چار سال تک بچہ نہ ہوتو تشویش کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اسے شاید زیادہ تشویش نہ ہو،لیکن جب وہ اپنی ساس اور نندوں کو اس مسئلے پر گفتگو کرتی سنتی ہے تو بچے کی خواہش ضرورت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ چنانچہ بے قاعدہ یا باقاعدہ علاج کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ جھاڑ پھونک ، تعویذ گنڈوں اورعطائی علاجوں سے لے کر لیڈی ڈاکٹروں تک کے کئی کئی پھیرے لگائے جاتے ہیں۔
بانجھ پن کی معاشرتی خرابیاں تو اور بہت سی گنوائی جاتی ہیں، لیکن یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ ’’ بانجھ پن‘‘ کیسے ہوتا ہے اور اس کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں بے اولاد عورتوں کا تناسب غالباً سو میں سے ایک ہے، یعنی سو شادی شدہ عورتوں میں ایک عورت بے اولاد ہوتی ہے، جب کہ مغربی ممالک میں یہی شرح دس میں سے ایک ہوتی ہے۔ بیشتر صورتوں میں بے اولادی کی ذمے دار عورت ہی سمجھی جاتی ہے۔
بانجھ پن کے بہت سے اسباب ہیں۔ بعض خرابیاں جزوی قسم کی اور قابل علاج ہوتی ہیں ، لیکن بعض ایسی ہوتی ہیں کہ دستیاب علاجوں میں سے کوئی بھی علاج کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ جن اسباب کو بالعموم صرف انداز زیست کی تبدیلی سے دور کیا جاسکتا ہے، ان میں کثرت کار، بے تحاشا موٹاپا، بسیار خوری، غذائی کمی اور قلت خون وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ ان اسباب کو دور کرکے بانجھ پن کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ سیلان الرحم،یعنی لیکوریا کی بعض مریض عورتیں، بھی بانجھ پن کی شکایت میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ اگر اس کاصحیح طریقے سے علاج کیا جائے، غذا اور صحت وصفائی کے اصولوں کی پابندی کی جائے تو اس سبب کے رفع ہونے سے بھی بانجھ پن کی شکایت جاتی رہتی ہے۔
بعض عورتوں میں جنسی قلت الشہوۃ پائی جاتی ہے۔ جاہلانہ عقائد، ایام کی خرابیاں یا ابتداء ہی سے لڑکی کا کسی وجہ سے جنسی فعل کو ایک گناہ و گندہ فعل سمجھنا بھی ایسی سرد مہری کا سبب بن جاتا ہے اور اگر شادی کے بعد بھی یہ ذہنی کیفیت باقی رہ جائے تو بانجھ پن کا سبب بن جاتی ہے۔ اگر ایام کی خرابیوں کا علاج کرایا جائے اور سرد مہری کی اس ذہنی کیفیت کو رفع کردیا جائے تو بانجھ پن کی یہ شکایت ختم ہو جاتی ہے۔
بانجھ پن میں بعض شدید قسم کے اسباب، مثلاً خصیۃ الرحم کی عدم موجودگی یا ان کاسکڑ کر ضروری نشوونما سے محروم رہ جانا یا شدید قسم کا لیکوریا، جس میں دہرا ہوجانے کی حد تک آگے یا پیچھے کی جانب رحم(Uterus) کا جھک جانا شامل ہیں۔ یہ عوامل ایک عورت کو اولاد سے محروم کرسکتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں منی کے کیڑے رحم میں داخل ہی نہیں ہونے پاتے۔ استقرار حمل کو ممکن بنانے کے لئے اس صورت حال کی اصلاح بہت ضروری ہے ، ورنہ مستقل طور پر بانجھ پن کی شکایت ہو جاتی ہے۔
مزمن ورمِ رحم اور رحم کی بعض رسولیوں کی پیدائش بھی بانجھ پن کا سبب ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اندام نہانی (Vigaina) کی ساخت کی خرابی بھی استقرار ِحمل میں مانع ہوتی ہے ۔ بعض اوقات اندامِ نہانی کی جھلی (پردۂ بکارت) جوشادی ہوجانے کے باوجود بھی نہیں پھٹتی، وہ بھی استقرار حمل روک دیتی ہے ، لیکن اس کا تدارک تو آپریشن سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ (HS-1217)
٭…٭…٭