چند تشخیصی نکات

العلامات فی الطب الاسلامی

طب اسلامی میں معالجات کا ایک اہم شعبہ علم التشخیص بھی ہے۔بالعموم سمجھا جاتا ہے کہ یہ علم صرف بیماریوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جب کہ اطباء کے نزدیک علامات کی اصطلاح کے مطابق بدن کی جملہ حالتوں کی نشان دہی اور پہچان دیناہے ۔مخزن المرکبات میں ڈاکٹر وحکیم غلام جیلانی ( شمس الاطباء) نے لکھا ہے کہ ’’اصطلاح طب میں علامات وہ ہیں جس کے ذریعہ بدن کی کسی حالت یعنی صحت و مرض میں سے کسی حالت کی دلیل پکڑی جائے یعنی جس کے ذریعہ صحت و مرض کا پتہ چلے۔‘‘

جملہ حالات بدن درحقیقت جالینوس کے نزدیک تین ہیں، جو صحت،مرض اور حالت ثالثہ ہیں۔ چنانچہ ابن سینا نے القانون فی الطب کی تعلیم نمبر3کی پہلی فصل یعنی ’’کلام کلی فی العلامات والدلائل‘‘ میں جالینوس کی تقلید میں لکھا ہے کہ علامات وہ علم ہے جو بدن کی تینوں حالتوں میں سے کسی بھی ایک حالت پر دلالت کرتی ہے۔

جامعیت کے ساتھ بحث کرنا طب اسلامی کا شیوہ ہے۔ دیگر طبوں میں علامات کا اظہار صرف بیماریوں کے لئے ہوتا ہے۔ ایلو پیتھک میں اس کے لئے سمٹپم(Symptoms)، سائن(Sign) اور انڈی کیشن(Indication)کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ سمٹپم(Symptoms)کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ کسی فرد کا ایسا ذہنی یا بدنی تجربہ جبکہ وہ بیماری سے گزر رہا ہو اور وہ اس بیماری کی حالت کو ظاہر کردے۔

سائن(Signs) :میڈیکل میں سائن سے مراد وہ حالت ہے جو کسی بیمار کے سریری امتحان(Physical Exam)یا کسی امتحان معمل (Laboratory Test)کے نتیجہ میں ظاہر ہو اور بیماری بتائے۔انڈی کیشن(Indication) میڈیکل میں انڈی کیشن سے مراد ایسی حالت ہے جس میں کسی بھی طبیعی و کیمیاوی امتحان (Test) ، دوا ، عمل یعنی سرجری وغیرہ کو اختیار کرنے کا سبب عمل میں آتا ہے۔

طب میں ایلو پیتھک کے برعکس علامات صرف امراض پر ہی محیط نہیں ہوتی بلکہ جمیع احوال بدن پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے اطباء نے نہ صرف مرض بلکہ صحت اور حالت ثالثہ کی علامات کا بھی ذکر کیا ہے۔

طب میں علامات مریض کے ماضی پر بھی دلالت کرتی ہیں حال پر بھی اور مستقبل پر بھی۔ اگر یہ ماضی پر دلالت کریں تو انہیں علامات مذکرہ یعنی گزری ہوئی علامات کہتے ہیں جیسے نبض موجی ہے کہ جب اس کی منشاربت ضعیف میں بدل جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ منشاری ہونے کے بعد کثرت تنفس کے سبب پسینہ آجانے کے باعث اب یہ موجیت اختیار کرچکی ہے چنانچہ جب کثرت حرارت اور سرعت تنفس کے بعد نبض کثرت تحلیل کے عمل سے گزری تو اس پر ضعف وارد ہوا اور اس نے منشاریب کو موجیت میں بدل دیا ۔ یوں نبض کی تبدیلی کے اس عمل میں بدن کے ایک گزرے ہوئے کثرت پسینہ اور سرعت تنفس کا علم دے دیا۔

اس طرح علامات مذکرہ سے مراد کسی فرد کے بدن کے سابقہ حالات سے واقفیت ہونا ہوتی ہے تاکہ ایک طبیب اسباب کا احاطہ کرسکے اور علاج کے ضمن میں ان معلومات کو استعمال کرسکے۔ اس کے برعکس حالت بدن کی موجود علامات کا علم براہ راست مرض اور اس کے زمانہ و انجام پر دلالت کرتا ہے ۔ اس لئے طب میں اس کے لئے جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے اسے دال یا علامات دال کہا جاتا ہے۔

ان علامات میں مریض اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنے معالج کو چونکہ اپنے ایسے احساسات سے آگاہ کرتا ہے جن سے معالج کے لئے بیماری کو سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ اس لئے ایسی تمام تر علامات مثلاً تھرما میٹر کی مددسے جسم کی حرارت کا تعین، خون ، پیشاب ، براز اور بلغم وغیرہ کا امتحان جبکہ الٹرا سائونڈ ٹیکنالوجی، ایم آر آئی اور سی ٹی سکین وغیرہ کے علاوہ دیگر تمام ٹسٹ جو جسم کی موجود ہ حالت بتائیں علامات دالہ کہلاتی ہیں۔ خواہ وہ موجودہ ٹیکنالوجی ہو یا آنے والے دور میں اس سے مختلف ۔ الغر ض ہر وہ ٹسٹ یا مشین جو مریض کی موجودہ کیفیات سے آگاہ کرے یا مریض اور اس کے متعلقین کا بیانیہ وغیرہ جو کہ یہ تمام مریض کی موجودہ حالت مرض اور کیفیات مریض کو واضح کرتی ہیں۔

ان علامات کے علاوہ اطباء بعض علامات کو تقدمتہ المعرفہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں جوکہ انجام مرض کی آگاہی دیتا ہے جس کی بنا پر مریض کو پرہیز نہ کرنے کے انجام سے آگاہ کرنے ، مختلف تدابیر اختیار کرنے ، حجامہ ، تدلیک اور تعلیق وغیرہ کی مدد لینے کی طرف آمادہ کرتا ہے۔

جب ہم ایلوپیتھک اصطلاحات کا جائزہ لیتے ہیں توSymptom کے لغوی معنی باہم متصل ہونا کے ہیں۔ اصطلاحاً جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ ایک ایسے تجربہ کا نام ہے جس سے انسان بیماری کی حالت کے دوران ذہنی یا بدنی طور پر گزر رہا ہو اور وہ بیماری کا علم دے رہا ہو۔ بظاہر یہ علامت کا متبادل لفظ ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ سمپٹم جس مرض کی نشان دہی کرتی ہے وہ موجود بھی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مرض تو لاحق ہو مگر اس کی علامت ظاہرہو گئی ہو، جیسے کہ بعض اوقات مرد مریض کا یورک ایسڈ 7-5 سے اوپر ہونے کے باوجود بھی اسے نہ ورم ہوتا ہے اور نہ ہی درد اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کہ بادل بارش کی علامت تو ہے مگر یہ بھی تو ہوتا ہے کہ بادل گن گرج کے ساتھ آتے تو ہیں مگر بارش نہیں برستی۔

اسی طرح سائن(Sign)اس علامت کا نام ہے جو مریض کے جسم یا اس سے خارج ہونے والے فضلات یا اخلاط کے معملی امتحان مرض پر دلالت کریں۔ اس میں بھی پورے طور پر تشخیصی عمل کا اظہار نہیں ہوتا ہے۔ جیسے آگ اور دھواں ایک دوسرے کی دلیل اور مدلول تو نہیں مگر جلنے کے عمل میں تو آگ کے بغیر بھی توانائی کے ذرائع استعمال ہوسکتے ہیں۔

اطباء کے نزدیک علامات کی بحث بہت جامع ہے اور اس کے کئی حوالے ہیں۔ اس لئے تشخیص کے عمل میں اطباء نے بہت نزاکت سے کام لیا ہے ان کے ہاں علاماتِ تشخیصیہ، علاماتِ تمامیہ، علاماتِ جوہریہ، علاماتِ حالیہ، علاماتِ شرکیہ، علاماتِ عامہ، علاماتِ خاصہ، علاماتِ عرضیہ، علاماتِ مبینہ، علاماتِ مخلطہ، علاماتِ مذکرہ، علاماتِ مستقسمہ، علاماتِ مشترکہ، علاماتِ مقامیہ، علاماتِ منذرہ اور علاماتِ منعکسہ وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔

علامات میں سے اکثر کا تعلق اطباء سحنۂ مریض سے جوڑتے ہیں۔ اور اس میں زیادہ اہمیت بیانیہ مریض کی ہوتی ہے کہ وہ خود کیا محسوس کرتا ہے۔ اگر مریض غیر ذمہ دار یا جاہل ہوتو ایسے میں دیگرعلامات حقائق تک پہنچنے میں معاونت کرتی ہیں۔ مثلاً اگر مریض کہتا ہے کہ میرے کلیجے میں درد ہے تو طبیب اس پر یقین کرنے کی بجائے اس سے استفسار کرے گا کہ اس کے درد کا مقام کیا ہے چونکہ اکثر مریض فم معدہ کو کلیجہ ہی سمجھتے ہیں۔ جبکہ کلیجہ تو جگر کو کہا جاتا ہے اسی مثال پر مریض کے بیانیہ کا قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ بعض اوقات کس قدر جہالت یا معصومیت پر مبنی ہے۔ اس طرح اگر مریض اپنی معلومات طبیب سے چھپائے گا تو مریض کو اس کے بیانیہ کے بجائے دیگر معلومات سے مرض تک پہنچنا پڑے گا۔ تاکہ مرض کی صحیح اور واقعی تشخیص عمل میںآسکے جیسے کہ استفسارات، نبض، بول و براز اور امتحان بطن کے لئے شعاعی(Xray) و بیش سمعی موجی آلات(Ultrasonographyتشخیص وغیرہ پر کرنا پڑے گا۔

اطباء کے ہاں تشخیص اور علامات تشخیص اہمیت کے بیان کے بعد بعض امراض کی اہم تشخیصی علامات کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے اطباء کی فنی ذہانت کا اظہار ہوتا ہے۔

مالیخولیا میں تشخیص

جب مالیخولیائی مریض اکثر شاداں و فرحاں نظر آتا رہے اوربظاہر اپنے آپ کو بے حد مسرور ظاہر کررہا ہو تو ایسا مالیخولیا خون کے سوداوی احتراق سے پیدا شدہ ہوتا ہے۔

ا گر مریض اس کے برعکس خوف زدہ اور رویا رویا سا رہتا ہو تو اس کے مالیخولیا کا سبب معدی و امعائی سوء مزاج ہوگا اورمریض کو ترش ڈکاریں آئیں گی اورقے میں غیر ہضم شدہ غذا خارج ہو گی۔

دماغی کمزوری سے پیدا شدہ غشی اور سکتہ
کی تشخیصی علامات فارقہ

غشی اور سکتہ میں فرق یہ کہ اگر ہاتھ پائوں سرد اور چہرہ زرد ہوجائے توغشی ورنہ سکتہ ہوتاہے۔

قاثا طیر کے استعمال سے درد کی تشخیص

اگر قاثاتیر(Catheter) کے استعمال سے درد ہو اور احتباس بول میں اضافہ ہو جائے تو یہ ورم مثانہ صلب (Cystitis) یا ورم غدہ قدامیہ صلب (prostatitis) ان دونوں میں امتیاز۔ مریض کے خون کے مخصوص ٹسٹ PSA سے ہوتا ہے ۔ اگر بڑھا ہوا ہو تو پراسٹیٹ کے ورم صلب (رسولی) ہوگی ورنہ ورم مثانہ صلب ہوگا۔

قاثا طیر کے استعمال سے درد کی تشخیص

بقراط نے لکھا ہے کہ اگر فواق ( ہچکی )کے مریض کو چھینکیں آنے لگ جائیں تو اس کی ہچکی رفع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا چھینکیں لانے والی ادویہ کا استعمال بھی فواق میں مفید ہے۔

ایک مریض کا دوسرے مرض سے علاج

روفس کے تجربات میں سے ہے کہ صرع(مرگی) کے مریض کو سر اور گردن پر برص(پھلبہری) کانشان ظاہر ہونا مرگی سے شفایابی کی دلیل ہے۔ اسی طرح ہیضہ کے مریض کو بخار لاحق ہو جانا ہیضہ سے شفایابی کی نوید ہے۔

علاماتِ انذار

بقراط نے لکھا ہے کہ اگر مرگی کا مریض دورہ کے وقت مردوں کی مانند گر جائے تو ایسی مرگی لا علاج ہے ۔ کیونکہ اس علامات کا مطلب مرض کی شدت ہے۔ا گر دورہ کی ابتداء مریض کے ہاتھوں میں تشنج سے ہو تو ایسا مریض قابل علاج ہے۔ لیکن اگر صرع کا آغاز پشت سر کی جانب سے ہو تو اس کا علاج مشکل ہے۔

قسطابن سوقا لکھتے ہیں کہ اگر سکتہ کے مریض کی ناک میں متعدد بار چھینکیں لانے والی دوا استعمال کرنے کے باوجود چھینکیں نہ آئیں تو مریض یقینا نہیں بچ سکے گا۔

مریض قولنج کو اگرقے اور فواق بھی عارض ہوجائیں تو یہ خطرناک علامات ہے۔

حمیات حادہ میں درد گوش کا لاحق ہونا بھی ردی علامات ہے۔

تپ دق کے مراحل کی تشخیص بذریعہ علامات

٭…اگر مریض کے رخسار سرخ ، کھانسی شدید اور سینہ میں درد ، غلبہ بخار اور بکثرت ریم وبلغم کا اخراج ہو تو تپ دق عارض ہوسکتا ہے۔
٭… اگر مریض کی نبض کمزور اور متواتر ہو ، بخار لازم ہو کر خفیف اور غیر محسوس ہو غذا کے بعد مریض کو پسینہ آکر حرارت بڑھ جائے تو یہ تپ دق کے درجہ اول کی علامت ہے۔
٭…اگر کنپٹیوں میں گڑھے ، آنکھوں میں حلقے اور سر کی ہڈیاں صاف نظر آنے لگیں نیز سر ، ناک او رگردن میں ہزال واقعہ ہوجائے تو یہ تپ دق کے درجہ دوم کی علامت ہے۔
٭… اگر دودھ کے استعمال سے مسلول (تپ دق و سل کا مریض)کے بخار میں اضافہ ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ حمیٰ دق کے ساتھ حمیٰ خلطی بھی شامل ہوچکا ہے۔ کیونکہ دودھ صفراء کی جانب مستحیل ہو کر بخار میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
٭…اگر مریض دق کی کھانسی شدید اور اخراج خون ، شفاف ، سرخ اور بکثرت مقدار میں ہوتو یہ سل کا آخری درجہ ہے۔
٭… اگر تپ دق کے مریض کے بال گرنے ، ناخن سیاہ و ٹیڑھے ہونے شروع ہوجائیں ، بدن دن بدن ہزال کا شکار ہونا شروع ہوجائے تو یہ سل کے آخری درجہ کی علامت ہے جو قربِ موت کو ظاہر کرتی ہے۔

حکیم منصور العزیز

٭…٭…٭

چند تشخیصی نکات
Tagged on:                             

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *