
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَمَن اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَاالنَّاسَ جَمِیْعًا۔(سورہ المائدہ:32)
جس نے ایک جان کو بچایاگویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
ان خیالات کا اظہار مدیر مولانا حافظ بلال اسلم نے جامعہ تعلیما ت اسلامیہ میں منعقدہ سول ڈیفنس، فرسٹ ایڈ اور فائر سیفٹی کے حوالے سے ایک روزہ تربیتی سیشن کے شرکاء سے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں خوشی اور غم ہماری زندگی کا خاصہ ہے۔ حادثات روز اول سے انسانی زندگی کو درپیش رہے ۔ حادثات سے خود کو کیسے بچانا ہے ، دوسروں کو کیسے بچانا ہے ۔ ان باتوں کی ہمارے معاشرے میں زیادہ ضرورت ہے وہ اس وجہ سے بحیثیت مجموعی ہم لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں خصوصاً ہمارے نوجوان اس کے زیادہ مرتکب ہوتے ہیں۔ آج سول ڈیفنس، فرسٹ ایڈ اور فائر سیفٹی کے حوالے سے ادارہ ہذا میں ایک تربیتی سیشن ہورہا ہے ۔ہم سب کا یہ فریضہ ہے کہ ہم سب ہمہ تن گوش ہو کر اس سے استفادہ کریں تاکہ اس کے مندرجا ت کو سیکھ کر ہم دوسروں کی اور اپنی زندگی بچانے کے قابل ہوسکیں۔ اس تربیتی سیشن میں تلاوت قرآن مجید، حمد باری تعالیٰ و نعت رسولؐ پیش کرنے کی سعادت مدرس قاری حافظ طلحہ شان نے حاصل کی جبکہ نقابت کے فرائض مدرس ابو ہریرہ نے ادا کئے۔
انسپکٹرشہری دفاع حافظ عدنان نے شرکاء تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ہماری کم علمی کی وجہ سے کسی انسانی جان کا نقصان ہوجا تاہے تو ہم ایک بہت بڑے اجر سے محروم ہوجاتے ہیں شاید زندگی میں دوبارہ یہ موقعہ نہ ملے ۔ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتو ایک بار کا موقعہ آخرت میں ہماری بخشش کے لئے کافی ہوگا۔ جیسا کہ علم دین کے حوالے سے ہے کہ بنیادی باتوں کا سیکھنا ہم پر فرض ہے، اسی طرح ہم خواہ کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں، جان بچانے والے طریقوں سے کماحقہ واقفیت رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔
1914ء میں پہلی عالمی جنگ لڑی گئی ۔ اس میں پہلی دفعہ جنگی جہازوں کا استعمال ہوا۔یہ جہاز شہروں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ اس طرح انسانوں کی بڑی تعداد اس سے متاثر ہوتی تھی۔ ان متاثرین کی دیکھ بھال اگر فوج واپس شہروں میں آکر کرے تو بارڈر پر فوج دشمن سے کیسے نبردآزما ہو۔ اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ شہریوں کو اس بات کی تربیت دی جائے تاکہ فوج دشمن سے نبرد آزما رہے اور شہری از خود دوسرے شہریوں جو کہ جنگ میں زخمی ہوچکے ہوں کی دیکھ بھال کریں۔ اس طرح ARP کے نام سے 1937ء میں سول ڈیفنس کا آغاز ہوا۔ اس ادارہ کے تحت شہریوں کی تربیت کا آغاز ہوا۔
ڈیزاسٹرمینجمنٹ سے مراد حادثہ کے اثرات کو کم سے کم کرکے اس صورت حال سے خود کو اور دوسروں کو بچانا۔
ڈیزاسٹر (آفت) یا تباہی وسیع پیمانے پر پیش آنے والا حادثہ ہے جو متاثرین کے کنٹرول سے باہر ہو۔ اس میں متاثرین کو باہر سے لوگوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔
اگر متاثرین خود اس آفت کو کنٹرول کرلیں تو پھر یہ ڈیزاسٹر نہیں کہلاتا۔ ایک ضلع میں پیش آنے والے حادثہ سے نپٹنے کے لئے قریبی اضلاع سے مدد لینا پڑے تو یہ آفت کہلاتی ہے ۔ اسی طرح کسی ملک میں پیش آنے والے حادثے کے لئے دیگر ملکوں سے مدد کی ضرورت پڑے تویہ نیشنل ڈیزاسٹر کہلاتا ہے ۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں 8اکتوبر 2005ء کو آنے والے زلزلہ کے پیش نظر ہوا۔
آپ کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہیزڈ کہلاتی ہے مثلاً آگ ، پانی، بجلی، گیس، چاقو اور چھری وغیرہ۔
ہیزرڈ (Hazard) سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے تھریٹ جنم لیتا ہے۔ اگر حفاظتی اقدامات نہ ہوں تو تھریٹ نقصان پہنچا سکتا ہے۔
آلارمنگ اسٹیج ایسی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں آفت رونما ہوچکی ہو یعنی جنگ لک چکی ہے۔ ایسی صورت میں پہلے سے حاصل کردہ تربیت کی ریہرسل کی جاتی ہے ۔ فلڈ کی صورت میں اگر پانی ذخیرہ کرنے کا انتظام و صلاحیت موجود ہوتوآپ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آپ کشتی رانی کررہے ہیں، آپ کے پاس (Scuba) Self Contain Breating Apperatus بھی نہیں، لائف جیکٹ بھی نہیں اور آپ کو تیرنا بھی نہیں آتا تو پھر آپ کا کشتی رانی کرنا اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈالنا کہلائے گا۔
ایک وقت تھا TTP(تحریک طالبان پاکستان) والے ہمارے مغربی بارڈر ڈیورنڈ لائن کے محافظ تھے ، ہمارے لئے ہیزر ڈ تھے۔ ہم نے پیشگی تیاری کے بغیر آپریشن شروع کیا تو پھر تھریٹ کا مرحلہ آگیا ۔ اس دوران ہمیں آئے روز نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس آپریشن کے ردعمل میں ہمارے 80,000شہری اور10,000 فورسز کے اہل کار شہید ہوگئے۔ دیگر اقوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے بارے میں ’’ دہشت گرد‘‘ کے لفظ کا استعمال ہوا۔ ہم نے اپنے آپ کو آج سے ہی تیار کرنا ہے۔ نوحؑ کو کشتی تیار کرنے کا اللہ رب العزت کی طرف سے حکم ملا تو آپ ؑنے فوراً اس پر عمل شروع کردیا۔ اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ پر توکل ضروری ہے ۔ہمیں حکم ہے کہ ہم اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کریں۔
آگ لگنے کے حوالے سے فاضل مقرر نے حاضرین و سامعین کو آگاہ کیا کہ اول کوشش کی جائے کہ آگ لگے ہی نہ ، لگ گئی ہو تو پھیل نہ سکے، اگر پھیل گئی ہے تو اس کے نقصانات کم سے کم ہوں۔ آگ احتراقی عمل کے نتیجے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے وقوع پذیر ہونے کے لئے آکسیجن، ایندھن اور مناسب درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فضا میں آکسیجن کا تناسب 16سے 21فیصد کے درمیان ہو تو آگ بآسانی لگ سکتی ہے۔ اگر فضا میں آکسیجن کا تناسب 16فیصد سے کم ہوتو آگ نہیں لگ سکتی۔
اےکلاس فائر:
ٹھوس چیزوں کو لگنے والی آگ Aکلاس فائر کہلاتی ہے ،مثلاً کاغذ، گتہ اور روئی وغیرہ۔
بی کلاس فائر:
بہنے والے مادوں لگنے والی آگ Bکلاس فائر کہلاتی ہے مثلاً پٹرول ، ڈیزل ، مٹی کا تیل ، پینٹ وغیرہ علاوہ ازیں ربڑ اور پلاسٹک کو لگنے والی آگ کو بھی اسی کلاس میں شمار کرتے ہیں۔
سی کلاس فائر:
گیس کو لگنے والی آگC کلاس فائر کہلاتی ہے۔
ڈی کلاس فائر:
دھاتوںکو لگنے والی آگ Dکلاس فائر کہلاتی ہے مثلاً ایلو مینیم، پوٹاشیم وغیرہ۔
ای کلاس فائر:
بجلی کی آگ Eکلاس فائر کہلاتی ہے،اس کو مدر آف آل فائرز بھی کہتے ہیں۔
آگ بجھانے کے طریقے
اےکلاس فائر کو بجھانا:
Aکلاس فائر کو بجھانے کے لئے عموماً پانی استعمال کیا جاتا ہے ۔ پانی کا پریشر بڑھانے کے لئے اس میں ہائیڈروجن گیس شامل کی جاتی ہے۔ اس سے آگ کا درجہ حرارت کم ہو کر آگ بجھ جاتی ہے۔
بی کلاس فائر کو بجھانا:
بی کلاس فائر کو بجھانے کے لئے مرکب استعمال کیا جاتا ہے جس میں پانی اور نائٹروجن گیس شامل ہوتی ہے ۔ اس سے سفید جھاگ نکلتی ہے ۔یہ فوم کی طرح آگ کو ڈھانپ کر بجھا دیتی ہے۔ اس کو شہری دفاع کی اصطلاح میں AFFF یا فوم ٹائپ کہتے ہیں۔
سی کلاس فائر کو بجھانا:
Cکلاس فائر کو بجھانے کے لئے ٹرائی کیمیکل پائوڈر ، سوڈیم بائی کاربو نیٹ اور پانی کا مرکب استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو شہری دفاع کی اصطلاح میں DCP کہتے ہیں۔ لکڑی ، کاغذ ،کپڑا، گتہ وغیرہ کو آگ لگنے کی صورت میں یہ مرکب مؤثر نہیں ہوتا۔
ڈی کلاس فائر کو بجھانا:
Dکلاس فائر کو بجھانے کے لئے اختیار کئے جانے والے عمل کو شہری دفاع کی اصطلاح میں DCP کہتے ہیں۔
ای کلاس فائر کو بجھانا:
بجلی سے لگنے والی آگ کو بجھانے کے لئےCO2 یا کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس استعمال کی جاتی ہے ۔ یہ نہایت ٹھنڈی ہونے کے باعث آکسیجن کم کردیتی ہے ۔ اس طرح آگ بجھ جاتی ہے ۔کھلی جگہ پر لگی آگ پر قابو پانے کے لئے یہ مؤثر طریقہ کار ہے۔ ایسی آگ پرپانی ڈالنے سے ہم خود حادثہ کا شکار ہوسکتے ہیں۔
آگ بجھانے کے اصول
کولنگ کا عمل:
اس عمل کے لئے عموماً پانی استعمال کیا جاتا ہے ۔ آج بجھانے کو جلنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے کسی کو روک دیں تو آگ بجھ جاتی ہے۔
ڈھانپنے کا عمل:
اس عمل کا مقصد آکسیجن کو روکنا ہے۔ کپڑے کو گیلا کرکے اس کو روکا جاسکتا ہے۔
جلنے والے مواد کو دور کرنا:
اگر آگ کسی گودام میں لگی ہو اور گودام میں ایسا مواد اور بھی موجود ہو جس کو آگ لگ سکتی ہے تو آگ بجھانے کے عمل کے ساتھ ساتھ وہاں سے دوسرے مواد کو دور کرنا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ آگ مزید بھڑک نہ جائے علاوہ ازیں مزید مالی نقصانات سے بھی بچا جاسکے۔
اگر آگ سوئی گیس پائپ لائن کو لگی ہو تو مین والو بند کرنے سے اس پر قابو پانا ممکن ہے۔ اگر ہم خود تربیت یافتہ ہیں تو ہم دوسروں کو بچا سکتے ہیں بصورت دیگر ہم نقصان کا خود شکار ہوجائیں گے ۔ اگر ہم تیراکی نہیں جانتے تو گہرے پانی میں چھلانگ لگا کر خود کو مصیبت میں مبتلا کرلیں گے۔ ایسی صورت میں ہمیں رسی یا کپڑے کے ذریعے ڈوبنے والے کی مدد کرنا ہوگی۔
آگ بجھانے والے آلے کو گزر گاہ
کے قریب ڈسپلے کرنا:
آگ بجھانے والے آلے کو گزر گاہ کے قریب ایسی جگہ پر ڈسپلے کرنا جہاں عام آدمی کی رسائی ممکن ہو تا کہ کسی ناگہانی صورت میں دوسرے افراد مدد کرنے کے قابل ہوسکیں۔ آلہ کو چار سے ساڑھے چار فٹ کی اونچائی پر نصب کرنا چاہیے ۔CO2 آلہ کے اوپر گیج نہیں ہوتی۔ اس آلہ کے اوپر لکھے ہوئے وزن سے اگر اس کا وزن ڈبل (دوگنا) ہوتو یہ قابل استعمال ہے۔CO2آلہ کے علاوہ آگ بجھانے والے باقی تمام آلات کو ایک بار استعمال کے بعد دوبارہ بھروا کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ آگ سے 10فٹ کے فاصلے پر ہوا کے مخالف کھڑ ے ہو کر اس کو استعمال کرنا چاہیے۔ اگر آلہ کے اوپر گیج لگی ہو تو اس کی سوئی سبز نشان کی طرف ہے تو آلہ قابل استعمال ہے۔
اداروں میں الارم کی تنصیب:
اداروں میں الارم کی تنصیب کو یقینی بنایا جائے۔ یہ دوطرح کے ہوتے ہیں ، ایک آٹو میٹک (خود کار) جو دھواں ہونے پر خود بجنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دوسرے عام الارم جو خود بٹن دبا کر بجائے جاتے ہیں ۔ کسی ہنگامی صورت میں افراد کو باہر نکالنے کے لئے اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔
آگاہی دینا:
فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد ، تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ، مارکیٹوں یا پلازوں میں کام کرنے والے ورکرز کو آگ بجھانے سمیت ریسکیو رکنے کے دیگر طریقوں کی عملی تربیت کو یقینی بنانا ہے۔
قانو ن نافذ کرنے والے اداروں اور شہری دفاع کے ادارے کا ہنگامی صورت حال کے حوالے سے اداروں کو کو چیک کرتے رہنا
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہری دفاع کے ادارے کا ہنگامی حالت کے حوالے سے دیگراداروں ، شاپنگ پلازوں کو وقتاً فوقتاً چیک کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان اداروں کی غفلت سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے بچائو ممکن ہوسکے۔
Avaculation Plan
(لوگوں کو بلڈنگ سے باہر نکالنا):
ہنگامی حالت میں سب سے قبل انسانی جانوں کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے افراد کو بلڈنگ سے باہر نکالنا ہوتا ہے۔ ادارہ میں کام کرنے والے افراد کو آگاہی دی جاتی ہے کہ ہنگامی حالت میں الارم بجایا جائے گا۔ الارم بجنے پر تمام افراد ہر کام چھوڑ کر فوری طور پر کھلے میدان /پلاٹ/ بلڈنگ سے فاصلے پر مقررہ جگہ پر جمع ہوکر قطار وار کھڑے ہو جائیں۔ ایک شعبہ میں کام کرنے والے افراد یا ایک کلاس میں پڑھنے والے طلبہ10-10کی تعداد میں الگ لائن میں اکٹھے ہوں تاکہ انچارج صاحب تمام افراد کو حاضری کے مطابق چیک کرکے سب کے باہر نکلنے یا کسی فرد کے بلڈنگ کے اندر رہ جانے یا پھنس جانے کی نشان دہی کرسکے تاکہ ریسکیو ٹیم کے پہنچتے ہی ان کو افراد کے اندر موجود ہونے یا نہ ہونے کی نشان دہی کی جاسکے۔ افراد کے اندر موجود ہونے کی صورت میں سب سے قبل وہ ان افراد کو باہر نکالنے کا بندوبست کریں گے۔
فیکٹریوں یا پلازوں میں آٹو فائر
کنٹرول سسٹم کی تنصیب:
فیکٹریوں، بڑے ہالز یا بڑے پلازوں یا ایسی بند مارکیٹوں یا بیسمنٹ میں جہاں بہت زیادہ افراد کام کرتے ہوں آٹو فائر کنٹرول سسٹم ضرور نصب کروانا چاہیے۔ اس سسٹم میں ایسی ٹیوبیں مختلف مقامات پر نصب کی جاتی ہیں جیسے ہی ہال کا درجہ حرارت 50سے60ڈگری سینٹی گریڈ پر پہنچتا ہے تو یہ ٹیوب پھٹ جاتی ہے ۔ اس کے پھٹنے پر پانی فواروں کی صورت میں نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔
بلڈنگ سے باہر نکلنے کا طریقہ
ازاںبعد فاضل مقرر نے طلبہ کو ہنگامی صورت حال کے پیش نظر کلاس روم/ بلڈنگ سے نکلنے کا طریقہ بتاتے ہوئے ( دونوں ہاتھ انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر سر کے پچھلے حصہ پر گردن سے اوپر رکھ کر ) ہال سے نکلنے کی عملی مشق کروائی اور اس مقام پر ہاتھ رکھنے کے فوائد (خدانخواستہ بلڈنگ گرنے کی صورت میں اس مقام پر لگنے والی چوٹ انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہوتی ہے) سے آگاہ کیا۔
گراؤنڈ میں کھڑے ہونے اور تمام طلبہ
کے باہر نکل آنے کا پتہ چلانا:
ازاں بعد فاضل مقرر نے طلبہ کے10-10 کی تعداد میں کھڑے ہونے کی عملی مشق کروائی تاکہ انچارج صاحب آسانی سے اندازہ لگاسکیں کہ تمام طلبہ باہر نکل چکے ہیں۔
آگ بجھانے کی عملی مشق:
ازاں بعد فاضل مقرر نے خشک لکڑیاں اکٹھی کرکے آگ لگانے کے بعد اس کو بجھانے کے لئے آلہ کے استعمال کے طریقہ کی طلبہ سے عملی مشق کروائی۔
مدیر جامعہ تعلیمات اسلامیہ نے مہمان مقرر حافظ عدنان کو ادارہ ہذا کی طرف سے خوب صورت شیلڈ اور دوسرے مہمان مقرر سب انسپکٹر عبدالقدیر کو کتب کے تحفہ سے نوازا۔
تمام شرکاء کے لئے ادارہ کی طرف سے ظہرانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ تربیتی سیشن میں سٹاف و طلبہ جامعہ تعلیمات اسلامیہ، سٹاف جامعہ طبیہ اسلامیہ ، ورکرز اشرف لیبارٹریز کے نمائندہ وفد نے شرکت کی۔
٭…٭…٭