
کچھ عرصہ پہلے تک دنیا نوول کرونا نامی وائرس کے نام سے واقف نہیں تھی۔ پھر یکا یک یہ خبر آئی کہ چین جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ وائرس جنم لے کر پھیل رہا ہے ۔ کچھ دن بعد یہ خبر بھی آئی کہ یہ وائرس مہلک اور انتہائی خطرناک ہے اور اس کے باعث چین میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ دس پندرہ یوم میں صرف چین میں اس وائرس کی وجہ سے موت سے ہم کنار ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور 72ہزار سے زائد افراد بیمار ہیں گویا کہ وہ موت کے منہ میں ہیں۔ اس وائرس کے نفوذ کرنے بعد انسان پر کیا گزرتی ہے اور کون کون سے اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی تفاصیل وقت گزرتے کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گی، تاہم اب تک جو ٹیلی ویژن پر دکھا یا گیا ہے وہ یہی ہے کہ انسان اس”19نوول کرونا” نامی وائرس جو کہ”Positive-Sense Singlestranded RNA Virus” ہے ۔ جو اچانک شدید حاد قسم کا التہاب شعبی پیدا کرکے نظام تنفس کو فوری ناکارہ بنادیتا ہے اور متاثرہ مریض طبی امداد سے پہلے ہی موت کی وادی میں چلا جاتا ہے ۔ اس کے پھیپھڑوں اور کو ن سے اعضائے رئیسہ، جگر ، گردے، دماغ یا دل اورکون سے اعضائے شریفہ ہیں جو بے کار کرکے ان کا کام بند کردیتے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے شاید چین کی بجائے پوری دنیا کے سائنس دان اور ڈاکٹرز کچھ عرصہ کے بعد تحقیق کرسکیں گے کہ اب تک چین کی حکومت کے ماہرین نے یہ معلومات دی ہیں کہ یہ مرض اس علاقے میں پھوٹا ہے جہاں کے لوگ ایسے ناگ کا گوشت کھاتے ہیں جو چمگادڑ کھاتا ہے اور بعض ماہرین کے خیال میں یہ چمگادڑ کھانے والوں کو لاحق ہوا ہے یا اس کا سبب ایسی غذا بھی ہے جس میں حرام حشرات الارض ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چین، اور کوریائی لوگ برسوں سے چوہے، بلیاں، چمگادڑیں، سانپ اور کتے کا گوشت کھار ہے ہیں ۔ پورا یورپ سؤر کا حرام گوشت کھارہا ہے پہلے یہ مرض کیوں نہ پھوٹا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کائنات ارض و سما کے نظام کو چلانے والی ہستی” کن فیکون” پر قادر ہے، وہ جب اور جیسے چاہتی ہے اس کائنات کے نظام کو چلاتی ہے ۔ انسان اپنے برے اعمال کے نتیجہ میں جب خدائی حدود توڑتا ہے تو وہ بستیوں کو تباہ کرتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر نازل ہونے والے عذاب سے مسلمان ہی نہیں یہودی اور عیسائی بھی واقف ہیں۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے دنیا میں کہیں ملیریا، کہیں ہیضہ، ٹائیفائیڈ، خسرہ، خناق، طاعون اور چیچک وغیرہ جیسے امراض پھیل جاتے تھے اور ہزاروں افراد چند دنوں میں لقمہ اجل بن جاتے تھے۔ بلاشبہ WHO نے ان امراض کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب WHO نے کرونا وائرس کے بارے پوری دنیا میں ایمر جنسی کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے امریکہ، برطانیہ ، فرانس ، جاپان نے اپنی پروازیں چین کے لئے متروک کردی ہیں کچھ اور ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے مگر کیا اس طرح یہ وائرس ختم ہو جائے گا ۔ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ دیگر ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ ہوائی اڈوں پر ہر مسافر کے لیے احتیاطی تدابیر کے نام سے جو مشکلات پیدا ہوچکی ہیں وہ اپنی جگہ، امریکہ نے اپنے افراد کو اس آفت زدہ ملک سے نکال کر پندرہ یوم کے قرنطینہ کی غرض سے اپنی مختلف ائیر بیس پر آرام کرانے جائزہ لینے کے لئے پرامن قید میں رکھا ہے۔ یہی حال دوسرے ممالک میں ہے ۔ پاکستانی طلبہ جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے کو واپس لانے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالا جارہا ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ وائرس زدہ طلبہ واپس آکر مرض پھیلانے کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ چین میں رکھ کر چین کی محسن حکومت ان کا علاج بہتر کرسکتی ہے۔
ایک بات قطعی واضح ہے کہ اس وائرس نے چین کی پوری دنیا پر معاشی برتری کے محو پرواز جن کے پر کاٹ دیئے ہیں۔ اربوں کا نقصان ، فضائی پروازوں اور تجارت کے معطل ہونے سے ہوچکا اور نہ جانے اورکیا ہوگا ، ابھی توآغاز ہے۔ چین کی معاشی ترقی کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ چند سال پہلے چین نے فصل کے بیج کھانے والے پرندوں کو ختم کرنے کے لیے مہم چلائی تھی لیکن دوسرے سال فصل اور کم ہوئی زندہ قوم کی حیثیت سے یہ تجربہ سامنے آیا کہ چڑیا جو سنڈی اور کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہتی ہیں وہ کیڑے مکوڑے فصل کو چاٹ کر پیداوار کی کمی کا سبب بنے ہیں۔ حال ہی میں آسٹریلیا نے وسیع علاقے میں ہزاروں اونٹوں اور گھوڑوں کو آسمان سے ہیلی کاپٹر وں کے ذریعے گولیوں کی بارش کرکے ختم کردیا ہے اور اس کا سبب یہ بتایا ہے کہ وہ جانور زیادہ پانی پینے کی وجہ سے پانی کی کمی کا سبب بنتے ہیں لیکن قدرت کاملہ نے جنگلوں کی بڑھکتی آگ کا وہ سماں پیدا کیا کہ آگ بجھانے کے لیے دیگر ممالک سے امداد طلب کرنا پڑی لیکن جب قدرت کاملہ نے چند دن پہلے بارشوں کے ذریعے اس آگ کو ٹھنڈا کردیا تو ترقی یافتہ قومیں منہ دیکھتی رہ گئیں۔
یہ مرض حقیقت میں صرف چین کے لئے نہیں بلکہ پوری سہمی ہوئی دنیا کے لئے عذاب خداوندی ہے لیکن ممکن ہے اللہ تعالیٰ چینی قوم کو راہ راست پر لانے کے لئے اس مرض کو رحمت بنادیں۔ آج ضرورت ہے کہ جس طرح پوری دنیا گناہوں میں گھری ہوئی ہے جو ظلم فلسطین اور کشمیر میں ہورہا ہے ۔اللہ کے کلام قرآن کریم کے اس دنیا میں صادق اور امین ہستی کے ذریعے آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حدود سے ساری دنیا واقف ہے۔ ایسی ریاستیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے انکاری اور دولت کے نشے میں بد مست ہیں۔ زلزلہ، سیلاب ، شدید برف باری اور اب کرونا وائرس کے جو عذاب نازل ہوئے ہیں اجتماعی توبہ کا اہتمام کیا جائے اور سفارتی سطح پر اس کا اہتمام کروایا جائے تاکہ یوںسسکتی انسانیت اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکے اور اس طرح آسمانی آفات، جن میں تیسری عالمگیر جنگ کے خطرات بھی ہیں کو ٹالا جاسکتا ہے۔
حکیم سید صابر علی