فسٹولا نوعیت مرض اورعلاج

ہر عورت کو ماں بننے کے لئے محفوظ اور صاف ستھرا ماحول درکار ہوتا ہے ، جس کے لئے معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی سمیت تربیت یافتہ عملے کا ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دوران زچگی و حمل کئی خواتین اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے کے ساتھ جسمانی معذوری کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ ان معذوریوں میں فسٹولا (Fistula) جیسا مرض بھی شامل ہے۔ فسٹولا کے مرض میں بعض اوقات مثانے(Urinary Bladder) اور اندام نہانی(Vagina) کے درمیان سوراخ ہو جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں پیشاب یا فضلہ مسلسل خارج ہو تا رہتا ہے ، یعنی فسٹولا کی شکار خواتین بول و براز کے اخراج پر قابو پانے کی طاقت کھو بیٹھتی ہیں۔ یہ ایک ایسا خطرناک مرض ہے جو خواتین کے لئے ذہنی و جسمانی اذیت کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے پیاروں سے بھی دور کردیتا ہے ۔ بول و براز کی ناگوار بو متاثر ہ خواتین کے وجود میں رچ بس جاتی ہے ، کیونکہ اس مرض میں ان کے لئے صاف ستھرا رہنا ناممکن ہو جاتا ہے، اس لئے زیادہ تر خواتین کو گھر کے کسی الگ تھلگ گوشے تک محدود کردیا جاتا ہے ، جہاں وہ تنہا پڑی رہتی ہیں۔

فسٹولا کا مرض ان ممالک میں عام ہے، جہاں غربت اور محرومی پائی جاتی ہے ، جہاں صحت کی عمومی اور تولیدی سہولتوں اور تربیت یافتہ عملے کا فقدان ہوتا ہے،جہاں جہالت اورنجاست کا راج ہوتا ہے ۔ جنوبی ایشیا کے بیش تر ملکوں میں ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 20سے30لاکھ خواتین اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں، جبکہ پاکستان میں سالانہ 4سے 5 ہزار خواتین اس مرض میں گرفتار ہو جاتی ہیں اور سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے ، تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اب اس مرض سے نجات پا کر نارمل زندگی بسر کی جاسکتی ہے ۔ نیز صحت یاب ہونے والی خواتین میں سے کئی خواتین ماں بھی بن سکتی ہیں۔

اب سے چند برس پہلے تک بہت کم افراد کو فسٹولا کے تعلق آگہی تھی ، مگر 2006ء میں یونائٹیڈ نیشن پاپولیشن فنڈ نے پاکستان کے محکمہ صحت کے تعاون اور پاکستان نیشنل فورم آن ویمنز ہیلتھ کے اشتراک سے فسٹولا پروجیکٹ کی ابتداء کی ، جس کے تحت شہروں میں فسٹولا سے متعلق معلومات اور اس کے تدارک کے لئے آگہی مہم کا آغاز کیا گیا ، جو تاحال جاری ہے۔ نیز کراچی، ملتان ، لاہور، کوئٹہ، لاڑکانہ ، پشاوراور اسلام آباد میں مراکز قائم ہیں ،جہاں فسٹولا سمیت دیگر پیچیدگیوں کے علاج کی سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی، حیدر آباد اور نواب شاہ میں ریفرل سینٹرز بھی موجود ہیں۔

پاکستان سے فسٹولا کا مرض ختم کرنے کے لئے آگہی پھیلانے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اعداد و شمار کی روشنی میں متاثرہ خواتین کا کھوج لگایا جائے ، لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ، اس کے لئے سرکاری اور نجی سطح پر اداروں اور شخصیات کا بھرپور تعاون ضروری ہے۔ اس کے علاوہ فسٹولا میں گرفتار خواتین کو علاج کی سہولت فراہم کی جائے۔ ملک بھر میں تربیت یافتہ دائیوں کی دستیابی اور پیچیدگیوں کی صورت میں ہنگامی دیکھ بھال کو ممکن بنا کر مزید خواتین کو فسٹولا میں مبتلا ہونے سے بچایا جائے۔

طارق نثار

٭…٭…٭

فسٹولا نوعیت مرض اورعلاج
Tagged on:         

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *