
عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں ہر سال یکم دسمبر کو ایڈز سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔یاد رہے کہ 2011ء سے 2015ئتک ایڈز سے متعلق عالمی یوم منانے کے لئے ایک ہی تھیم ’’مرض کا مکمل خاتمہ‘‘ منتخب کیا گیا تھا، جس کا مقصد ایڈز کی بڑھتی ہوئی شرح روکنا تھا ۔ واضح رہے کہ ایڈزAcquired Immune Deficiency Syndrome کا مخفف ہے۔
یہ مرض انسان کی قوت مدافعت اور انسانی جسم کے دفاعی نظام کو مفلوج کر دیتا ہے۔ ہر انسان میں انفیکشن یا عفونت سرائت کرنے کا خطرہ ہر لمحے موجود رہتا ہے۔
گو کہ پاکستان میں یہ مرض پھیلنے کی شرح اتنی نہیں جتنی کہ یورپی ، افریقی ممالک سمیت بھارت میں ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ مرض پھیلنے کی شرح ہمیشہ کم ہی رہے۔ اس کی تازہ ترین مثال صوبہ خیبر پختون خوا کی ہے، جہاں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ایڈز کے پھیلائو کے لئے جو اسباب درکار ہیں ، وہ سب پاکستان میںموجود ہیں۔
ایچ آئی وی وائرس( ہیومن ایمیون وائرس) سب سے پہلے کہاں نمودار ہوا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے سائنس دانوں نے1959ء سے1982ء کے دوران افریقہ میں 1213خون کے نمونے حاصل کئے اور تحقیق کی ۔ جس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ کانگو کے دارالحکومت ،کنشاسا کے علاقے لیو پولڈ ویلی میں رہنے والے قبیلے کے ایک شخص میں پہلی مرتبہ ایچ آئی وی کی علامات پائی گئیں۔
امریکہ میں ایڈز کی وبا کا سب سے پہلا واقعہ 5جون 1961ء کو منظر عام پر آیا ، جب پانچ ہم جنس پرست افراد نمونیا اور اس جیسے دیگر انفیکشنز میں مبتلا پائے گئے ۔ ایک نظریے کے مطابق امریکہ میں یہ بیماری سب سے پہلے ایک شخص گیٹن ڈوگاس کو ہوئی جس نے اسے تین سال کے عرصے میں تقریباً 50 مردوں میں منتقل کیا۔
یوں تو یہ مرض پھیلنے کے متعدد اسباب ہیں لیکن سب سے بڑا سبب جنسی بے راہ روی ہے جو کہ عموماً ہم جنس پرستی سے متعلق ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ایڈز سے متاثرہ ہر سات بالغ خواتین میں سے دوجسم فروشی میں ملوث ہوتی ہیں جبکہ پانچ گھریلو خواتین ہوتی ہیں کیونکہ بیرون ملک رہنے والے یا سفر کرنے والے مرد ہی یہ مرض اپنی بیویوں میں منتقل کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔
حقائق کے مطابق ایڈز کے پھیلائو کی ستر فیصد وجہ جسمانی تعلقات بنتے ہیں۔جب کہ آلودہ خون اور آلودہ آلات مرض پھیلانے کے حوالے سے کم تر شرح رکھتے ہیں ۔یاد رکھیے متاثرہ فرد سے گلے ملنے، ہاتھ ملانے ، ساتھ سونے ، اس کی استعمال شدہ لیٹرین استعمال کرنے ، کھانسنے ،چھینکنے یا متاثرہ شخص یا جانور کے ساتھ کھیلنے،متاثرہ شخص کے آنسو، پسینہ صاف کرنے ، اس کے کپڑے پہننے ، ایک ہی پلیٹ میں کھانے ، ایک ہی برتن میں پانی یا چائے پینے ، ان افراد کے بال کاٹنے ، استعمال شدہ ٹشو چھونے ، کیڑوں مکوڑوں اور مچھر کے کاٹنے سے یہ مرض نہیں پھیلتا ہے۔
ایچ آئی وی سے متاثرہ بہت سے مریض بظاہر صحت مند اور نارمل نظر آتے ہیں۔ کیونکہ متاثرہ افراد بیمار ہونے سے قبل کئی برس تک ایڈز کے جراثیم اپنے جسم میں لئے پھرتے رہتے ہیں اور عموماً ان میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ بعض افراد میں تو تین چار سال بعد علامات نمودار ہو جاتی ہیں جبکہ بعض میں دس سال تک کا بھی عرصہ لگ جاتا ہے ۔ ایڈز کی کوئی علامت ایسی نہیں کہ جسے دیکھ کر فوراً کہا جاسکے کہ یہ تو ایڈز کی ابتداء ہے۔
واضح رہے کہ ایڈز کی تشخیص کے لئے مخصوص ٹیسٹ تجویز کئے جاتے ہیں جن کے ذریعے موذی مرض کی موجودگی کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ ایسے افراد بڑی آسانی سے مختلف اور عام امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ بغیر کسی وجہ کے وزن کم ہو جانا ، جسم کے مختلف حصوں میں غدودوں کا2ماہ سے زائد عرصے تک بڑھے رہنا ، مسلسل بخار اور اسہال ، جلد کے دھبے خارش،فنگل انفیکشن، منہ یا جلد پر بھورے دھبے نمودار ہونا،متلی ، قے ، ٹی بی،نمونیا، منہ اور حلق کی متفرق تکالیف ، دانت اور مسوڑھوں کے امراض ، منہ کے گرد زخم ، چھالے ، اندر سفید دھبے اور ذہنی الجھائو وغیرہ۔ یہ ایسی عام بیماریاں ہیں جوکسی بھی فرد کو ہوسکتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ ایڈز زدہ ہے۔
جب ایڈز جیسی ہولناک بیماری کا انکشاف ہوا تو اس کے ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی لاحق ہوا کہ کہیں مچھر یا خون چوسنے والے دوسرے کیڑے ایچ آئی وی وائرس کی منتقلی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔لیکن جب تحقیق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ انسانی خون چوسنے والے کیڑوں سے یہ مرض ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب کوئی کیڑا انسان کو کاٹتا ہے تو وہ اپنا اور نہ ہی انسان کا خون (جسے اس نے پہلے کاٹا ہو) دوسرے انسانی جسم میں منتقل کرتا ہے بلکہ اپنا لعاب بطور لبریکنٹ انسانی جسم میں داخل کرتا ہے تاکہ اسے خون چوسنے میں آسانی رہے۔ملیریا اور زرد بخار جیسی وبائی بیماریاں بعض مخصوص قسم کے مچھروں کے اسی لعاب یا تھوک کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں۔
ایچ آئی وی وائرس جو ایڈز کا سبب بنتا ہے کسی بھی کیڑے یا مچھر کے جسم میں بہت تھوڑے وقت کے لئے زندہ رہتا ہے۔ بعض دوسرے جراثیم کی طرح ایچ آئی وی کا وائرس نہ تو کیڑوں کے جسم کے اندر پروان چڑھتا ہے اور نہ زیادہ عرصے تک زندہ رہتا ہے۔ اس لئے کسی ایڈز زدہ شخص کو کاٹنے کے بعد اگر مچھر کے جسم میں ایچ آئی وی داخل ہو بھی جائے تب بھی اس مچھر کے دوسرے شخص کو کاٹنے سے یہ وائرس دوسرے انسان میں منتقل نہیں ہوگا۔ مچھر یا کسی اور کیڑے کے فضلے میں بھی ایچ آئی وی نہیں پایا گیا ۔
احتیاط علاج سے ہر حال میں بہتر ہوتی ہے ، اس لئے جہاں تک ممکن ہو ، اپنے آپ کو احتیاط کے دائرے میں رکھتے ہوئے ان امراض سے بچنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ بعض جنسی بیماریاں لا علاج ہیں اور صرف احتیاط ہی ان کا علاج ہے۔ ایڈز اور دیگر جنسی بیماریوں سے بچائو کے لئے جونہی کسی جنسی بیماری کا شبہ ہو فوراً مستند معالج سے رابطہ کریں۔جنسی بے راہ روی سے مکمل اجتناب کریں۔
صرف اپنے جیون ساتھی تک محدود رہیں اور بے راہ روی کا شکار نہ ہوں۔ایڈز نہ صرف آپ کو موت کے منہ تک لے جاتی ہے بلکہ سسک سسک کر مرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ یہ مہلک مرض آپ کو رسوا کن موت سے بھی دوچار کرتاہے اور روز آخرت رسوائی کا سبب بھی ہے۔لہٰذا ایڈز سے نجات کا واحد حل احتیاط اور صرف احتیاط ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بری عادات سے بچائے اور امراض سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

٭…٭…٭