
کالی کھانسی کو ایک متعدی مرض تصور کیا گیا ہے جو عام طور پر چھوٹے بچوں کو لاحق ہو تا ہے۔ انگریزی میں اس کو ہوپنگ کف (Whooping cough) کہتے ہیں۔ اس کا دوسرا نام Pertussisہے۔ہمارے ہاں اس مرض کا نام ’’کالی کھانسی‘‘ شاید اس لئے پڑ گیا کہ اس میںمریض کا چہرہ کھانستے کھانستے سرخ ہو جاتا ہے اور پھر اس میں نیلاہٹ دوڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے مریض کا چہرہ کالا معلوم ہونے لگتا ہے۔
کالی کھانسی ایک خاص جرثومے سے پیدا ہوتی ہے جس کا نام ہیمو فیلس پر ٹیوسس(Haemophilis Pertussis Bacillus) ہے۔یہ جرثومے سانس کی نالیوں میں داخل ہو کر ان میں سوجن پیدا کردیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔ سانس کے رکنے سے کھانسی اٹھتی ہے اور کھانستے وقت وہ سانس کے تشنجی دورے (Spasmodic cough) میں مبتلا رہتا ہے ۔ اس دورے کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب سانس اندر کی طرف کھنچتا ہے۔ سانس کے کھینچنے سے ایک آواز پیدا ہوتی ہے۔ جو مرغ کے بولنے سے بڑی حد تک مشابہہ ہوتی ہے اس لئے قدیم کتب میں اسے ’’سعال دیکی‘‘ بھی لکھا گیا ہے۔دورے کے اختتام پر اکثر و بیشتر مریض کو قے ہوتی ہے جس میں عموماً بلغم نکلتا ہے۔
یہ ایک متعدی مرض ہے یعنی ایک سے دوسرے کو ہوا کے ذریعے اور خاص کر کھانسی سے نکلنے والے چھینٹوں سے دوسروں تک پہنچتا ہے۔ شروع کے دو ہفتوں تک یہ مرض بے حد خطرناک ہوتا ہے، بعد ازاں اس میں کمی آجاتی ہے،یہاں تک کہ چوتھے ہفتے میں مریض کا کھانسنا دیگر افراد کے لئے مضر نہیں رہتا۔ مرض کے شروع میں کالی کھانسی کے جرثومے حلق، ناک اور سانس کی نالیوں میں ہوتے ہیں مگر تندرست بچوں کے حلق میں یہ جراثیم شاذو نادر ہی پائے جاتے ہیں۔
یہ مرض عالمگیر ہے ۔ یہ کثیر المنزلہ اور گنجان آبادیوں میں ایک وبائی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ عموماً دوسرے،تیسرے یا چوتھے سال نمودار ہوتا ہے ۔ اس کے لئے ماہ و سال یا موسم کی کوئی قید نہیں مگر مخصوص قسم کی کھانسی وسط سرما سے شروع ہوتی اور موسم بہار میں عروج پر پہنچ جاتی ہے اور موسم خزاں میں جا کر کہیں ختم ہو تی ہے۔ عموماً اس مرض کا شکار دس سال سے کم عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ نوزائیدہ بچے کو یہ مرض بڑی جلدی اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بچوں میں بھی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس رعایت سے لڑکیوں کی شرح اموات بھی لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کا اندازہ آپ اس سے کیجئے کہ برطانیہ جیسے ملک میں 1953ء میں ایسے مریضوں کی تعداد50000 تھی۔
جب کوئی بچہ اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو مرض کی جملہ علامتیں فوری طور پر نمودار نہیں ہوتیں بلکہ پانچ سے چودہ دن کے اندر ظاہر ہوتی ہیں۔ اس وقفے کو مدت ظہور علامات(Incubation Period) کہاجاتا ہے مگر عام طور پر نو دن میں علامات پیدا ہو تی ہیں۔ جس کے بعد چھے ہفتے تک مریض صاحب فراش رہتا ہے ۔ ان چھے ہفتوں میں مرض کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ ہر صورت تقریباًدوہفتے قائم رہتی ہے۔
پہلی صورت میں جوسوزش ہوتی ہے اسے مائیں عموماً نزلہ،زکام یا سردی کے اثر سے تعبیر کرتی ہیں، رات کے وقت معمولی سی کھانسی اٹھتی ہے۔چند دنوں کے بعد یہ کھانسی شدت اختیار کرلیتی ہے اور دن رات بچہ کھانستارہتا ہے، نزلہ جاری رہتا اور چھینکیں بھی آتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات آواز نکلنی تقریباً بند ہو جاتی ہے یا پھر رک رک کر نکلتی ہے۔
دوسری حالت تشنجی سانس کے دورے کی ہوتی ہے جو پہلی صورت کے تقریباً دو ہفتے بعد کھانسی میں مزید شدت آجانے کے بعد پیدا ہوتی ہے ۔مریض کی کھانسی ، کھانستے کھانستے تشنجی دورے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ ایسے دورے 24گھٹنے میں پانچ سے لے کر بیس تک پڑ سکتے ہیں۔ اس میں بچہ برابر کھانستا رہتا ہے۔ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا گلا دبایا جارہا ہے ، گلے کی نسیں پھول جاتی ہیں، آنکھیں باہر کو نکلتی ہوئی محسوس ہوتی اور چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ بعدازاں اس میں نیلاہٹ آجاتی اور چہرہ متورم ہو جاتا ہے۔ بچے کے چہرے سے پریشانی عیاں ہوتی ہے۔ کھانسی کا اختتام سانس کے اندر کی طر ف کھنچتے وقت مرغ کی آواز پیدا ہونے پر ہوتا ہے جس کے بعد بلغم نکلتا یا پھر قے ہو جاتی ہے اور مریض کو تھوڑا سا سکون میسر آتا ہے۔ چند لمحوں بعد یہ دورہ پھر اسی ترتیب سے پڑتا اور مریض کو ہلکان کردیتا ہے۔
پانچویں اور چھٹے ہفتے میں افاقے کی صورت دکھائی دیتی ہے اور مرض رفتہ رفتہ جاتا رہتا ہے ،بشرطیکہ علاج قاعدے سے کیا جارہا ہو۔کالی کھانسی کی وجہ سے اور بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ ان میں بعض خطرناک ہوتی ہیں، مثلاً کالی کھانسی سے کان بہنے کا مرض(Otits Media) لاحق ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پھیپھڑوں کے بہت سے امراض ثانوی طور پر وجود میں آجاتے ہیں ۔ ان میں سرفہرست نمونیا(Bronchio Pneumonia) ہے۔ اس کے علاوہ ریوی تمدد غیر کامل (Atelectasis) کا مرض ہے جس میں پھیپھڑوںکے بعض حصوں میں سختی لاحق ہوجانے کی بنا پران میں ہوا داخل نہیں ہو پاتی ۔ اسی طرح جلدی انتفاخ الریہ (Subcut aneous Emphysema) بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ ا س مرض میں پھیپھڑوں کی ہوا جلد کے نیچے ہی نیچے گلے تک آجاتی ہے،نیز کبھی کبھی انتفاخ القصبہ(Bronchiectasis) کی شکل بھی پیدا ہو جاتی ہے ،جس سے پھیپھڑے میں مواد اور پیپ پڑ جاتی ہے ،اس کے سبب موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
کالی کھانسی سے اکثر اوقات دل کا دایاں حصہ بڑھ جاتا ہے جس کے نقصانات سب پر عیاں ہیں۔
ان امراض کے علاوہ کبھی کبھی منہ بھی آجاتا ہے، زبان سرخ ہو جاتی ہے، آنتوں میں زخم کی وجہ سے کھانے پینے میں دقت ہوتی ہے ، قے ہوتی ہے۔ کھانسی کی وجہ سے فتق(Hernia) کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔بعض مریضوں کو دماغی غشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں او ربعض
مرگی کے مرض میں مبتلا ہوجا تے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات جسم کے کسی حصے پر فالج کا اثر ہو جاتا ہے اور کبھی جریان خون (Haemorrhage) کی وجہ سے بینائی متاثر ہو جاتی یا آنکھ ٹیڑھی ہو جاتی ہے ۔ اس لئے احتیاطاً اگر کسی شخص کو ذرا سا بھی شک ہو کہ یہ کالی کھانسی ہے تو ناک سے خارج شدہ مواد کو جلد ازجلد تجربہ گاہ میں تجزیہ کے لئے بھیجنا چاہیے تاکہ مرض کی صحیح تشخیص ہو سکے۔ کالی کھانسی کے سلسلے میں جلدی اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے جراثیم شروع میں تو ملتے ہیں بعد ازاں غائب ہو جاتے اور چوتھے ہفتے کے بعد ان کی شناخت کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر بنجامن سپوک(Dr benjamin Spock) اپنی کتاب بچہ اور حفاظت اطفال(Baby and Child Care) میں بیان کرتے ہیں کہ اگرکوئی بچہ ایک سانس میں کم از کم آٹھ مرتبہ کھانستا ہے تو یہ کالی کھانسی کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ تجربہ گاہ میں کالی کھانسی کو معلوم کرنے کے لئے دو طریقے ہیں: پہلے طریقے میں مشتبہ مریض کا بلغم ایک پلیٹ میں رکھ کر جراثیم کی پرورش کرتے ہیں، جس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ واقعی کالی کھانسی ہے کہ نہیں۔ مگر یہ طریقہ کار دو تین ہفتے کے بعد بے کار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد جراثیم بلغم سے مفقود ہو جاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ خون گننے(Blood Count) کا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کو ایک بار کالی کھانسی ہو جائے تو اس کے جراثیم تمام عمر رہتے ہیں کیونکہ ضدحیوی اجسام (Antibodies) تیسرے ہفتے خون میں نمودار ہوتے ہیں اور یہی عمل ٹیکے کے ساتھ ہوتا ہے۔
کالی کھانسی کی پیچیدگیاں پانچ سال کے بچے تک زیادہ نمایاں رہتی ہیں، اس کے بعد کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس بارے میں سب سے بہتر یہ ہے کہ بچے کو دو ماہ کی عمر میں ہی اس کا ٹیکہ لگوادینا چاہیے۔ بازار یا ڈاکٹروں کے کلینک پر صرف کالی کھانسی کا ٹیکہ آج کل دستیاب نہیں ہوتا بلکہ تین امراض کے ٹیکے جن کو ڈی۔ پی۔ ٹی کا ٹیکہ کہتے ہیں دستیاب ہوتے ہیں اور یہی بچوں کو لگائے جاتے ہیں۔ اس طرح بچہ نہ صرف کالی کھانسی بلکہ خناق اور کزاز(Tetanus) سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ ٹیکہ تین مرحلوں میں لگایا جاتا ہے : اول دو ماہ کی عمر میں اور پھر تیسرے اور چوتھے ماہ ہیں۔ اس کے بعد بچہ ڈیڑھ سال تک محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔18 ویںماہ میں ایک بار پھر بچے کو ٹیکے لگوانا چاہئیں۔ا س طرح بچہ چار سال تک کے لئے محفوظ ہو جائے گا اور اب آخری مرتبہ یعنی چار سال کے اختتام پر تیسری مرتبہ ٹیکہ لگوانا چاہیے۔ اس طرح بچہ تقریباً خطرناک دور سے محفوظ گزر جاتا ہے۔ ان ٹیکوں کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ برطانیہ میں 1962ء میں کالی کھانسی کے مریض صرف آٹھ ہزار رہ گئے تھے اور اب تو اور بھی کم ہوگئے ہیں۔
دوسری ترکیب یہ ہے کہ بچے کو کالی کھانسی کے مریضوں سے دور رکھا جائے تاکہ وہ اس متعدی مرض سے محفوظ رہیں۔ ان تدابیر کے باوجود اگر بچے کو مرض لاحق ہو جائے تو فوراً معالج سے رجوع کیا جائے۔ اس کے علاوہ بچے کو آرام دہ بستر اور ہوا دار جگہ پر لٹایا جائے اور اگر ہوسکے تو علیحدہ کمرے میں رکھا جائے تاکہ دوسرے بچے اس مہلک مرض سے محفوظ رہیں ۔ اس کے علاوہ اس کی غذا زود ہضم ہو اور مریض کو تھوڑے تھوڑے وقفوںکے بعد دی جائے ، کیونکہ ایک وقت میں کافی مقدار میں کھانے سے قے ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ جب مریض کو قے ہو جائے تو اس کے بعد کھانا کھلانا زیادہ سود مند ہوتا ہے۔ غذا میں چائے کا استعمال رکھنا چاہیے۔
حکیم سید مجاہد محمود برکاتی
٭…٭…٭