
ننھے بچوں کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک ماں کا دودھ ہی ہوتا ہے اور یہ چیز بچے کی دماغ کی نشوونما، اس کے مدافعتی نظام ونظام ہضم کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔
اب اس بات کے شواہد بھی سامنے آ چکے ہیں کہ خوراک میں شامل کچھ ضروری کیمیائی مادے ایسے ہوتے ہیں جو ماں کے دودھ کے ذریعے ہی بچے میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ڈبے کے دودھ میں بھی بعض ایسے زہریلے کیمیائی مادے اور مضر صحت بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں جو ان کی صحت کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہمیں حالیہ برسوں میں اس وقت دکھائی دیں جب فارمولا مِلک کے کچھ نمونوں کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد ان کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی اور انھیں دکانوں سے واپس کمپنیوں کو بھجوانا پڑا۔ان باتوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہمارے بچے دنیا میں آنے کے بعد جو پہلی خوراک کھاتے ہیں اس میں نہایت مفید اجزا ء کے ساتھ ساتھ ایسی کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں جو نہ صرف مضر صحت بلکہ کبھی کبھی زہریلی بھی ہو سکتی ہیں۔ ان چیزوں کے خطرات سے آگاہی کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ بچوں کے لیے دستیاب خوراک، چاہے وہ ماں کا دودھ ہو یا فارمولا مِلک، ہم اس میں بہتری پیدا کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اپنے بچوں کو ان کی زندگی کے آغاز میں جہاں تک ممکن ہو بہترین خوراک دے سکیں۔
وہ دودھ جو روز بدل جاتا ہے
عالمی ادارۂ صحت کہتا ہے کہ بچے کے لیے پہلی بہترین خوراک ماں کا دودھ ہے اور چھ ماہ کی عمر تک بچے کو اس کے علاوہ کچھ اور نہیں دینا چاہیے۔ماں کے دودھ کے بنیادی اجزا ء میں پانی، چربی (فیٹ) اور لحمیات (پروٹین)کے علاوہ مختلف وٹامنز، معدنیات، خوراک ہضم کرنے والے انزائم اور ہارمونز شامل ہوتے ہیں۔ ماں کا دودھ ایک بڑی متحرک چیز ہے اور اس کے اجزاء ہروقت یکساں نہیں رہتے، مثلا ًصبح کی نسبت سہ پہر اور شام کے وقت اس میں چربی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ ماں کے دودھ کی ایک ہی خوراک میں بھی رد وبدل ہوتا رہتا ہے۔ جب بچہ شدید بھوک میں غٹاغٹ دودھ پینے لگتا ہے تو دودھ کے پہلے بڑے گھونٹ، جسے فور مِلک بھی کہتے ہیں، وہ پتلے ہوتے ہیں لیکن ان میں لیکٹوز زیادہ ہوتے ہیں۔ یوں بچے کی فوری پیاس بجھ جاتی ہے اور اس کے لیے دودھ پینا آسان ہو جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں پیچھے یا بعد میں آنے والے دودھ (ہائینڈ مِلک) میں بالائی اور چربی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔
ماں کے دودھ میں یہ اتار چڑھائو ایک ایسی خوبی ہے جس کی وجہ سے ڈبے والے دودھ میں خاصی ترقی کے باوجود اسے ماں کے دودھ کا نعم البدل بنانا مشکل ہے۔یونیورسٹی کالج لندن کے بچوں کی خوراک کے شعبے سے منسلک، پروفیسر میری فیوٹرل کہتی ہیں کہ انسانی دودھ نہ صرف بچے کی دودھ پینے کی عمر کے دوران بلکہ ایک دن، اور ایک خوراک کے دوران بھی اپنی ہیئت بدلتا رہتا ہے، اور اس کا انحصار کسی حد تک ماں کی اپنی خوراک پر بھی ہوتا ہے۔ ان تمام عوامل کی و جہ سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ڈبے کے دودھ میں کون سے اجزاء کس مقدار میں شامل ہونا چاہئیں تاکہ وہ آئے روز تبدیل بھی نہ کرنا پڑے۔
اپنے ایک مضمون میں پروفیسر میری فیوٹرل نے ماں کے دودھ میں شامل ہارمونز، خلیے (سٹیم سیلز) اور مائیکرو آر این اے (جینیاتی مواد) جیسی چیزوں کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔یہ اجزاء دودھ کی غذائیت میں اضافہ نہیں کرتے اور ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان اجزاء کا کردارکیا ہے … لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ ان اجزا ء کی بدولت ماں اپنے بچے میں اپنے ذاتی تجربات اور خصائل منتقل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کے دودھ کو ماں کی اپنی پیدا کردہ ذاتی خوراک کہا جاتا ہے۔
امریکہ میں80 فیصد سے زیادہ مائیں بچے کی پیدائش کے وقت سے اپنا دودھ پلانا شروع کر دیتی ہیں، لیکن بیماریوں کی روک تھام کے مراکز کے مطابق، یہ شرح چھ ماہ میں 58 فیصد تک گر جاتی ہے۔صحت کے حکام کی کوشش رہی ہے کہ اس شرح میں اضافہ ہو اور اس حوالے سے ماں کی مدد بھی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے تالو سے جڑی زبان(ٹائی ٹنگ) والے بچوں میں اس پیدائشی کیفیت کی تشخیص اور اس کا علاج بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ والدین جو بچے کو ڈبے کا دودھ دیتے ہیں، وہ بھی محکمہ صحت سے مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
پروفیسر فیوٹرل کے مطابق اگرچہ ماں کا دودھ بچے کے لیے بہترین قدرتی غذا ہے اور یہ ماں اور بچہ، دونوں کے لیے فوائد فراہم کرتا ہے، لیکن کچھ خواتین دودھ پلانے سے قاصر ہو سکتی ہیں، ایسا نہ کرنے کا انتخاب کر سکتی ہیں، یا کچھ مائیں جزوی طور پر اپنا دودھ پلانے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔’’اگر کسی نوزائیدہ بچے کو ماں کا دودھ نہیں دیا جا رہا، یا اس کے ساتھ فارمولا مِلک بھی دیا جا رہا ہے، تو ایسے بچوں کے لیے صرف ایک متبادل خوراک ہو سکتی ہے، اور وہ ہے کوئی ایسا فارمولا مِلک جسے نوزائیدہ بچے کی غذائی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہو اور اس سے بچے کی عمومی نشو ونما ہوتی رہے۔ اس میں توقع یہ ہوتی ہے کہ فارمولا ملک بناتے وقت اس میں لچک رکھی جائے کیونکہ نوزائیدہ بچوں کی خوراک میں ہر بچے کو ایک ہی سائز فٹ نہیں آتا۔
بہتر فارمولا مِلک بنانے کی کوشش
نوزائیدہ بچوں کے فارمولا ملک کی تیاری نے حالیہ دہائیوں میں ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ پوری 19 ویں صدی اور 20 ویں صدی کے اوائل میں، بوتل کا دودھ پلانے کو بچے کی صحت کے لیے زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔20ویں صدی کے ابتدائی برسوں میں یورپ اور دیگر دنیا کے یتیم خانوں میں تقریباً 80 فیصد ایسے بچے جنہیں بوتل سے دودھ پلایا گیا تھا وہ انفیکشن، یا غذائیت کی کمی کی وجہ سے ایک برس کی عمر سے پہلے ہی مر گئے تھے۔پہلی مرتبہ فارمولا مِلک 1865 ء میں بازار میں فروخت ہوناشروع ہوا تھا اور اس وقت یہ صرف چار اجزا ء سے بنایا جاتا تھا جن میں گائے کا دودھ، گندم اور باجرے کا آٹا اور پوٹاشیم بائی کاربونیٹ شامل ہوتا تھا۔ تب سے اب تک ڈبے کے دودھ کی غذائیت کے حوالے سے زبردست ترقی ہو چکی ہے۔
آج کے فارمولا مِلک میں کیا کچھ ہوتا ہے؟
ڈبے کے دودھ کی زیادہ تر اقسام میں چربی (فیٹ) والے مختلف اجزاء استعمال کیے جاتے ہیں جن میں گائے یا بکری کا دودھ (اکثر بالائی کے بغیر)، پام آئل، سورج مکھی کا تیل اور فیٹی ایسڈ شامل ہوتے ہیں۔ یورپی یونین کے قوانین کے مطابق فارمولا مِلک میں اومیگا تھری قسم کی چربی ڈالنا بھی ضروری ہے جو نوزائیدہ بچوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نشاستہ (کاربوہائیڈریٹس) میں سے انسانی دودھ میں لیکٹوز سب سے زیادہ ہوتا ہے اور فارمولا مِلک میں لیکٹوز عموماً پائوڈر کی شکل میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مالٹوڈیکسٹرن نامی نشاستہ بھی شامل کیا جاتا ہے جو مکئی یا آلو سے لیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں فارمولا مِلک میں گلوکوز (ایک قسم کی شکر) کو عام طور پر شامل نہیں کیا جاتا، تاہم امریکہ میں ڈالا جاتا ہے۔ اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ شکر سے نوزائیدہ بچوں کے دانت خراب ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ڈبے کے دودھ میں مختلف وٹامنز(اے، بی، ڈی اور کے)بھی شامل کئے جاتے ہیں اور کیلشیم، میگنیشیم، فولاد اور زِنک جیسی معدنیات بھی۔بدقسمتی سے ڈبے کے دودھ میں کچھ ناپسندیدہ کیمیائی اجزاء بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
دھاتوں کا مرکب
2017 ء میں امریکہ میں جب فارمولا مِلک کے کئی نمونوں میں جراثیم کش ادویات یا دیگر مضر اجزاء کی موجودگی کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ 80 سے 86 فیصد نمونوں میں آرسینک پایا گیا۔ اس تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ سویا بین سے بنے فارمولا مِلک میں دوسرے خشک دودھ کے مقابلے میں سات گنا زیادہ کیڈمیئم پائی گئی جو کہ ایک ایسی دھات ہے جو بیٹریوں میں ڈالی جاتی ہے۔
دو برس بعد کلین لیب پراجیکٹ کے تحت ایک مرتبہ پھر تحقیق کی گئی تو نوزائیدہ بچوں کے دودھ کی 91 مختلف اقسام میں سخت دھاتیں پائی گئیں۔
اس تحقیق کی رپورٹ کلین لیب پراجیکٹ کی ڈائریکٹر اور حیاتیاتی ماحولیات کی ماہر، جیکی بوون اور ان کے کچھ ساتھیوں نے مرتب کی تھی۔ وہ تب سے امریکہ میں ان مضر صحت چیزوں کے حوالے سے زیادہ شفافیت کے لیے مہم چلا رہی ہیں جو ہماری خوراک اور بچوں کے خشک دودھ تک پہنچ جاتی ہیں۔ جیکی بوون کے مطابق امریکہ میں فوڈ سیفٹی کے قوانین کے اطلاق کے باوجود ایسی مضر صحت چیزیں خوراک میں پائی جاتی ہیں کیونکہ قوانین کے تحت ماہرین کی توجہ صرف خوردبین سے نظر آنے والے جراثیموں تک محدود رہتی ہے جن سے ہاضمہ خراب ہونے (فوڈ پوائزننگ) کا خطرہ ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری خوراک میں موجود خوردبینی جراثیم تو کھانا پکانے کے دوران مر جاتے ہیں، لیکن اپنی خوراک سے سخت دھاتوں وغیرہ کو نکالنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ مسئلے کو جڑ سے اکھاڑا جائے، یعنی فصلیں اور سبزیاں اگانے کے لیے جو مٹی استعمال کی جائے وہ صاف ہو اور اس میں کوئی مضر صحت دھات وغیرہ نہ شامل ہو۔ فارمولا مِلک میں نظر آنے والے اجزاء کی ابتداء بہرحال کسی کھیت یا جانور سے ہوتی ہے۔اگر آپ واقعی اعلیٰ معیار کی تیار خوراک کھانا چاہتے ہیں، تو وہ اعلی معیار کے اجزا ء سے آتی ہیں۔ یہ خوراک صحت مند اور غذائیت سے بھرپور مٹی سے آتی ہے، یہ ایک ایسی ماحولیاتی پالیسی سے بنتی ہے جو اتنی زیادہ آلودگی کی اجازت نہ دے۔جیکی بوون سمجھتی ہیں کہ خشک دودھ کی کچھ اقسام ایسی ہیں جن میں سخت دھاتوں کی موجودگی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً گائے کے دودھ کی بجائے سویا بین سے بنائے جانے والا فارمولا مِلک۔
ڈبے کے دودھ میں مضر صحت اجزا ء کی موجودگی صرف ایک مسئلہ ہے۔ پائوڈر سے دودھ بنانے کے لیے آپ کو پانی بھی درکار ہوتا ہے، اور ضروری نہیں کہ آپ جو پانی استعمال کر رہے ہوں وہ ہر قسم کے جراثیموں سے پاک ہو۔
ماں کے دودھ میں موجود مائیکروبائیوم
گذشتہ کچھ برس میں بچے کی صحت میں انسانی مائیکروبائیوم کے کردار کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مائیکروبائیوم ان نہ دکھائی دینے والے خوردبینی جرثوموں کو کہتے ہیں جو ہمارے جسم کے اندر اور ہماری جلد پر پھلتے پھولتے ہیں۔ یہ ہمارے نظام ہضم میں بھی پائے جاتے ہیں۔لندن میں مقیم نوزائیدہ بچوں کی خوراک کی ماہر، ایملی بلوکسم کے مطابق اگرچہ غذائیت کے لحاظ سے اب فارمولا مِلک ترقی کرتے کرتے ماں کے دودھ کے قریب پہنچ گیا ہے، تاہم بچے کے معدے میں مائیکروبائیوم پیدا کرنے میں مرکزی کردار ماں کا دودھ ہی ادا کرتا ہے۔ ماں کے دودھ میں شامل وہ اجزا ء(مثلاً اینٹی باڈیز اور اچھے بیکٹیریا) جو بچے میں مائیکروبائیوم پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں، ہم ابھی تک وہ اجزا ء مصنوعی طریقے سے پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوئے ہیں۔
بائی فائیڈوبیکٹیریا ایک ایسا اچھا بیکٹیریا ہے جو ماں کے دودھ میں موجود ہوتا ہے اور یہ بچے کی زندگی کے پہلے ایک ہزار دنوں اس کے معدے میں جمع ہو جاتا ہے اور اس کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے علاوہ بچے کو دمہ، خشک جلد (ایگزیما) اور نظام ہضم کی خرابی سے محفوظ رکھتا ہے۔
آجکل کچھ فارمولا مِلک ایسے بھی دستیاب ہیں جن میں پری بائیوٹِک اور پروبائیوٹِک، دونوں قسم کے اجزا ء شامل ہوتے ہیں جو خشک دودھ کو ماں کے دودھ کے قریب تر بنا دیتے ہیں۔ تاہم، ڈبے کے دودھ میں ان اجزا ء کے اضافے کے باوجود، ماں کے دودھ میں ایک ایسی خاص صلاحیت پائی جاتی ہے جو فارمولا ملک میں نہیں ملتی، اور وہ یہ کہ ماں کا دودھ مسلسل تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی لیے بلوکسم کہتی ہیں کہ ماں کے دودھ میں ان اجزاء کی موجودگی اور مقدار کا انحصار مختلف چیزوں پر ہوتا ہے، مثلاً ماں کے جِینز، ماں کا تعلق دنیا کے کس علاقے سے ہے، وہ عمر کے کس حصے میں ہے اور اس کی اپنی خوراک کیسی ہے۔ یہاں تک کہ بچے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ماں کے دودھ کی طرح مصنوعی دودھ میں روزانہ کی بنیاد پر تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
لیبارٹری میں بنا ہوا دودھ ؟
ماں کے دودھ کی کچھ خصوصیات کی نقل تیار کرنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ انسانی دودھ بنانے والے خلیوں کو کسی لیبارٹری میں بنا لیا جائے۔ سائنسدانوں نے اس حوالے سے تحقیق شروع کر دی ہے۔
خلیوں کی بائیالوجی کی ماہر، لیلا سٹرکلینڈ نے کچھ ہی عرصہ پہلے امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا میں بائیومِلک کے نام سے ایک کمپنی قائم کی ہے۔ لیلا کو یہ خیال اس وقت آیا جب انہیں اپنے پہلے بچے کے لیے اپنے جسم میں کافی مقدار میں دودھ پیدا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
لیلا سٹرکلینڈ کی ٹیم خواتین کی چھاتیوں کے خلیے اور ان کے دودھ کو ملا کر ایک بوتل میں دودھ کی افزائش کرتی ہے۔ بوتل میں خلیوں کی نشوونما کے لیے مختلف غذائی اجزاء اور وٹامنز ڈالے جاتے ہیں۔ پھر ان بوتلوں کو بائیو ری ایکٹر میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں بوتل میں موجود خلیوں سے وہ اجزاء نکلنا شروع ہو جاتے ہیں جو انسانی دودھ میں ہوتے ہیں، یعنی بوتل میں دودھ کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔
اپنی لیبارٹری میں یوں بنائے جانے والے دودھ کو بازار میں لانے میں کمپنی کو ابھی مزید چند سال کام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کمپنی کو اس دودھ میں وہ تنوع لانے میں بھی وقت لگے گا جو ماں کے دودھ میں ہوتا ہے اور ہر ماں کے اپنے بچے کی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔لیبارٹری میں انسانی دودھ پیدا کرنے کے لیے دنیا کی کئی دیگر بائیو ٹیک کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں اور اگر یہ تجربات کامیاب ہو جاتے ہیں تو آنے والے دنوں میں فارمولا مِلک کے بارے میں ہماری سوچ تبدیل ہو سکتی ہے۔ مثلاً سنگاپور میں ٹرٹل ٹری لیبز نامی کمپنی مختلف دودھ دینے والے جانوروں (بشمول گائے، بھیڑ، بکری، اونٹنی)کے خلیے اور دودھ لے کر لیبارٹری میں دودھ کی افزائش کی کوشش کر رہی ہے۔
٭…٭…٭