
طب جدید یعنی ایلو پیتھی میں جسمانی معائنے کے طریقے ایسے ہیں کہ ان کی مدد سے تمام اعضاء وجوارح کی بافتوں (Tissues) تک کی معلومات عمل جراحی کے بغیر حاصل ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ خون اور لمف(ایک بے رنگ عرق جو حیوانات کی رگوں میں ہوتا ہے) کا بھی اب تفصیلی تجزیہ ممکن ہوگیا ہے ۔ معائنے کے ان جدید طریقوں میں سب سے زیادہ معروف طریقہ پیشاب یا قارورے کے معائنے کا ہے۔ ذیل میں اسی کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کی گئی ہیں:
طبی تاریخ پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم اطباء بھی تشخیص امراض کے لئے معائنہ پیشاب کی اہمیت سے خوف واقف تھے۔ ان کے ہاں تشخیص کی بنیاد، پیشاب کے رنگ، اس کی مقدار اور نیچے بیٹھنے والے تلچھٹ یعنی گاد وغیرہ پر تھی۔ مگر دور جدید میں اس معائنے پر بڑی ترقی ہوئی ہے ، جس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ پیشاب میں شکر کی موجودگی یا شکر کی مقدار کا پتہ لگانا ایک معمولی بات ہے۔ پیشاب کے معائنے میں کچھ عمل ایسے ہیں جو گھر پر ممکن نہیں۔ اس لئے یہ معائنہ بالعموم معمل یعنی کلینیکل لیبارٹری میں کیا جاتا ہے۔ پیشاب کے بننے کا تعلق چونکہ گردوں اور دوسرے آلات بول سے ہے، اس لئے ہم ان کے متعلق چند بنیادی باتیں تحریر کرتے ہیں تاکہ پیشاب کے معائنے کی حقیقت واضح ہو جائے۔
آلات بول
گردے انسانی بدن میں پیٹ کی پچھلی جانب ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف واقع ہوتے ہیں۔ ان کی شکل لوبیا(Bean)کے دانوں جیسی ہوتی ہے۔ دونوں گردوں کے اوپر غدہ کلاہ گردہ یا غدود فوق الکلیہ (Adrenal Glands) ہوتے ہیں۔ ہر گردے کے اندر سے ایک لمبی پتلی نالی نکلتی ہے جسے حالب (Ureter)کہتے ہیں۔ یہ نالی پیٹ کے نیچے کے حصے تک جا کر مثانے (Bladder)میں کھلتی ہے۔ پیشاب گردوں میں بنتا ہے اور یوریٹر میں سے ہوتا ہوا مثانے میں جمع ہوتا رہتا ہے اور وہاں سے مجری البول (Urethra)کے ذریعے باہر نکال دیا جاتا ہے۔
گردوں کا کام
گردے بدن کی چھلنیاں ہیں جو گندی رطوبتوں اور اس میں گھلے ہوئے کئی ٹھوس فضلات کو خون سے الگ کردیتے ہیں۔یوریا (Urea)اور یورک ایسڈ(Uric Acid) دو ایسے خاص فضلات ہیں جواگر خارج نہ ہوں تو گنٹھیا کا مرض لاحق ہو جاتا ہے ۔ یہ دونوں اشیاء بدن کی بافتوں کی ٹوٹ پھوٹ سے بنتی ہیں یا غذائی لحمیات کے استعمال ہونے کے بعد بے کار مادے کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ گردوں کا بڑا کام یہی ہے کہ وہ بدن کے بے کار مادوں کو باہر نکال دیتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ بہت سا گندہ اور بے کار پانی بھی خارج کرتے ہیں۔ گردے محض بے جان سی میکانی چھلنی نہیں ہیں۔ یہ بہت حساس اور تمیز دار ہیں۔ ان کے خلیے اچھی و بری چیز میں تمیز کی صلاحیت رکھتے ہیں اور خون کے اندر سے صرف نقصان پہنچانے والے بے کار مادوں کو باہر کھینچتے ہیں اور مفید اشیاء کو خون کے اندر ہی رہنے دیتے ہیں۔ البتہ بعض اوقات بیماری کی وجہ سے گردے یہ انتخابی عمل نہیں کرسکتے اور پیشاب میں انڈے کی سفیدی کی طرح کے قیمتی لحمیات یعنی بیضین (Albumin) بھی خارج کرنے لگتے ہیں۔ صحت کی حالت میں گردے زیادہ تر چھاننے اور فلٹر کرنے کا عمل ہی سرانجام دیتے ہیں۔ خون کی یہ چھنائی اور صفائی تندرستی کے لئے از حد ضروری ہے ، ورنہ بہت سی بے کار چیزیں خون کے اندر رہ کر خرابی پیدا کرتی ہیں۔24گھنٹوں میں تقریباً 2لٹر پیشاب خارج ہوتا ہے۔ یہ ہمارے پیئے ہوئے اور غذا کے اندر سے نکلے ہوئے پانی سے حاصل ہوتا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کھانا کھاتے وقت زیادہ پانی نہیں پینا چاہیے۔ کیونکہ اس سے لعاب معدہ پتلا اور کم اثر ہو جاتا ہے ، البتہ درمیانی اوقات میں خوب پانی پیا جائے تاکہ گردے اچھی طرح دھل کر صاف ہوجائیں۔
معائنہ پیشاب کے چند اہم پہلو
لحمیات
صحت مند گردے لحمیات کی کچھ مقدار پیشا ب میں خارج ہونے دیتے ہیں ،لیکن جب پیشاب میں لحمیات کی آمد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو اس سے کئی بیماریوں کی نشان دہی ہوتی ہے جن میں گردوں کی سوزش (Nephritis)، گردوں میں جراثیم کی سرایت، گردوں کی بافتوں کا انحطاط(Degeneration)،گردوں میں رسولی یا تھیلی (Cyst) کا بن جانا شامل ہیں۔ جسم کے کسی حصے میں جراثیم سے بننے والے زہر گردوں کے فعل پر اثر انداز ہو کر پیشاب میں لحمیات کی مقدار کو بڑھا دیتے ہیں۔ بعض اوقات شدید جسمانی مشقت سے بھی پیشاب میں لحمیات زیادہ آنا شروع ہوجاتی ہے مگر یہ کسی مرض کی علامت نہیں ہوتی اس لئے ہر آدمی پیشاب کی رپورٹ پڑھ کر صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا ۔ یہ تو ماہر معالج ہی جانتا ہے کہ پیشاب کی رپورٹ سے بیماری کی تشخیص کی جائے۔
شکر
عام حالات میں خون میں شکر کی مقدار معین رہتی ہے مگر جب یہ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو گردے اس کو پیشاب کے ذریعے خارج کردیتے ہیں ۔پیشاب میں شکر کا آنا بالعموم ذیابیطس شکری کے مرض کی علامت ہوتا ہے مگر کبھی کبھی بہت زیادہ مٹھائیاں ، گڑ یا شکر کھاجانے سے بھی پیشاب میں شکر آجاتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو بار بار پیشاب میں شکر کی موجودگی یا شکر کی مقدار کے امتحان کی ضرورت ہوتی ہے۔کلینیکل لیبارٹری میں بار بار پیشاب کا معائنہ کرانا مشکل ہوتا ہے ۔یہ معائنہ چونکہ مشکل نہیں ہے اور مریض خود بھی اسے آسانی سے کرسکتا ہے اس لئے ذیل میں اس کا طریقہ کار بیان کیا جاتا ہے:
شکرکے ٹسٹ کا طریقہ
ایک امتحانی نلی میں چائے کے چمچ کے برابربینیڈکٹ محلول(Benedict Solution)جوکہ سائنٹیفک سٹور سے تیار شدہ مل جاتا ہے۔ اس میں آٹھ قطرے پیشاب کے ڈالیں پھر اس نلی کو اسپرٹ لیمپ پر دو منٹ تک گرم کریں۔ گرم کرتے وقت نلی کو مخصوص ہولڈر کی مدد سے احتیاط سے پکڑیں اور خیال رکھیں کہ محلول گرم ہونے کے بعد ابل کر ٹیوب سے باہر نہ گرے۔ اس کے بعد امتحانی نلی میں رنگ کو غور سے دیکھیں، بینیڈکٹ محلول کا رنگ نیلا ہوتا ہے ۔ اگر ابالنے کے بعد رنگ تبدیل نہ ہو اور مرکب کا رنگ نیلا ہی رہے تو پیشاب میں شکر نہیں ہے۔ اگر ابالنے کے بعد فوراً رنگ تبدیل نہ ہو ، مگر ٹھنڈا ہونے پر سبزی مائل ہو جائے اور پیندے میں ہلکا زرد رسوب ( گاد)نظر آئے تو شکر بہت خفیف مقدار میں ہے اور نتیجہ ایک مثبت(+ve)ہوتاہے۔ اگر ایک منٹ تک ابالنے کے بعد رنگ تبدیل ہو جائے اور ہلکی سبزی مائل پیلی تہہ جم جائے تو نتیجہ دو مثبت(++ve) ہوتا ہے یعنی شکر ایک فیصد خیال کی جاتی ہے۔
اگر دس پندرہ سیکنڈ گرم کرنے کے بعد ہی رنگ تبدیل ہو کر زردی مائل بادامی ہوجائے تو نتیجہ تین مثبت(+++ve) ہوگا یعنی شکر ایک فیصد سے زائد سمجھی جائے گی۔ اگر رنگ فوراً ہی تبدیل ہو کر عنابی نظر آنے لگے تو نتیجہ چار مثبت(++++ve)ہوگا یعنی شکر دو فیصد سے زائد سمجھی جائے گی۔
وزن مخصوص(Specific Gravity)
پیشاب اور مساوی الحجم خالص پانی کے اوزان کا تناسب پیشاب کا وزن مخصوص کہلاتا ہے ، جو کہ ایک صحت مند آدمی کا 1.015سے1.025ہوتا ہے ۔ پیشاب کے وزن مخصوص سے گردوں کی کارکردگی کے بارے میں مفید اطلاعات ملتی ہیں۔ اگر پیشاب زیادہ پتلا ہو جائے تو اس سے یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ گردوں نے ٹھوس فضلات کو اکٹھا کرکے پیشاب کو گاڑھا بنانے کا کام چھوڑ دیا ہے، یہ بھی کچھ بیماریوں کی علامت ہے۔

ترشیٔ تاثیر (Acidic Reaction)
صحت مند انسان کے پیشاب کی تاثیر ترشی ہوتی ہے مگر اس کا مستقلاً قلوری یا کھاری (Alkali)ہوجانا بیماری کی علامت ہے ۔ یہ عموماً مثانے یا گردوں میں جراثیم کے سرایت کر جانے سے ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ نمونیا کے ایک مرحلے پر بھی پیشاب کی تاثیر قلوی ہو جاتی ہے ۔ بعض اعصابی بیماریاں ایسی ہیں جن میں پیشاب مستقل طور پر قلوی ہوتا ہے۔ آدمی کے کھانے پینے کی عادات کا بھی اس پر اثر ہوتا ہے ۔ زیادہ گوشت خور افراد کا پیشاب ترشیٔ اور زیادہ تر سبزیوں پر اکتفا کرنے والوں کا پیشاب عموماً قلوی ہوتا ہے۔
پت کارنگدار مادہ یا بائل پگمنٹ(Bile Pigment)
جگر اور پتے کی بہت سی بیماریوں میں جگر میں بننے والی رطوبت پت دوبارہ خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ جس کو گردے چھان کر پیشاب کے ذریعے خارج کردیتے ہیں ۔ اس حالت میں پیشاب کا امتحان جگر یا پتے کی بیماری کی تشخیص میں مدد دیتا ہے۔ بائل پگمنٹ کا پیشاب میں آنا یرقان(Joundice) کی علامت ہے۔
پیشاب کا خوردبینی معائنہ
پیشاب کی تلچھٹ یا گاد(Sediment)کا خورد بین سے معائنہ بہت سی بیماریوں کی تشخیص میں مدد دیتا ہے ۔ چنانچہ ورم حوض گردہ یعنی پائی لائی ٹس(Pyelitis) اور ورم مثانہ یعنی سسٹائی ٹس(Cystitis) میں پیشاب میں پیپ آتی ہے ۔ ورم گردہ یعنی نیفرائی ٹس میں پیشاب کے ساتھ خون یا خون کے سرخ خلیے(RBC) آتے ہیں۔ گردے یا مثانے کی پتھری میں بھی پیشاب کے ساتھ خون آجاتا ہے۔ اگر پیشاب میں ایپی تھیلیل کاسٹ(Epithelial Casts)آتے ہوں تو ورم گردہ کی نشان دہی ہوتی ہے ۔ ہڈیوں کی بعض بیماریوں میں پیشاب میں کیلشیم کے نمکیات آنے لگتے ہیں جو خورد بین سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ آلات بول کے سرطان میں خاص قسم کے خلئے پیشاب میں خوردبینی معائنے سے نظر آتے ہیں۔
متفرق معائنے
جنسی غدود اور کلاہ گردہ وغیرہ سے نکلنے والے ہارمونز (Hormones)کے استعمال کے بعد بننے والے فضلات بھی پیشاب میں ملتے ہیں جن کی مقدار متعلقہ غدود کی کارکردگی کی غمازی کرتی ہے ۔ عورتوں میں حمل کی تشخیص بھی اس بنیاد پر کی جاتی ہے ، کیونکہ حاملہ عورتوں کے پیشاب میں نسوانی جنسی ہارمونز کا اخراج بڑھ جاتا ہے۔
حمل کے دوران عورت کے گردوں کی ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے کیونکہ انہیں پیٹ میں موجود بچے کے بھی فضلات کو چھاننا پڑتا ہے۔ اس لئے حمل کے دوران پیشاب کا ایک یا دو مرتبہ امتحان ضرور کرانا چاہیے تاکہ اگر کوئی غیر معمولی تبدیلی واقع ہو تو معالج اس کا سدباب کرسکے۔
پیشاب کا امتحان منشیات کے عادی افراد کا پتہ لگانے میں مدد دیتا ہے ۔ کیونکہ استعمال کی جانے والی نشہ آور دوا پیشاب کے ذریعے خارج ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے پیشاب کے معائنے سے صنعتی زہریلے مادوں مثلاً سکہ، سینکھیا وغیرہ کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
پیشاب کے معائنے کے لئے ضروری ہدایات
پیشاب کے نمونوں کا فوری طور پر معائنہ کرنا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ کلینیکل لیبارٹری میں ہی نمو نہ لیا جائے اورپیشاب کو صاف ستھری اور جراثیم سے پاک شیشے کی بوتل میں اکٹھا کیا جائے۔ اگر معائنہ زیادہ دیر سے کیا جائے تو ممکن ہے کہ وہ معائنے کے لئے ناکارہ ہو جائے۔ گرمی کے موسم میں خصوصاً بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ پیشاب میں چونکہ مختلف اشیاء کی مقدار دن میں گھٹتی ہے اس لئے پیشاب اکٹھا کرنے کا وقت بھی معالج متعین کرتا ہے۔ اس طرح معالج اکثر ہدایات دیتا ہے کہ نمونہ ناشتے سے پہلے یا بعد میں لینا ہے ۔ کیونکہ کھانے کے بعد شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ پانی پی لینا بھی پیشاب کے معائنے کو بے کار بنا دیتا ہے۔اس لئے اس بارے میں معالج کی دی ہوئی ہدایات کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے تاکہ مرض کی صحیح تشخیص ہوسکے۔ آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمیں معائنہ پیشاب کو جادو کی چھڑی نہ سمجھنا چاہیے کہ بس اسی پر اکتفا کر لیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معالج کی ہدایات کے مطابق دوسرے تجویز کردہ معائنے بھی کروانے چاہیئے۔ بسا اوقات یہ معائنہ دیگر معائنوں اور مریض کی بیماریوںکے کوائف کے بغیر لا حاصل ہو تاہے۔
ڈاکٹر محمد شعیب اختر
٭…٭…٭