
ابو بکر محمد بن زکریا رازی اپنے دور میں دنیا کا سب سے بڑا طبیب اور فلسفی تھا۔وہ853عیسوی میں ایران کے شہر رے میں پیدا ہوا۔ اس نے حنین ابن اسحاق کے ایک شاگرد سے طب، ریاضی، ہیئت، کیمیا، اور فلسفہ پڑھا۔ پھر اپنے وقت کے مشہور طبیب طبری سے بغداد کی جامعہ طبیہ میں تعلیم حاصل کی۔
رازی نے بہت کم عمری میں طب میں ایسی مہارت حاصل کرلی کہ دور دور سے مریض اس کے پاس علاج کے لئے آنے لگے۔ اپنے علم اور مہارت ہی کی وجہ سے اسے رے کے شاہی اسپتال کا انچارج مقرر کردیا گیا ، لیکن وہ کچھ ہی عرصے بعد بغداد آگیا، جہاں اس نے ایک نیا ہسپتال قائم کرنے میں خلیفہ المقتدر کی مدد کی۔ وہ ایک عرصے تک اس اسپتال کا ناظم رہا۔
اس وقت کے طبیب روایتی طریقوں سے ہی علاج کرتے تھے لیکن رازی نے مرض کی تشخیص اور علاج میں غیرروایتی طریقے بھی اختیار کئے۔ وہ لوگوں کا علاج کرنے میں ان کی نفسیات کا بھی خاص خیال رکھتا تھا اور مرض کے علاج میں صحیح غذا اور اس کے کھانے میں باقاعدگی کو خاص اہمیت دیتا تھا۔ وہ اکثر اپنی دوائوں کو پہلے جانوروں پر آزماتا تھا اور ان پر ان دوائوں کے اچھے اور برے اثرات کا غور سے مطالعہ کرتا تھا، پھر اپنے مریضوں کا علاج کرتا۔
رازی کو طب کے علاوہ جراحی میں بھی خاصا کمال حاصل تھا۔ مریض کو بے ہوش کرنے میں افیون کا استعمال پہلی دفعہ اسی نے کیااور زخم سینے کے لئے تانت کا استعمال اسی کی ایجاد ہے۔ اسی طرح اس نے آنکھوں اور جلد کی بیماریوں میں پارے کا مرہم اور دوسری دوائیں ایجا د کیں اور انسانی جسم بالخصوص آنکھ کی ساخت (Anatomy)کے علم میں بھی اضافہ کیا۔
چیچک اور خسرہ کو الگ الگ مرض قرار دینے والا رازی ہی تھا۔ اس نے اپنے تجربات کی روشنی میں ان امراض پر ایک کتاب لکھی اور ان کا بڑی حد تک مؤثر علاج بتایا۔ یہ اس موضوع پر پہلی کتاب تھی، جس نے طب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اب تک دنیا کی بہت سی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس کتاب میں اس نے بتایا کہ جب چیچک کے مرض کا حملہ ہوتا ہے توکیا علامات ہوتی ہیں۔ رازی کی سب سے اہم تصنیف ’’الحاوی الکبیر‘‘ ہے۔ یہ کتاب دراصل طب کا انسائیکلو پیڈیا ہے یا یوں کہیئے کہ طبی معلومات کا خزانہ ہے۔ دسویں صدی عیسوی کی ابتدا تک اسلامی طب کا سارا علم اس میں جمع کردیا گیا ہے۔یہ کتاب وہ پندرہ سال سے لکھ رہا تھا اور ابھی یہ ختم نہیں ہوئی تھی کہ رازی کا925 عیسوی میں انتقال ہوگیا۔ بعد میں اس کے شاگردوں نے اسے مکمل کیا۔ رازی کی ایک ڈائری بھی اب تک موجود ہے، جس میں اس نے اپنے مریضوں ، ان کے علاج اور ان کے اچھا ہو جانے کا پورا حال درج کیا ہے۔
اس زمانے میں طب کے طلباء اپنی تعلیم بقراط کی کتاب سے شروع کرتے تھے، پھر ابن اسحاق پر آتے تھے، اس کے بعد رازی کی کتاب ’’المنصوری‘‘ پڑھتے تھے اور آخر میں ابن سینا کی کتاب’’القانون‘‘ پر اپنی تعلیم مکمل کرتے تھے۔ جو طالب علم ان کتابوں پر عبور حاصل کرلیتا تھا ، وہ طب کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔بارہویں صدی عیسوی تک یہی کیفیت رہی۔
اس دور کے مسلمان طبیب طبی اور اخلاقی اصولوں کی بڑی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ طبیب کو یہ عہد کرنا ہوتا تھا کہ وہ کسی کو ایسی دوا نہیں دے گا جس سے وہ بیمار ہو جائے ، نہ وہ کسی کو زہر دے گا اور نہ اپنے مریض کی بیماری کا حال کسی دوسرے کو بتائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ فن اور پیشے دونوں کے اعتبار سے مسلمان طبیبوں کا دنیا میں کوئی جواب نہیں تھا۔

حکیم محمد سعید شہید
٭…٭…٭