
صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جو حکمت و منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی اسی کا مظہر شاید یہ پوری کائنات ہے۔
ہمارے جسم میں ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کریں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے جو ہر وقت سرگرمِ عمل رہتی ہیں مگر ہماری قوتِ مدافعت اورہمارے جسم کے تمام نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں مثلاً ہمارا منہ روزانہ ایسے موادپیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر سکتے ہیں مگر ہم جب تیز چلتے ہیں، جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں،یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیموں کو مار دیتی ہیں اور یوں ہم بعض بیماریوں سے بچ جاتے ہیں ۔
دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی ہوئی ہے، یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس کبھی ممکن نہ ہوتا۔
گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی، مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی ہے جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے۔
ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی نرم پسلیاں ہیں۔یہ ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں، مگر آج پتہ چلا کہ دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں۔یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے نہ اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں۔ سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور فالتو نرم پسلیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا یہ فالتو نرم پسلیاں اور نرخرے کی ساخت ایک جیسی ہے چنانچہ سرجنوں نے چھوٹی نرم پسلیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے۔
ہمارا جگر جسم کا واحد ایسا عضو ہے جو کٹنے کے بعد بھی دوبارہ اپنے آپ کو مکمل کرلیتاہے۔ ہماری انگلی کٹ جائے، بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا، جب کہ جگر پورے جسم کا وہ واحد عضو ہے جو کٹنے کے باوجود بھی دوبارہ اگ جاتا ہے۔ سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضوِ رئیس ہے، اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اسی اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے۔ اس طرح آپ دوسروں کو جگر عطیہ بھی کر سکتے ہیں۔
صحت دنیا کی چند ایسی بڑی نعمتوں میں شمار ہوتی ہے جو جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدرو منزلت کا احساس نہیں ہوتا مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے ہمیں فوراً اس کے زوال کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ تو ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیںزیادہ قیمتی تھی۔
ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پائوں کی انگلیوں تک صحت کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہوگا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے۔
ہماری پلکوںکے چندعضلات جو ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں جب کبھی یہ جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا۔دنیا میں ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔دنیا کے 50امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں۔
ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر ایک مائع ہوتا ہے۔جو پارے کی طرح کا ہے۔ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیںیہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم جسم کے توازن اور سمت کا تعین نہیں کر سکتے۔ ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں۔ دنیا کے سینکڑوں، ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لیے کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں۔
لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں۔ آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے۔ دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔آپ کی ایڑی میں درد ہو تو انسان اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمردرد میں مبتلا ہیں۔گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے۔
انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفا نہیں ملے گی۔ منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہماری صحت ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے، مگر ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے رہتے ہیں۔ہم اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں، جو چاہتے ہیں وہی کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم بھی ہو جاتا ہے۔ ہم سیدھا چل سکتے ہیں،دوڑ لگا سکتے ہیں، جھک سکتے ہیں، ہمارا دل، دماغ، جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ ہم آنکھوں سے دیکھ، کانوں سے سن، ہاتھوں سے چھو، ناک سے سونگھ اور منہ سے چکھ سکتے ہیں،تو پھر ہم سب اللہ تعالی کے فضل اور اس کے کرم کے قرض دار ہیں ۔ ہمیں اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے،کیونکہ صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی اسے واپس نہیں لے سکتے۔ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
ڈاکٹر خالد جاوید
٭…٭…٭