
آج کل مطبوں میں ہر دوسرا مریض ، سر درد، ناک میں خارش اور اس سے پانی بہنا ، سانس میں رکاوٹ، ذرا سا چلنے سے سانس کا پھول جانا، جسم میں دردیں، بدن پر خارش اور جلد پر دانے کی علامات کے ساتھ آرہے ہیں۔ اکثر مریض کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب پچھلے ہفتے سے ضدحیات(Anti Biotic)ادویات بھی لی ہیں،حساسیت دور کرنے والی بھی استعمال کی ہیں۔ مگر کوئی دوا کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
سر درد اورآنکھوں میںسخت جلن کی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ جلد پر سرخ دانے نمودار ہوجاتے ہیں،یہ سب شاخسانہ ہیں آج کل زیادہ تر پنجاب کے شہری علاقوں میں چھائی ہوئی ہے اسموگ کے ( جو دھند کی ایک جدید شکل ہے)۔ جونہی خشک سردی آئی ہے۔ اسموگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شہروں کی فضائوں میں سانس لینا دو بھر ہوتا جا رہاہے۔اسموگ کیا ہے،کیوں اورکیسے ہوتی ہے؟اس کے صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور ان سے کیسے بچاجا سکتاہے؟۔
اس مضمون میں عوام الناس کی راہنمائی کے لیے ان سارے سوالوں کا جواب دیا جا رہاہے۔ جونہی ٹمپریچر میں کمی ہوتی ہے تو آلودہ اور گرم ہوا اوپر جانے کی بجائے فضا میں معلق ہو جاتی ہے۔ اور اس میں دھواں ، بھوسے اور کوڑا کرکٹ جلنے سے پیدا ہونے والے ذرات، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں سے پیدا ہونے والی گیسیں اور ذرات فضا میںمعلق ہو جاتے ہیں جس سے فضا نیچے سے اوپر تک آلودہ نظر آتی ہے۔ صبح سویرے تو حد نگاہ تک فضا آلودہ اور اس میں ذرات معلق نظر آتے ہیں۔ ہوا میں مضر صحت گیس نائٹریٹ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ہوتے ہیں۔ اکتوبر کے آخر اور نومبر کے شروع میں اسموگ شروع ہو جاتی ہے تو اس کے باعث فضا آلودہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بھی نہایت خطرناک ہو جاتی ہے۔ اس آلودہ فضا میں سانس لینا تک دو بھر ہو جاتا ہے۔ پچھلے چار پانچ سال سے اسموگ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے اسموگ کا کبھی نام نہیں سنا ۔2016 میں اسموگ سے پاکستان اور ہندوستان کے بڑے شہر متاثر ہوئے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق راولپنڈی ،کراچی اور پشاور دنیا کے 30 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ پچھلے سال سموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوئی بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں۔ اس سال ہندوستان کے کئی شہروں میں بھی اسموگ شروع ہو گئی ہیں۔ دہلی میں انتظامیہ نے اس کا ایک حل یہ نکالا ہے کہ گاڑیوں کے چلنے کے لیے اوقات مختص کر دیئے ہیں۔یعنی گاڑیوں کے نمبروں کے ساتھ سڑکوں پر آنے کے اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔
سبز شملہ مرچ کاہلکا سا ترش و شیریں ذائقہ اس میں موجود اسٹارچ(Starch) اور فرکٹوز(Fructose) (جو سادہ شکر میں تبدیل ہو جاتا ہے )کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شملہ مرچ کو پکا کر اور خام، دونوں صورتوں میں کھایا جاسکتا ہے۔ اسے پکاکر پیزا، سوپ ، چکن فرائیڈ رائس، شاسلک اور سالن کی شکل میں ، جبکہ کچا سلاد کی شکل میں کھایا جاتا ہے ۔ ذیل میں شملہ مرچ میں موجود صحت بخش اجزاء اور اس کے فوائد کا ذکر کیا جارہا ہے۔
اسموگ سے پیدا شدہ بیماریوںکی علامات
مضر صحت ذرات اور گیسوں کی وجہ سے سانس لینا دو بھر ہو جاتاہے۔ جن لوگوں کو پہلے سے دمہ کی تکلیف ہوتی ہے۔ ان کی بیماری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔سینے کے انفیکشن کا بھی خطرہ ہو جاتا ہے۔ آلودہ فضا میں سانس لینے سے طبیعت مضمحل رہتی ہے۔ ہر وقت سر میں درد اور آنکھوں میںسخت جلن ہوتی ہے۔ آنکھوں اور ناک سے پانی جاری رہتا ہے۔ جسم پر سرخ دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔ جب مریض ان تکالیف کا ذکر کرتے ہیں تو ڈاکٹر مختلف قسم کی دوائیاں بشمول ضد حیات تجویز کرتے ہیں لیکن یہ دوائیں کچھ کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اسموگ کے ساتھ ساتھ جونہی سردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں بڑوں اور بوڑھوں میں صدری تعدیہ اور نمونیہ جیسے خطر ناک امراض کا سامنا ہو سکتا ہے۔اسموگ والی آلودہ فضا میں سانس لینے سے اس کے مضر اثرات آلودہ فضائی ذرات اور سانس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کے جراثیم وغیرہ جسم کے اندر جا کر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ آلودہ فضا میں سانس لینا کئی سگریٹیں پھونکنے کے برابر ہے کیونکہ دونوں کے مضر اثرات تقریبا ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ فیکٹریوں کی بھر مار اور ان سے نکلنے والے دھوئیں کی وجہ سے سموگ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شہروں میں درختوں کی کٹائی اور مضافات میں جنگلوں کے خاتمے کی وجہ سے بھی اسموگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حاملہ عورتوں کو اسموگ کے دنوں میں گھر سے باہر نکلنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بچے کی وقت سے پہلے پیدائش کے ساتھ ساتھ نومولود کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اسموگ اور سردی میں مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کے خطرات اور بد اثرات سے بچاجا سکتاہے۔
اسموگ میں احتیاطیں اور ابتدائی علاج
٭…اسموگ کے دوران اگر دیکھنے کی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہو تو اس دوران ڈرائیونگ سے اجتناب کیا جائے۔
٭…گاڑیوں میں اسپیشل اسموگ لائیٹس کا لگانا ضروری ہے۔
٭…اسموگ کے دنوں میں منہ اور ناک پرماسک کا استعمال آلودگی سے بچاتا ہے۔ آنکھوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کالے شیشے کی عینک استعمال کریں۔
٭…صبح سویرے گرم پانی میں ایک چمچ شہد ڈال کر چائے کی طرح چسکیاں لے کر پئیں۔
٭…جب بھی باہر سے آئیں تو آنکھوں اور چہرے کوتازہ پانی سے دھوئیں۔
٭…اسمو گ کے دنوں میں گڑکی چائے ضرور لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صبح سویرے زیتون کے تیل کا ایک چمچ لے لیں تو اس سے آپ کا نظام تنفس آلودگی سے بچا رہے گا۔ اسموگ کی وجہ سے ہونے والی علامات میں مختلف قسم کی اینٹی بائیوٹک دوائوں کے بے جا استعمال کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ادویات کے بے جا اور غیر ضروری استعمال سے بچیں۔
٭…صبح شام لیمن گراس قہوہ استعمال کریں۔
٭…سردیوں میں اسموگ کے اثرات کم کرنے کے لیے ڈرائی فروٹ استعمال کریں۔ گرما گرم چائے کے ساتھ میوے والا گڑ یا گرما گرم سوجی کا حلوہ بھی صحت کے لیے مفید ہے۔
٭…اسموگ کے دوران اور سردیوں میں خاص طور پر چھوٹے بچوں کو اچھی طرح لپیٹ کر رکھیں کیونکہ سردی کے اثرات بچوں پر زیادہ ہوتے ہیں۔
حکومت کیا کرے؟
حکومت نے2017 ء میں ایک اسموگ کمیشن بنایا تھا جس نے اینٹوں کے بھٹوں، فیکٹریوں اور گاڑیوں کے لیے 17 سفارشات پیش کی تھیں۔ ان تمام سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تا کہ اسموگ کے خطرات سے مناسب حد تک بچا جا سکے۔ فیکٹریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان سفارشات پر عمل کریں۔ اینٹوں کے بھٹوں کو بھی دو ماہ کے لیے بند رکھا جانا چاہیے۔اسموگ کے خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ زیادہ درخت لگانے سے فضا میں آلودگی کم ہو گی اور اسموگ میں بھی کمی ہوگی۔
عوام الناس کی راہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونکس میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اسموگ کے خطرات سے بچائو کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے اور جابجا کوڑااور فصلوں کا بھوسہ جلانے پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ
٭…٭…٭