ضیق النفس رئوی

تعریف مرض

سوئِ مزاج بلغمی جب اعضائِ تنفس میں لاحق ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں عارض ہونے والا فسادِ بلغم قصبۃ الریہ کو بھی یابس و بارد ( خشک وسرد ) کردیتا ہے جس سے ان میں انقباض پیدا ہو کر مرض ربو یا دمہ یا ضیق النفس ریوی لاحق ہو جاتا ہے۔ اس مرض کو انگریزی میں Asthmaکہا جاتا ہے ۔جب یہ مزمن (Chronic) ہوتو باری یا دورہ کی شکل میں بھی آتا ہے ۔ تب اسے نوبتی دمہ (Asthma Attack) کہتے ہیں ۔اس مرض میں کیفیت مرض یوں ہو جاتی ہے کہ سانس لینے کے عمل میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں کی تھیلیوں (قصباۃ /Bronchi) میں تنگی (ضیق/ Lungs Block) یا Bungedupیا Congestedہو جاتی ہے اوروہ اس عمل کو مکمل نہیں کر پاتے (Shortness of breathing/Sob) کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک قسم کا تنفسی مرض (Respiratory Disorder)ہے جس کا اطلاق تین حالتوں پر ہوتا ہے ۔

(1) زود حسی ضیق النفس (Allergic Asthma)

(2) بلغمی ضیق النفس (Non- Allergic Asthma)

(3) سعال دیکی ضیق النفس(Cough Variant Asthma)

یہ تینوں حالتیں ، سانس میں دقت اور پھیپھڑوں یا متعلقہ نالیوں کی تنگی کی بناپر ضیق النفس یعنی تنگی ٔ تنفس یا دمہ ہی کہلاتی ہیں۔

اسباب

اس کا بنیادی سبب غیر طبعی بلغم ہے جو سوئِ مزاج کی بناپر زیادہ سرد اور خشک ہو جاتا ہے ۔اس کے سوئِ مزاج کے محرکات کو ہم پانچ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں جو درحقیقت اس کے بیرونی اور اندرونی محرکات یا اسباب کہلاتے ہیں ۔ گردو غبار کی کثرت(Dust Mites) اور زیرہ ہائے گل(Pollen) ، پالتو جانوروں کی جلدی سکری(Pet Dander) یا کاکروچ کے بعض فضلات کا ہوا میں اڑنا وغیرہ۔ یہ سب وہ اسباب ہیں جو بلغم کے مزاج کو یابس کردیتے ہیں ۔ جبکہ بعض اسباب اس کی طبعی برودت کو مزید بڑھا دیتے ہیں ۔ جیسے ناقابل برداشت سرد ہوا، پانی، موسم اور بعض سرد ماحول کی سرد سرگرمیاں جیسے سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں تیراکی وغیرہ اسی طرح ایسی خورونوش عادات جو بلغم کو طبعاً مزید بارد اور یابس کردیتی ہیں۔ جیسے عادی تمباکو نوشی، خشک و سرد خوشبو/ بدبو والی اشیاء کا استعمال جیسے بعض عطر اور پرفیوم وغیرہ ،گھر میں قالینوں سے اٹھنے والے ذرات ، کیمیاوی اشیاء سازی کی فیکٹریاں ، ایسے تکیے جن میں روئی کے علاوہ بعض اشیاء بھری جاتی ہیں۔ ایسے بستر جو بعض کیمیاوی دھاگوں سے بنائے جاتے ہیں یا بعض اوقات غیر مناسب اون سے بنے ہوئے کمبل اور بستر وغیرہ ، نم دار جگہیں جہاں پانی بکثرت سرایت کرگیا ہو یا ہوا جس میں نمی کا تناسب نسبتاًزیادہ ہوگیا ہو ۔

یہ تمام قسم کے اسباب درحقیقت مقامی بلغمی مواد کو کہ جس کا کام تنفسی اعضاء کو محفوظ رکھنا ہے اسی بلغم کے مزاج کو بگاڑکر رکھ دیتے ہیں تو وہ مدافعانہ خصوصیت سے عاری ہوجاتی ہے۔

سو مزاج بلغمی کے نتیجے میں یہ مرض بالواسطہ بھی ہوسکتا ہے اور بلاواسطہ بھی۔ بالواسطہ کی مثال مزمن نمونیہ ہے جو کبھی بچپن کی بے احتیاطیوں کا بنا پر ہوجاتا ہے یا بعض دیگر امراض جیسے تدرن(T.B) انفلوئنزہ، کالی کھانسی، بعض تنفسی وبائی امراض جیسے کووڈ،سارس، اور کورونا وغیرہ رہ چکے ہوں تو ان سے قصباۃ و قنواۃ ریہ میں عضوی انقباضات اور خشونت( تنگی اورکھردراپن ) پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح یہ تمام امراض مل کر اعضائے تنفس کو متاثر کرتے ہیں۔

اعضائے تنفس کی کچھ اپنی بیماریاں بھی اس کا سبب بنتی ہیں جیسے ضعف اعصاب ریہ پھیپھڑوں میں کسی سادہ یا سرطانی رسولی (Mass)کا بننا،ان میں پانی جمع ہونا،(Pulmonary Cpfusion) یا پھیپھڑوں کی جھلی کا ورم (Chronic Bronchitis)پھیپھڑوں کا چھوٹا ہوجانا،(Pulmonary Fibrosis) یا پھیل جانا(Pulmonary Edema)یا زخمی ہو جانا(P-Infection) وغیرہ۔

اسی طرح بعض متعلقہ اعضاء کی مشارکت مثلاً دل ، لمفاوی نالیوں اور حجاب عاجز کے امراض وغیرہ اسی طرح سوزشی امراض جو جراثیمی یا وائرس یا فنگس سے پیدا شدہ ، سوزش اعضائے تنفس میں لاحق ہوتے ہیں۔

علامات

ہر مرض کی علامات کا انحصار اسباب اور زمانہ مرض کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ، جیسے جیسے سبب تبدیل ہوتا جاتا ہے اور جوں جوں مرض کی زمانی نوعیت ابتداء ،تزائد ، انتہا اور انحطاط کی طرف بڑھتی جاتی ہے اسی طرح علامات بھی بدلتی جاتی ہیں تاہم کچھ علامات تمام صورتوں میں مشترک ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

(1)کھانسی

مسلسل اور لگا تار بھی ہوتی ہے اور اس کا تعلق مختلف حالتوں اور مختلف اوقات سے بھی ہوتا ہے مثلاً صبح کے وقت اور رات سوتے وقت یہ زیادہ ہوجاتی ہے اور دن بھر قدرے کم بولتے،ہنستے، چھینکتے، اچانک یا زیادہ حرکت کرتے وقت اور حرکت کے بعد یہ بڑھ جاتی ہے۔

(2) سینہ سے سانس کی آواز کا آنا

قریب بیٹھے ہوئے انسان کو بھی بعض اوقات مریض کی سانس لینے اور چھوڑنے کی آواز آرہی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ وہ جب بھی سانس کھینچ رہا ہوتا ہے تو ہوا ایک تنگ راستہ سے گزرتی ہے یہ راستہ کہیں سے تنگ اور کہیں سے نارمل ہونے کے باعث سانس لیتے ہوئے آواز پیدا کرتا ہے ۔

(3) سینہ میں اکڑاؤ

سختی اور تشنجی کیفیت پیدا ہونا ۔ اس کا سبب عروق خشنہ میں سے رخویت ختم ہو جاتی ہے تو وہ سخت ہو کر اکڑ جاتے ہیں ۔ اس لئے مریض شدید تقاضا کرتا ہے کہ سینے پر تیل ملا جائے یا کسی دوا سے یا مشروب سے اِ س کی سختی کو کم کیا جائے چنانچہ مشروبات، لعوقات اور خمیرہ جات کی طلب بڑھ جاتی ہے۔

(4) سانس میں دقت

عموماً مریض کو سانس کی نالی کے تنگ ہونے کی بنا پر کھلی سانس نہیں آتی اور اس میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اسے پورا کرنے کے لئے وہ سانس گہری لینے کی کوشش کرتا ہے تو کھانسی آجاتی اور ایک نئی مصیبت بن جاتی ہے ۔ چنانچہ ادھوری ادھوری سانسیں بار بار آکر مریض ہانپنا شروع ہو جاتا ہے۔

(5) ردی بلغم میں اضافہ

مریضوں میں بلغم صالح کا پیدا ہونا اس کا طبعی علاج ہے اور یہ شفائی تدبیر ہے مگر پھیپھڑوں میں ورم کی موجودگی کے باعث بلغم گرم ہو کرردی ہو جاتی ہے اور مختلف النوع مزاج کے حامل افراد کی وجہ سے وہ فساد زدہ ، غیر طبعی اور بعض اوقات سمی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

(6) شدید تھکن کا احساس

مریض میں تھکن پیدا ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جن میں ایک آکسیجن(نسیم) کی کمی بہت نمایاں سبب ہے تاہم بار بار کھانسی، بلغم کے اخراج کا عمل ، چھینکیں، سردرد اور التہاب یہ سب علامات پورے جسم کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں ۔ آنتیں،معدہ ، جگر، پھیپھڑے اور عضلات بدن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں تو مریض تھکن سے بد حال ہو جاتا ہے۔

(7) حمیٰ بلغمیہ (Hayfever)

اگرچہ یہ تمام افراد میں نہیں ہوتا تاہم زمانہ انتہائے مرض اور کبھی کبھی ترائد کے زمانہ میں حسب بالا علامات کے باعث بخار لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

(8) انحطاط عضلاتی وا عصابی

یہ بھی زمانہ تزائد مرض کے دوران دیکھنے میں آتا ہے کہ مریض کی زبان ، ہونٹ اور ناخن نیلگوں رنگ کے، آنکھیں بے نور اور شدید بے چینی میں علامات نمودار ہوجاتی ہیں جو کہ آکسیجن کی شدید کمی کی علامات ہیں۔ اس حالات میں اوکسی میٹر پر آکسیجن چیک کرنے کی ضرورت ہوگی۔

(9) خشونت حلق و انف

اس تنگی کے باعث حلق اور ناک خشک ہو جائیں گے اس لئے کہ آکسیجن کم ہورہی ہے اور یہ بھی زمانہ تزائد اور انتہا میں دیکھی جانے والی علامت ہے۔

کتنے بیماروں کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا ہوتا تو وہ بچ جاتے ہیں۔ طبیب اور خبر گیری کرنے والے مر جاتے ہیں۔

(10) تعریق مفرط

مریض کو انتہائے مرض اور بعض اوقات انحطاط ردی میں اس قدر پسینہ آتا ہے کہ وہ پسینہ میں بھیگ جاتا ہے۔ ویسے بھی ایسے مریض کو کتنی ہی سردی ہو اپنے آپ کو ہیٹر ، بند کمرے یا گرم ماحول میں رہنا برداشت نہیں ہوتا ،تاہم وہ عام ماحول میں بھی پسینہ سے شرابور ہو جاتا ہے جو کبھی کبھی گرم پسینے ہوتے ہیں اور کبھی سرد پسینے ہوتے ہیں۔

موت کا خوف اور وہم

کبھی کبھی انتہائے مرض میں مریض کو سانس کے زیادہ اکھڑ جانے سے موت کا خوف ، گھبراہٹ اور سانس نہ آنے کا ذہنی دبائو اتنا غالب آتاہے کہ وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے ،ہڑپتا اور ہانپتا ہوا کانپنے بھی لگ جاتا ہے۔

سانس کا رک جانا

یہ بہت آخری درجہ کی ردی علامات میں سے پہلی علامت ہے جس میں اوکسی میٹر پر آکسیجن 40سے نیچے آجاتی ہے اور مریض تڑپنا شروع ہو جاتا ہے اور جلدی سے آکسیجن اگر دستیاب نہ ہوسکے یا مصنوعی مشینی سانس بذریعہ وینٹی لیٹر(Ventilator) نہ بحال کی جائے تو اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

علامات بمطابق ازمنہ و شدت

علامات کا تعلق ہمیشہ زمانہ مرض کے ساتھ ابتداء، تزائد ، انتہا اور انحطاط میں علامات ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں ۔ آئیں اس کا جائزہ ایک ترتیب سے لیتے ہیں۔

زمانہ ابتداء

تعداد دورہ: ہفتہ میں دو بار۔

اوقات: رات کو کبھی کبھی شدت۔

دورانیہ : صرف چند منٹ۔

زمانۂ تزائد

تعداد: تقریباً ہفتہ میں تین بار ۔

اوقات : کبھی کبھار صبح اور رات کے وقت شدت کی کھانسی اور دورہ کی کثرت انہی اوقات میں ۔

دورانیہ : گاہے بہ گاہے ایک گھنٹہ مگر زیادہ تر 15تا20منٹ کے لئے۔

زمانہ انتہا

تعداد دورہ: روزانہ دورہ۔

اوقات: اکثر روزانہ صبح اور شام کے اوقات میں شدت کی کھانسی اور شدت کی سانس میں دقت ۔

دورانیہ: بعض اوقات 1گھنٹہ سے بھی زیادہ اور دن میں چار پانچ بار۔

زمانہ انحطاط ردی

اوقات: سانس باربار اکھڑ جاتا ہے اور بار بار پسینہ آتا ہے اور جسم اکڑ جاتا ہے اور قے آنے پر جان چھوٹتی ہے۔یا کوئی حادثہ ہو جاتا ہو۔

دورانیہ: دن میں کئی بار اور ہر بار دورانیہ لمبا ہوتا ہے جو کئی دنوں تک بھی رہ سکتے ہیں۔

زمانہ انحطاط صحی

بخار ہو جاتا ہے اور علاج معالجہ کرنے کے نتیجے میں افاقہ ہو کر مریض کیفیت حاد سے مزمن کی طرف چلا جاتا ہے جس سے دورہ(Attack)ختم ہو جاتا ہے اور مریض بچ جاتا ہے مگر مرض کا خطرہ باقی رہتا ہے۔

تشخیص کا طریقہ

(1) مریض کا بیانیہ

عموماً ایسے مریض کو کبھی نہ کبھی الرجی رہی ہوتی ہے ۔مریض اوپر دی گئی علامات کو بیان کرتا ہے ۔

(2) بدنی امتحان

طبیب مریض کا معائنہ کرے گا ، اس کے سینے کی آوازوں کو اس کی پشت اور سینے سے بذریعہ اسٹیتھوسکوپ سنے گا۔ اس کے حلق کو دیکھے گا ، زبان اور ہونٹوں کی رنگت کا جائزہ لے گا۔ اس کا وزن کرے گا اور نبض کے تواتر اور مقدار کا جائزہ لے گا اور ان جائزوں سے اسے ضیق النفس شعبی کی تمام علامات ملیں گی تو اپنی تسلی کے بعد دیگر ذرائع اختیار کرے گا جن میں سے بعض کا ذکر کیا جارہا ہے۔

(3) سپائرو میٹر سے امتحان

اس سے مریض کے سانس اندر کھینچنے کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پھیپھڑوں میں طبعی طور پر کس قدر آکسیجن سما جانے کی گنجائش ہے اور کس قدر نکالنے کی۔

(4) پلس اوکسی میٹر

پلس اوکسی میٹر ایک آلہ ہے جو نسیم پیمائی کا کام کرتا ہے ۔ اس میں انگلی کی دباذت سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر آکسیجن خون میں موجود ہے۔

(5)پی اینڈ ایف میٹر(Peak Expirotary Flow Meter)

اس آلہ میں پھونک مار کر پتہ چلتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کس قدر پھیپھڑوں میں پھونکنے کی قوت موجود ہے۔

(6) سانس میں نائٹرک آکسائیڈ

ضیق النفس کے مریض کے سانس میں نائٹرک آکسائیڈ گیس زیادہ ہو جاتی ہے ۔ا س گیس کی مقدار کو ٹسٹ کرنے کے لئے بھی ایک آلہ استعمال ہوتا ہے جسے نائٹرک آکسائیڈٹسٹ میٹر کہتے ہیں۔

سینہ کے ایکسرے سے بڑی حد تک امتیازی علامات فارقہ کا پتہ چلتا ہے کہ کہیں ضیق النفس کی وجہ پھیپھڑوں کا کوئی اور مرض تو نہیں ہے۔

(7) ایکسرے

جو ایسے دجالوں کے پاس جاتا ہے ، وہ ان کے جرم میں شریک ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ان کے کسٹمرز میں اضافہ کرتا ہے اور ان کے گناہ کو ترویج دیتا ہے۔ ان کے چھپے اڈوں کے بارے میں متعلقہ حکومتی اداروں کو خبردار کرنا چاہیے۔ ان کی پردہ پوشی یا ان کے بارے میں خاموشی حرام ہے۔

(8) الرجی کا ٹسٹ

IgEایک خون کے ذریعے لیا جانے والا ٹسٹ ہے جو بالعموم مریض کی الرجی کی مقدار کا تعین کرتا ہے تو اس سے زمانۂ مرض کا بھی تعین ہو جاتا ہے اور سبب کا بھی۔

(9) امتحان تیزاب و ہوائے ریوی

خون کا یہ مخصوص ٹسٹ ہے جو اس لئے کیا جاتا ہے کہ شرائین کے خون میں موجود گیسوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے جس میں خون کیLHPکے علاوہ بعض گیسیں مثلاً آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کا تناسب دیکھا جاتا ہے۔

اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو، اسے یاد رکھو، اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔

(10)سی بی سی اور ای ایس آرکا دموی امتحان

ا س سے یہ علم ہوتا ہے کہ خون میں کون سے اجزاء کم یا زیادہ ہیں مثلاًایسائنو فل اور ایچ بی وغیرہ اور ساتھ ہی التہابی امور کے لئے ESR کی مقدار بھی دیکھی جاتی ہے۔

(11) بلغم کا امتحان اور کلچر

اس میں بلغم کا امتحان کیا جاتا ہے۔

…(جاری ہے)

حکیم منصور العزیز

٭…٭…٭

ضیق النفس رئوی
Tagged on:                                     

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *