
ضیق النفس کی کلی اقسام
اس مضمون میں کلیات کے حوالے سے ضیق النفس کی کلی اقسام کا ذکر ہے۔ اطباء کے ہاں امراض کی تقسیم کا کلی طریقہ تو یہ ہے کہ وہ ہر مرض کو تین طرح سے دیکھتے ہیں:
(1) امراض سوئِ مزاج(Dyscrasia) جس سے طبعی مزاج میں تبدیلی آکر عضو اپنے افعال سے عاجز ہو جائے ( خواہ یہ ’’سادہ‘‘ طور پر ہو یا ’’مادی طور پر )۔
(2) امراض ترکیب (Structural Disease) ایسے امراض جو اناٹومیکل فزیو پتھالوجی سے متعلق ہوتے ہیں۔
(3) امراض تفرق الاتصال جو اعضاء کی ہیئت کے ایسے طبعی اتصال سے متعلق امراض ہوتے ہیں کہ جس کے باعث اس عضو کے ربط باہم (Co-ordination) میں خلل آتا ہے۔
ان اقسام کے اعتبار سے مرض بیان کرنے کا استدلال اگرچہ قدیم طرز منطق و فلسفہ سے منسلک ہے مگر اس ترتیب و ترکیب سے امراض کا بیان کرنا، مرض کے اسباب، ماہیت اور نوعیت کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ طریقہ نسبتاً زیادہ قابل فہم ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم ذیل میں ضیق النفس کے سوئِ مزاج سے متعلق بحث کو مزاجی سوئِ تنفس امراض سوئِ ترکیب کی بحث کو ترکیبی سوئِ تنفس اور امراض تفرق الاتصال، اتصالی سوئِ تنفس لکھیں گے۔
مزاجی سوء تنفس
سوئِ تنفس جسے ضیق النفس بھی کہتے ہیں درحقیقت سانس کی دقت کا مرض ہے ۔ اسے معالجات میں انگریزی اصطلاح کے اعتبار سے Dyspnoea بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس مرض میں سانس لینے Inspirationاور سانس نکالنے (Expiration) یعنی شہیق اور زفیر دونوں عمل متاثر ہونے کی بنا پر ہی سوئِ تنفس یعنی سانس کے آنے اور جانے کے عمل میں نقص (Respiratory Disorder) کہا جاتا ہے ۔ ہر مرکب مرض کی طرح اس مرض کی بھی یہی تینوں اقسام ہیں۔ چنانچہ اگر مریض کے تنفسی اعضاء مثلاً ناک، حلق، سانس کی نالی(قصبۃ الریہ Trachea/ wind pipe/) پھیپھڑے، (شش/ ریہLungs /) اور ان کی شاخ در شاخ پھیلی ہوئی قصبۃ الریہ (Bronchies) جزوی یا کلی اعتبار سے سادہ یا مادی طور پر کسی بیرونی یا اندرونی ، ماحولیاتی یا اخلاطی مزاج کے بگاڑ کے باعث ان میں طبعی کیفیت سے نسبتاً مقدار یا تعداد زیادہ یا کم ہو جائے تو ایسی دونوں صورتوں میں اسے سوئِ مزاج ہی کہتے ہیں۔ اس تبدیلی کا بالواسطہ یا بلاواسطہ سبب اکثر ابتدائے مرض میں مزاجی نوعیت ہی کا حامل ہوتا ہے۔ ماسوائے حادثات یا آفات کے مثلاً وبائیں اور زخم وغیرہ چنانچہ ایسے میں غیر طبعی وغیرفطری ماحولیاتی تبدیلیاں اس کے محرکات(Trigger) کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مثلاً مشمومات (سونگھنے والی اشیاء کے محرکات)، ہوائی تغیرات مثلاً دھواں، دھند، گردوغبار، آندھی و طوفان اور دھول وغیرہ اسی طرح غیر طبعی موسمی تغیرات مثلاً سرد و برفیلی ہوائیں ، گرم و لودار خشک ہوائیں، آبی بخارات کے تناسب کا ہوا میں بڑھ جانا اور سمندری ہوائیں وغیرہ علاوہ ازیں دیگر ہوائی تغیرات میں سے بالخصوص زیرہ ہائے گل (Pollen) پالتو جانوروں کی سکری(Potdander)، کاکروچ وغیرہ کے بعض فضلات وغیرہ۔ بعض کیمیکلز میں سانس لینا ، اسی طرح تیزابات میں آلود ہوا کی موجودگی۔ بعض حالات میں جسمانی ریاضت کی کثرت بعض قسم کی ادویات کا استعمال ، بعض حالات میں باورچی خانہ میں سالن بنانے کے دوران کی مشق اسی طرح جذباتیت اور غم و غصہ نیز ذہنی دبائو کی کیفیات کے علاوہ غذا کی نالی کے بعض تغیرات وغیرہ۔ یہ ایسے تمام محرکات (Trigger) ہیں جن کا تعلق مزاجی تغیرات سے ہے یہ تمام محرکات اولاً مریض کے مزاج کو سادہ طور پر تبدیل کرکے اعضاء تنفس کے حسی مراکز کو تحریک دے رہے ہیں۔ جس سے عمومی نزلہ، زکام، کھانسی ، خراش حلق یا ضیق النفس عارض ہو جاتا ہے جو بالعموم چند دن اور زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ تک عارض رہتا ہے ۔ ازاں بعد اگر اس میں کوئی اور جنس اجنبی جیسے وائرس ، جراثیم یا فنگس وغیرہ نہ شامل ہوں تو یہ بالعموم ختم ہو جاتا ہے ورنہ اس کی نوعیت ترکیبی سوء تنفس میں بدل جاتی ہے۔
ثانیاً یہ بلغمی خلط کو بھی متاثر کرتا ہے اور اس کے مزاج کو بھی بدل دیتا ہے۔ اور سوئِ مزاج مادی میں تبدیل ہو کر فسادِ بلغم کا باعث بنتا ہے۔ اس کے مظاہر ہمیں بالخصوص عظام الوجہ( چہرے کی ہڈیوں) میں موجود بلغم کے فساد کی شکل میں ملتے ہیں جسے ہم ورم تجاویف الانف (Post Nasal Sinusitis) بھی کہتے ہیں۔ تب اس کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے اور اس میں شدت آجاتی ہے۔ اس کا یہ بگاڑ سوء مزاج مادی مستحکم میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس کے مظاہر و علامات گاہے بہ گاہے اپنے محرکات کے ساتھ یا ان کے بغیر بھی جاری و ساری رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ اب ناک، حلق، پھیپھڑو ںاوران سے منسلک دیگر اعضاء کے ساتھ مستقل استقرار پکڑ کر مستحکم ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اسے سوئِ مزاج مستوی(Cachexia) کہتے ہیں۔ اب یہ اپنے طبعی مزاج کی طرف بمشکل لوٹتا ہے اور اس کی غیر طبعی کیفیات مستقل بالذات فرد کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں مریض کے حفرہ( تجویف الانف،جیب الجمجمہ) اور میزاب (Sinus) میں مستقل سوئِ مزاج مادی کے باعث ردی بلغم جمع رہتی ہے جو جوف انف کی پشت اور حلق میں نزول کرتی رہتی ہے، اسے نزلہ کہتے ہیں اور یہ نزلہ کبھی حلق سے پھیپھڑوں میں نازل ہو کر اس کے مزاج کو بھی بدل دیتا ہے۔ اکثر سردرد کنپٹیوں میں درد، پیشانی میں درداور دردِ شقیقہ عارض ہوا کرتا ہے۔مریض کا بلغم تھوکتے رہنا، کھنگارتے رہنا، بار بار حلق صاف کر نا اور ناک کے اندر خراش ، حلق میں خراش، ناک کے کسی ایک یا دونوں نتھنوں کا یکے بعد دیگرے بند ہونا یا کبھی ایک کا کھل جانا اور دوسرے کا بند رہنا وغیرہ جیسی علامات ایسی صورت میں عارض ہو جاتی ہیں ۔ یہ صورت احوال سوئِ مزاج مادی کے باعث مستحکم و مستوی نہ ہوسکے تو یہ عارضی اور وقتی کے ساتھ ساتھ قابل و اپسی(Reversible) بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ مختلف محرکات(Trigger) کے باعث چند دنوں کے لئے لاحق ہوتا ہے اور پھر رجعی طور پر معدوم ہو جاتا ہے جبکہ کبھی کبھی یہ دورے کے ساتھ بھی آتا ہے جو مخصوص اسباب کی بنا پر خاص حالات میں مخصوص مدت تک رہتا ہے اور پھر واپس طبعی حالت پر آجاتا ہے۔

ترکیبی سوئِ تنفس
ترکیبی اعتبار سے ایسے سوئِ تنفس کا تعلق اعضائے تنفس( جن کا تذکرہ تحریر بالا میں موجود ہے) کی ترکیبی خرابیوں سے ہوتا ہے جو کہ اپنی طبعی ساخت پر نہیں رہ پاتیں۔ ان کی مقدار ، تعداد ، خلقت ، وضع ، شکل، سطوح، مجاری اور تجاویف میں سے کسی ایک نوعیت کی خرابی کے باعث بھی وہ اپنی ہیئت تبدیل کرلیں تو ایسے میں وہ ترکیبی سوئِ مزاج کی جنس میں آجاتے ہیں۔ مثلاً ایسی صورت میں ناک میں اگر مسہ، باسور، یا پولیپس(Polypus) بن جانے سے ناک سے سانس کا آنا جانا تنگ ہو جاتا ہے اور اس کے اثرات بالعموم اعضائے تنفس کے علاوہ عمومی بدن پر بھی پڑتے ہیں۔ اور اس سے جو سوئے تنفس لاحق ہوتا ہے اگرچہ وہ عارضی اور جزوی ہوتا ہے اور جوں ہی مجاری کھل جاتے ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سانس کی نالی کی مجاری میں کبھی بہت سختی آجاتی ہے اور کبھی اسے بلغم کی کثرت بھی تنگ کردیتی ہے۔کھبی اسے مخصوص سمی ماکولات و مشروبات ، زہر خورانی، تمباکو نوشی اور بعض کیمیاوی و مسکن درد ادویہ کے کثرت استعمال سے ان کا اعصابی نظام اپنی طبعی ترکیب کھو دیتا ہے تو بعض اوقات پھیپھڑوں میں پیدا ہونے والی ردی و غیر ردی رسولیاں بھی اس کی ترکیب کو بدل کے رکھ دیتی ہیں۔ ان تمام ترکیبی خرابیوں سے پیدا شدہ سوئِ تنفس امراض ترکیب ہی کے مظاہر ہیں۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
ترکیبی سوئِ تنفس حاد بھی ہوسکتا ہے اور مزمن بھی مگر اس کے مزمن ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ ترکیبی اعتبار سے اعضاء کی ہیئت ترکیبی اور ساخت(Structural) تبدیلیوں سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے یہ کہیں اتصالی تفرق و تقرب کی اقسام میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس قسم میں تقرب الی الموضوع اعضائے تنفس کے اورام بھی ہیں جو تفرق الاتصال کا موضوع ہیں۔ لہٰذا سوئِ ترکیب اعضائے تنفس کی رعایت سے یہاں بھی ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس میں سانس کی نالیاں مثلاً قصبۃ الریہ(Trachea / Wind Pipe)، پھیپھڑے( شش / ریہ/ (Lungs اور عروق خشنہ(Bronchies) وغیرہ تمام متورم ہو کر سانس کی آمدورفت(Respiration) کومتاثر کر دیتی ہیں لہٰذا یہاں امراض تفرق الاتصال کو ترکیب کے ساتھ ہی ذکر کرنا پڑے گا۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ عروق کے آخری کناروں تک جہاں کہ نسیم(Oxigen) اور دخان(Carbondoxide) آپس میں تبدیل ہوتے ہیں وہاں تک جب آکسیجن نہیں پہنچ پائے گی تو سانس طبعی رفتار سے کم ہو جائے گا اور جیسے جیسے کاربن زیادہ ہوتا جائے مرض اور زیادہ بڑھتا جائے گا اور بدترین صورت حال بڑھتی چلی جائے گی اور Progressiveہوتا جائے گا اور ان اعضاء کی ترکیب میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آتی جائیں گی ۔ چھوٹے چھوٹے مجاری بند ہو کر سخت ہوتے جائیں گے ، سکڑتے جائیں گے اور دخان کی وجہ سے ان کی ہیئت تبدیل ہو کر مقدار کم اور غیر طبعی ہو جائے گی جس سے سانس کی آمدورفت محدود ہوتی جائے گی۔ اور اگر یہ کیفیت مزید بدترین ہو جائے تو یہ تحجر کی شکل اختیار کرکے بالکل غیر طبعی ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ اپنی اصل حالت کی طرف اس کا لوٹنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ Irreversible ہو جاتی ہے جسے ہم علاج سے مزید خراب ہونے سے بچا تو سکتے ہیں مگر اسے اپنی طبعی حالت کی طرف لوٹا نہیں سکتے،سوائے حجامہ کے عمل کے۔ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ یہ ایک مرکب مرض ہے مفرد نہیں اس لئے بھی کہ یہ کئی مفرد امراض سے مرکب ہوا ہے اور اس لئے بھی کہ یہ اعضائے مرکبہ کا مرض ہے۔ چنانچہ اس کے مرکب ہونے کے دلائل حسب ذیل ہیں:
ہمارے پھیپھڑوں کی طبعی ترکیب ایک درخت کی طرح شاخ در شاخ پھیلی ہوتی ہے ، جس میں قصبۃ الریہ کا دایاں اور بایاں شعبہ پھر ان کی شاخیںپھر ان کے شعیبات پھر ہوائی تھیلیاں پھر ہوائی نالیوں کا اختتامی شعیباتی سرا اور پھر عروق شعریہ یہ تمام وہ اعضاء ہیں جو متاثر ہوتے ہیں اور ان کی ترکیب میں تبدیلیاں ہو جاتی ہیں۔ اور یہ تبدیلیاں بھی مختلف النوع ہوتی ہیں۔ ہوائی تھیلیوں (Bronchi) اور ان کی لچک دار ساخت (Fibrous elastic) جن میں غیر ارادی عضلات متحرک ہو جاتے ہیں اور وہ ساکن ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی حرکت کی مقدار کم مگر تعداد بڑھ جاتی ہے ۔ ان کی نارمل تعداد جسے سینہ پر ہاتھ رکھ کر اسٹاپ واچ کے ذریعہ گنا جاسکتا ہے وہ فی منٹ 12سے16 تک ہوتی ہے مگر جب یہ 30کے قریب یا اس سے فی منٹ بڑھ جائے تو اس طرح تعداد کے بڑھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ لچکدار ساخت اپنی لچک کھو رہی ہے اور اس طرح اس کی سطح کی جو طبیعی ملائمت ہے وہ اب خشونت میں بدل رہی ہے۔ اور اس پر جو بلغمی جھلی (Epithelial Membrane)ہے اس کا بلغم بھی اب سوئِ مزاج مادی کے باعث ردی ہو چکا ہے اور اسے خارج کرنے میں مشکل پیش آنے کے باعث (کیونکہ لچک کم ہونے سے اخراج کار استہ تنگ ہو جاتا ہے) وہاں نسیم (آکسیجن) کا پہنچ پانا اور دخان( کاربن ڈائی آکسائیڈ) کا خارج کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ اس ترکیبی اعتبار سے یہ ایک مہلک صورت حال بھی اختیار کرسکتی ہے
ہم نے تفرق الاتصال کو سوئِ ترکیب میں اس لئے سمو دیا ہے کہ سوئِ مزاج ، سوئِ ترکیب اور تفرق الاتصال کسی بھی مرض میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ہر مرض کے مختلف زمانوں ، نوعیتوں اور کیفیتوں میں یہ باہم ساتھ ساتھ بھی ہوتے ہیں اور الگ بھی۔ امراض کی اقسام کے بیان کا یہ طرز استدلال پتھالوجی کی جدت طرازیوں کے باوجود مرض کا احاطہ پورے طور پر کرتا نظر آتا ہے۔ ہمیں طب یونانی کے طرز استدلال پر فخر کرنا چاہیے کہ یہ قابل فہم بھی زیادہ ہے اور سہل بھی اس لئے کہ یہ فطرت کا امین بھی ہے اور فطرت اپنے طور پر مکمل ہے۔
حکیم منصور العزیز
٭…٭…٭