
انسانی جسم کو اکثر مشین سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ اگر مشین کا کوئی ایک بھی پرزہ خراب ہو جائے تو مشین کام کرنا بند کردیتی ہے ۔ ان پرزوں کو چلائے رکھنے کے لئے انہیں بروقت آئل فراہم کیا جاتا ہے ۔ ٹھیک ایسے ہی انسانی جسم کو غذاکی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کو توانائی مل سکے اور تمام عضو بخوبی اپنا کام کرسکیں۔ جب کھانا ہضم کے مراحل میں ہوتا ہے تو جسم میں مختلف عوامل شروع ہوجاتے ہیں ۔ان میں سے ایک گلو کوز کا بننا بھی ہے جو کہ جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمارا ایک عضو لبلبہ ہے جو ایک مادہ خارج کرتا ہے جسے انسولین کہا جاتا ہے۔یہ گلو کوز کی مقدار کو کنٹرول میں رکھتا ہے ، ساتھ ہی ساتھ یہ ممکن بناتا ہے کہ ہمارے اعضاء خون سے گلو کوز حاصل کرسکیں، اگر ایسا نہ ہوتو پھر انسانی جسم میں شامل چربی ہی توانائی کا ذریعہ رہ جاتی ہے۔ اس طرح انسولین کا انسانی جسم کی نگہداشت اور قوت کے حصول میں انتہائی اہم کردار ہے۔
ذیابیطس میں بنیادی طور پر ہوتا یہ ہے کہ اگر لبلبہ صحیح کام نہ کررہا ہو تو ضروری مقدار میں انسولین خارج نہیں ہوتی ،یا پھر یہ ہوتا ہے کہ خلیات انسولین کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ دونوں صورتو ں میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خون میں گلو کوز کی مقدار توازن میں نہیں رہتی جس کے نتیجے میں تمام اعضاء پربرا اثر پڑتا ہے ۔ سب سے برااثر خون کی شریانوں پر ہوتا ہے جو سکڑنا اور تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
ذیابیطس کوئی نئی بیماری نہیں ہے بلکہ دنیا میں صدیوں سے موجود ہے۔ انڈیااور چین کی ہزاروں سال پرانی کتابوں میں ذیابیطس کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ ذیابیطس کا پرانا ترین کیس مصر میں ملتا ہے ۔1552ء میں مصری ڈاکٹر ہیسی را نے ایک مریض کا لکھا ہوا ریکارڈ چھوڑا جس میں مریض کو بار بار پیشاب آنے کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر کو یہ تو نہیں معلوم تھا کہ یہ کیا بیماری ہے لیکن انہوں نے مریض کو ایک خاص خوراک کھانے کا مشورہ دیا ۔ اس خوراک میں پھل ، اناج اور شہد شامل تھے۔ اس غذا سے مریض کو کچھ فائدہ تو ہوا لیکن اس کی بیماری دور نہیں ہوئی۔
سسرو تاجن کو انڈیا میں طب کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے ، نے 600ء میں ایک بیماری تشخیص کی جس کو بعد میں ذیابیطس کہا گیا ۔ قدیم ہندوستانی طبیب چرکا نے مدہو میہا یا شہد والا پیشاب آنے والی بیماری کا ذکر کیا ۔ اس زمانے میں طبیب چیونٹیاں یا کیڑے بھی ذیابیطس کی بیماری تشخیص کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ میٹھا پیشاب چیونٹیوں اور کیڑوں کو اپنی طرف راغب کرتا تھا اور اس طرح ذیابیطس کی تشخیص کی جاتی تھی۔ سسروتااور چرکا پہلے طبیب تھے جنہوں نے پہلی اور دوسری قسم کی ذیابیطس میں فرق پہچانا۔ انہوں نے اس بات کو نوٹ کیا کہ پہلی قسم کی ذیابیطس کے مریض کم عمر اور دبلے ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے مریض وزن میں زیادہ اور فربہ ہوتے تھے اور زیادہ عرصے تک زندہ رہتے تھے۔ 130ء میں یونانی طبیب جالینوس/ گیلن نے( جس کی پریکٹس روم میں تھی) اور ایریٹس (جس کا تعلق کیپاڈوچیا سے تھا) نے ذیابیطس کے بارے میں مزید تفصیل بیان کی۔ ایریٹس نے ذیابیطس کو ’’سائفن‘‘ یعنی بہائو میںتیزی سے تشبیہ دی کیونکہ ان مریضوں کو بار بار پیشاب آنے کی شکایت ہوتی ہے۔ 1425ء میں یونانی لفظ ذیابیطوس کو ذیابیطس پہلی مرتبہ انگلش میں لکھا گیا
1675ء میں انگریز ڈاکٹر تھامس ولسن نے اس میں لفظ’’ملائی ٹس‘‘ کا اضافہ کیا جس کا لاطینی میں لفظی مطلب شہد ہے۔1900ء میں جانوروں پر کی گئی ریسرچ سے معلوم ہوا کہ لبلبہ نکال دینے سے جانوورں کو ذیابیطس ہو گئی۔1910ء میں سرایڈ ورڈ البرٹ شارپی شیفر نے لبلبے سے بننے والے کیمیائی مادے کو انسولین کا نام دیا۔1921ء میں حیوانی انسولین ایجاد ہوئی ۔1922ء میں پہلے ذیابیطس کے مریض کا انسولین کے ٹیکے سے علاج کیا گیا ۔پرانے زمانے میں لوگ ذیابیطس کو گوشت گھلانے والی بیماری کے نام سے پکارتے تھے۔
دنیا بھر میں ذیابیطس سے بچائو کا عالمی دن 14نومبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ فریڈرک بیٹنگ کا یوم پیدائش بھی ہے جنہوں نے انسولین ایجاد کی۔ اس طرح اس دن اس عظیم ماہر طب کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے، مگر اس دن کا بنیادی مقصد ذیابیطس کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ دنیا بھر میں34کروڑ سے زائد افراد اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور جاں بحق ہونے والا ہر پانچواں فرد ذیابیطس میں مبتلا ہوتا ہے ۔ شوگر کی بیماری سے ہر آٹھ سیکنڈ میں ایک شخص کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے ہونے والی اسی فیصد اموات کا تعلق غریب اور درمیانے طبقہ سے ہے۔
پاکستان ان ممالک میںشامل ہے جہاں ذیابیطس کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر ہے۔
ذیابیطس جسے عرف عام میں شوگر کی بیماری کہا جاتا ہے ۔عموماً دو اقسام یعنی’’ٹائپ 1‘‘ اور ’’ٹائپ 2‘‘ میں بانٹی جاتی ہے۔ ٹائپ ون جس میں جسم میں انسولین قطعاً نہیں بنتی۔یہ بیماری کبھی بھی نمودار ہوسکتی ہے مگر عموماً بچپن سے ہی لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کا علاج مستقل انسولین لیتے رہنا ہے۔ ٹائپ ٹو قسم کی ذیابیطس میں انسولین کی موجو دگی کے باوجود خلیات اور ٹشوز میں انسولین کے استحالہ کے لئے کام کرنے والے کیمیائی اجزاء صحیح طریقے سے اپنا عمل سرانجام نہیں دے پاتے جس کے نتیجے میں وہ نظام جسے انسولین کے استحالہ کے لئے کام کرنا ہوتا ہے، وہ یہ اندازہ نہیں لگا پاتا کہ انسولین کی مقدار کتنی درکارہے جس کے نتیجے میں جسم کو گلوکوز کی صحیح مقدار حاصل نہیں ہو پاتی۔ اس نقص استحالہ کا نتیجہ گلوکوز کی زیادتی یا کمی دونوں صورتو ں میں نکل سکتا ہے۔ ذیابیطس کی یہی قسم زیادہ عام ہے۔
تاہم اب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے پانچ مختلف گروپ ہیں جن میں سے ہر ایک کے لئے الگ علاج ممکن ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے جس زیادہ پیچیدہ تصویر سے پردہ اٹھایا ہے وہ ذیابیطس کے مریضوں کے لئے ان کی بیماری کے لحاظ سے دوا کے انتخاب میں مدد دے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق مستقبل میں ذیابیطس کے مریضوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے انتہائی اہم ہے لیکن طریقہ علاج میں تبدیلی فوراً نہیں آئے گی۔ دنیا میں قریباً ہر 11واں بالغ فرد ذیابیطس سے متاثر ہے اور اسے دل کا دورہ پڑنے ، فالج ہونے، اس کی بصارت متاثر ہونے یا گردے ناکارہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
ٹائپ ون ذیابیطس نظام مدافعت کی بیماری ہے جو انسانی جسم کی انسولین تیار کرنے والے خلیات( بیٹا سیلز) پر حملہ کرتی ہے تاکہ جسم میں یہ ہارمون اتنی مقدار میں موجود نہ رہ سکیں کہ وہ خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کرسکیں۔
ٹائپ ٹو ذیابیطس کا تعلق عموماً طرز زندگی سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ اس میں جسم میں جمع شدہ چربی انسولین کے استحالہ کو متاثر کرتی ہے۔ سویڈن کی یونیورسٹی کے ذیابیطس مرکز اور فن لینڈ کے انسٹی ٹیوٹ آف مالیکیو لر میڈیسن کی مشترکہ تحقیق کے دوران14775مریضوں کے خون کے نمونوں کا مفصل جائزہ لیا گیا ۔ اس تحقیق کے نتائج طبی رسالے لینسٹ میں شائع ہوئے ہیں جن کے مطابق ان مریضوں کو درج ذیل پانچ گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
گروپ 1: شدید آٹو امیون ذیابیطس روایتی ٹائپ1جیسی ہے۔یہ مریض کو اس وقت نشانہ بناتی ہے جب وہ جوان ہوتا ہے اور بظاہر صحت مند بھی لیکن یہ بیماری اس کے جسم میں مدافعتی نظام کو نشانہ بنا کر انسولین پیدا نہیں ہونے دیتی۔
گروپ2: شدید انسولین کی کمی والی ذیابیطس کے مریض ابتدائی طور پر گروپ 1کے مریضوں جیسے ہی لگتے ہیں ، وہ جوان ہوتے ہیں، ان کا وزن مناسب ہوتا ہے لیکن جسم میں مدافعتی نظام ٹھیک ہونے کے باوجود انسولین پیدا نہیں ہوتی۔
گروپ3: اس قسم کی ذیابیطس کے مریضوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے اور ان کے جسم میں اگرچہ انسولین بن رہی ہوتی ہے لیکن وہ اثر نہیں کرتی۔
گروپ4: موٹاپے سے متعلقہ ذیابیطس کا شکار وہ افراد ہوتے ہیں جن کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن میٹا بولزم کے حوالے سے تیسرے گروپ کے قریب تر ہوتے ہیں۔
گروپ5: عمر سے متعلقہ ذیابیطس کے مریضوں میں بیماری کی علامات دیگر گروپوں کے مقابلے میں زیادہ عمر میں ظاہر ہوتی ہے اور ان کی بیماری بھی زیادہ شدید نہیں ہوتی۔
اپنے زندگی گزارنے کے طریقے میں تبدیلی لانے سے آپ ہر قسم کی ذیابیطس سے نجات پاسکتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کو سادہ طرز زندگی اختیار کرنا اوراپنا وزن کنٹرول میں رکھنا ضروری ہے ۔ سستی اور کاہلی سے بچیں۔ روزانہ ورزش کو معمول بنا ئیں۔ اچھی اور سادہ غذا کا استعمال کریں۔ شکر اور چکنائی کا کم استعمال کریں۔ غذا 3سے 5مرتبہ کم مقدار میں لینی چاہیے۔ تمباکو نوشی سے پرہیز کریں ۔ غذا میں سبزیاں اور کم میٹھے پھل استعمال کریں۔ مریض کو بیسن کی روٹی، مچھلی اورسلاد کھانا چاہیے۔ انسولین باقاعدگی سے لینی چاہیے۔ ضرورت سے زیادہ انسولین بجائے فائدے کے نقصان کرتی ہے۔ معالج کی ہدایت کے مطابق ہی انسولین کے یونٹ کم یا زیادہ لگانے چاہئیں۔ ان سب باتوں پر عمل کرکے ذیابیطس جیسے مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ذیابیطس ایسی بیماریوں میں شامل ہے جس کی روک تھام مریض کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے یا پھر اگر مریض کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کردیا جائے تو وہ اس پر از خود بھی کنٹرول کرسکتا ہے۔
دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی بیماری ذیابیطس کے مریضوں کی غیر معمولی تعداد سامنے آرہی ہے۔ اس کا ایک اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر ہسپتال میں کم از کم ایک ماہ میں20ہزار سے زائد مریض رجوع کررہے ہیں،جن میں سے 80فیصد تعداد نئے مریضوں کی بتائی جارہی ہے ۔ دوسری جانب دنیابھر میں اس بیماری کی مناسبت سے نت نئے پروگرام ترتیب دیئے جارہے ہیں تاکہ عوام کو اس بیماری سے بچایا جاسکے۔
شازیہ سعید
٭…٭…٭