عید الاضحی کے حوالے سے قرآن مجید میں مذکور چوپایوں کے بارے میں خصوصی تحریر

چو پائے ،مویشی

قرآنی نام :اَلْاَنْعَامُ۔

پوری کائنات کے خالق ومالک آقا نے اپنی آخری اور قطعی کتاب ہدایت ، قرآن مجید ، میںاَلْاَنْعَامُ (چوپائے ، مویشی ) کا تذکرہ32بار فرمایا ہے۔ یہ تذکرہ کئی جہتی ہے ۔ قرآن مجید کی پہلی آیت جس میں اَلْاَنْعَامُ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ سورہ آل عمران (3) کی آیت 14ہے ۔ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ دنیا کی کئی ایک اشیاء مثلاً عورتوں ،بیٹوں ، سونے اور چاندی کے خزانوں ،نشان دار گھوڑوں ،چوپایوں اورکھیتی سے محبت کو انسانوں کے لئے مزین کردیا گیا ہے ۔ گویا ان اشیاء سے محبت خالق کائنات کی طرف سے ودیعت کردہ ہے۔ اشیاء بھی انہی کی عطا کردہ اوران مرغوب اشیاء کی محبت کو انسان کے لئے مزین بھی انہوں نے ہی کیا ہے،لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو یہ بھی تنبیہ کردی کہ یہ تمام اشیاء تو صرف دنیوی زندگی کا سامان ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کی ذکرکردہ ان اشیاء میں اَلْاَنْعَامُ (چوپائے)بھی شامل ہیں ۔ان سے محبت بادی النظر میں غیر منطقی سی دکھلائی دیتی ہے، اس لئے کہ کہاں اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز حضرتِ انسان اورکہاں وہ چوپائے جو عقل و شعور سے بے گانگی اورگم راہی کے حوالے سے ضرب المثل بنادیئے گئے ہیں جیسا کہ سورۃ الاعراف(7)کی آیت179میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جن اورانسان پیدا کئے ہیں جن کے پاس ایسے دل ہیں جو فہم وفراست سے عاری ہیں، ایسی آنکھیں ہیں جو بصارت تک کی مالک ہی نہیں ہیں ، ایسے کان ہیں جو قوتِ سماعت رکھتے ہی نہیں ہیں،یہ لوگ توجانوروں (مویشیوں ) کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گم راہ ہیں۔‘‘

انسان کامویشیوں سے کہیں زیادہ بھٹکنا اورگم راہ ہونا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وشعورسے بہرہ ور فرمایا ہے، اسے ہدایت اور گم راہی کے دو راستوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کی صلاحیت سے نوازا ہے ۔ خیر اور شر دونوں کو اس کی جبلت میں رکھا ہے ، لیکن اسے یہ استعداد عطا فرمائی ہے کہ وہ شر کو مغلوب کرلے اور خیر کو غالب بنادے۔اگر وہ اس صلاحیت و استعداد کے باوجود سیدھی راہ کا انتخاب نہیں کرپاتا، بھلائی کے راستے پر گام زَن نہیں ہوجاتا اور خیر کو اپنی پہچان نہیں بنا لیتا تو وہ یقینی طور پر انسانیت سے بے گانگی کی روش اپنالیتا ہے ۔ تب شر اس پر غالب آجاتا ہے اوروہ صراطِ مستقیم سے منحرف ہوجاتا ہے۔یہ انحراف اسے ظلمتوں میں دھکیل دیتا ہے اور تاریکیاں اس کے ذہن وقلب پرہی حاوی نہیں ہوتیں ، یہ دونوں تاریکیوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ دل پر لگنے والے سیاہ دھبے رفتہ رفتہ اسے سیاہی کے ایسے لوتھڑے میں تبدیل کردیتے ہیں جہاں سے روشنی کی کسی کرن کاپھوٹنا تو کجا، اس کا گزرنا بھی ممکن نہیںہوتا۔ تب ایسے لوگ کاَلْاَنْعَامُ (چوپایوں جیسے)ہوجاتے ہیں ، بلکہ ضلالت و گم راہی کے حوالے سے ان سے بھی بدتر۔عقل وشعور کے ہوتے ہوئے بھی ان دونوں سے عاری۔ خیر وشر کے مابین حد تفریق کھینچنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی اس سے یکسر محروم ۔ ایسے لوگوں کا نہ کوئی مقصد ِحیات ہوتا ہے اور نہ وہ جینے کے قرینے سے باخبرہوتے ہیں ۔ بابربعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ان کا نعرہ ہوتاہے۔ وہ اس زندگی کوسب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں ، اور اس میں بھرپور لذتِ کام ودہن میں مشغول رہنا ان کااکلوتا ہدف ہوتا ہے :

’’وہ لوگ جو کافر ہوئے ،وہ اس دنیا کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیںجیسے جانور۔ان کا اصل ٹھکانا تو جہنم ہی ہے۔‘‘(محمد(47:12)

’’وہ لوگ جو کافر ہوئے ،وہ اس دنیا کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیںجیسے جانور۔ان کا اصل ٹھکانا تو جہنم ہی ہے۔‘‘(محمد(47:12)

چوپایوں اورجانوروں کے ساتھ ان منفی تمثیلات کے باوجود ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ یہ چوپایے ، یہ مویشی اوریہ جانور ، انسانی زندگی کے لئے اہمیت کے حامل ہی نہیں ،یہ کئی ایک جہات میں اسے بہتر انداز میں گزارنے کے لئے بنیادی ضروری اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں، بلکہ اگرہم ایک قدم اور آگے بڑھیں تو بعض حوالوں سے انہیں انسان کی نفسیاتی وسماجی اور معاشرتی زندگی کا جزوِ لا ینفک بھی قرار دے سکتے ہیں ۔ ان چوپایوں میں سے کئی ایک پالتو جانور ہوتے ہیں،جنہیں انسان اپنے گھر کی چار دیواری میں بڑے شوق سے پالتاہے ، ان کے کھانے پینے اور آرام وآسائش کا خیال رکھتا ہے۔وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کے علاج معالجہ کے فرائض کو پوری تن دہی سے انجام دیتا ہے ۔ اور کبھی کوئی ایسا پالتو جانور ، جس نے برس ہا برس اس کے ساتھ گھر میں گزارے ہوں،مرجائے تو اس سے جدائی طبیعت پر بے حد شاق اور گراں گزرتی ہے، تب یوں لگتا ہے جیسے اپناگہراعزیز داغِ مفارقت دیئے جارہا ہو۔

چوپایوں اورجانوروں سے انسان کی یہ محبت دواعتبار سے ہے۔ ان سے انسیت کے حوالے سے بھی اور ان کے منافع و فوائد کی وجہ سے بھی ۔ یہ انسیت جبلی بھی ہوسکتی ہے اور اکتسابی بھی ۔ جبلی اس طرح کہ جانور ہوں یا چوپائے ، طیور ہوںیا چرندو پرند ،انسان کوان میں سے کئی ایک کے ساتھ پیار ہوتاہے ۔ بچپن میں تو یہ پیار کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے ۔ مختلف شہروں میں چڑیا گھر بنتے ہیں تو بڑوں سے کہیں زیادہ وہ بچوں کی وجہ سے پررونق دکھلائی دیتے ہیں۔پھر اس حقیقت سے بھی پہلو تہی نہیں جا سکتی کہ حیوانات ، خواہ وہ مویشی ہوں یا پرندے ، ان میں سے کئی ایک اپنی خوب صورتی کی وجہ سے دلوںمیں گھر کرجاتے ہیں ۔ یہ خو ب صورتی رنگوں کے تنوع کے باعث بھی ہوتی ہے اور شکل وصورت کی بدولت بھی ۔ عیدا لاضحیٰ کے موقعہ پر خوب صورت بکرا آپ کے آنگن میں بسیرا کرلے تو وہ بھی آپ کے گھر کی رونق و جمال کو چار چاند لگاد یتا ہے۔صبح کے وقت جبکہ سورج کی کرنیں ابھی مطلع پر سنہرا پن بکھیرنے کا آغاز کررہی ہوتی ہیں ، آپ کے لان اورباغات میں چہچہاتے رنگ برنگ پرندے پورے ماحول کو دل کش و دل رُبا بنا دیتے ہیں۔ ان کی اڑانیں ہی مسرتوں کی بارش نہیں برساتیں ، ان کے چہکنے سے بھی رنگ و نور کی برکھا برستی دکھلائی دیتی ہے۔ یہ سب کچھ ذی شعور انسانوں کولبھاتا ہے ، ان کے دلوں میںاللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ان مخلوقات سے محبت کے جذبات کو جنم دیتا ہے۔ یہ محبت ، انسانی جبلت کاہی ایک مظہرہوتی ہے۔ بعینہٖ جب آپ کسی جانور کواپنے گھر میں پالتے ہیں ، وہ بلی ہو یا مرغی ، وہ طوطا ہو یا مینا ، حتیٰ کہ وہ بکری ہو یا گائے اوربھینس ، جب آپ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں ، اس کی غذائی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں ، پیار سے اس کے جسم پر اپناہاتھ پھیرتے ہیں تو وہ اپنی حرکات و سکنات سے آپ کے اس جذبے کو سراہتا ہے ۔ یہ دوطرفہ اظہار ، تعلق میں بدلتا ہے اور پھر اس محبت کی شکل اختیار کرلیتا ہے ،جسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میںبیان فرمایا ہے۔ یہ اکتسابی محبت ، جس میں جبلت کا عمل دخل بھی موجود ہے ،افرادِ انسانیت کے لئے عورتوں،بیٹوں ، سونے چاندی کے خزانوں کی طرح مزین کردی جاتی ہے، اور انسان، باشعور افراد سے کی جانے والی محبت میں انہیں بھی حصہ دار بنا لیتا ہے ۔

جانوروں اورانسانوں کے مابین تعلق اور محبت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ہمیں قرآن مجید کی درج ذیل آیات کوبھی ضرورمد نظر رکھنا چاہیے ،جن میں چوپایوں کا تذکرہ انسانوں کے ساتھ ساتھ کیا گیا ہے:

(1) ’’دنیا کی زندگی کی مثال تو اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا تو اس کی وجہ سے زمین سے اُگنے والی چیزیں خوب مل جل گئیں، جن میں سے لوگ بھی کھاتے ہیں اورچوپائے بھی۔‘‘ (یونس(10:24)
(2) ’’(اللہ تعالیٰ) آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے ہیں۔انہوں نے تمہارے نفسوں میں سے بھی جوڑ ے بنائے ہیں اور چوپایوں میں سے جوڑے تخلیق کئے ہیں ۔ وہ تمہیں اس (دنیا) میں پھیلاتے ہیں، ان جیسا تو کوئی بھی نہیں ہے، اور وہ سب کچھ سننے اوردیکھنے والے ہیں۔‘‘(الشورٰی(42:11)
(3) ’’کیا آپ نے نہیںدیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کی وجہ سے کئی ایک پھل نکالے (پیدا کئے) جن کے مختلف رنگ ہیں ۔ پہاڑوں میں سے بھی کچھ سفید اور سرخ ، مختلف رنگوں کے ہیں اور کچھ سخت کالے سیاہ۔ لوگوں، جانوروں اور چوپایوں میں سے بھی اسی طرح مختلف رنگوں کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے تو ان کے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں۔یقینا اللہ تعالیٰ غالب اور بے حد بخشنے والے ہیں۔‘‘ (فاطر(35:28-27)

یہ ابراہیمی عہد آج پوری دنیا کے مسلمان دہراتے ہیں اور ہم اب بھی اپنے اپنے گھروں میں اس عہد پر خدا اور اس کی مخلوق کو گواہ بناتے ہیں اور اس عہد پر اپنے ایمان و یقین کو مستحکم کرنے اور اس کی عملی شہادت اور زندہ ثبوت مہیا کرنے کے لئے ہم اپنے ہاتھ سے اپنے رب کے حضور جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں… یہ عہد جس ماحول میں ہم اپنے رب سے کر رہے ہیں ،اس کی مناسبت سے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اقرار اور اعلان کرتے ہیں کہ:

ان آیات مبارکہ میں تین حوالوں سے انسانوں اور جانوروں کے درمیان یکسانیت کا اظہار کیا گیا ہے ۔تیسرے نمبر پر مذکورہ دو آیات میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ،مختلف اشیاء میں رنگوں کے تفاوت اور اختلاف کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ان میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی اس عظیم قدرت کی نشان دہی کی گئی ہے کہ آسمان سے برسنے والا پانی تو ایک ہی نوعیت کا ہوتا ہے اوروہ ایک ہی خطے میں جب برستا ہے تو اس کی مٹی سے مختلف اقسام کے جو پھل پیدا ہوتے ہیں ، ان کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جو پہاڑ زمین پر گاڑے ہیں، ان میں تین رنگوں کے پہاڑ موجود ہیں ۔ بعینہٖ انسانوں ، جانوروں اور چوپایوں میں بھی رنگوں کا اختلاف موجود ہے۔اس اعتبار سے انسان اور چوپایے بھی اختلاف الوان(رنگوں کے مختلف ہونے)میں مشترک ہیں ۔ َ

نمبر2پرمذکورہ آیت مبارکہ میں ان دونوں کے اپنے اپنے وجود کے اعتبار سے جبکہ پہلے نمبر والی آیت میں ان اشیاء کے حوالے سے جو یہ دونوں اپنے اس وجود کو برقرار رکھنے اور اس کی نشوو نما کے لئے اپنے استعمال میں لاتے ہیں ، انسانوں اورجانوروں کے درمیان یکسانیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سورۃالشورٰی میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ انہوںنے انسانوں اور جانوروں کی نسل کوبڑھانے کے لئے ان کے جوڑے جوڑے تخلیق فرمائے ہیں۔جوڑوں کی یہ تخلیق اور ان کا باہم ملاپ نسل انسانی کی افزائش کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور جانوروں کی بڑھوتری کا بھی ۔ اس اعتبار سے ، ان سے مزید وجودوں کا جنم لینا ایک ہی طریق کار کا مرہون منت ہے، جبکہ موجود اور آنے والے وجودوں کی جسمانی نشوونما بھی ان اشیاء کی بدولت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین پر برسائے گئے پانی کے ذریعے ، ہماری اس مٹی سے نباتات کی صورت میں پیدا ہوتی ہیں، اور جنہیں انسان اور جانور( مویشی اور چوپائے) دونوں ہی کھاتے ہیں ، ان سے اپنے لئے غذا حاصل کرتے ہیں، ان میں موجود توانائی کے خزانے سے اپنی جسمانی قوت اور افزائش کا بندوبست کرتے ہیں، اوریوں اپنے جیسے مزید وجودوں کی تخلیق کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔

انسانوں اور چوپایوں کا ساتھ ساتھ تذکرہ اللہ جل جلالہٗ نے مزید کئی ایک آیات مبارکہ میں بھی کیا ہے۔ سورہ طٰہٰ (20 :54-53) میں وہ فرماتے ہیں کہ آسمان سے نازل شدہ پانی کے ذریعے ہم نے مختلف النوع نباتات کے جوڑے پیدا کئے ہیں، پھر انسانوں سے کہا گیا کہ تم خود بھی انہیں کھائو اور اپنے جانوروں کو بھی کھلائو۔ سورۃ الفرقان(25:49-48) میں بتلایا گیا کہ :

’’ہم نے آسمان سے پاک و صاف پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے ہم مردہ شہر کو حیاتِ نو بخشیں اور اسے اپنی مخلوقات میں سے بہت چوپایوںسے اور انسانوں کو پلائیں۔‘‘

سورۃ السجدۃ(27:32) میں اسی نکتے کو ایک دوسرے زاویے سے یوں اجاگر کیا گیاہے :

’’کیا انہوںنے نہیں دیکھا کہ ہم یقینی طور پر پانی کو چٹیل میدانوں کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں۔ پھر اس کے ذریعے ہم ایسی کھیتی نکالتے ہیں جس میں سے ان کے جانور اور وہ خود کھاتے ہیں، تو کیا وہ یہ نہیں دیکھتے؟‘‘

انسانوں اور چوپایوںدونوں کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراہمی کااہتمام آسمان سے نازل شدہ پانی کے ذریعے اس مٹی سے فصلیں اُگا کر کیا۔ ان کی پیاس بجھانے کے لئے بارش کی صورت میں بھی پانی برسایا اورزمین میں موجود اس کے سرچشموں سے بھی مختلف صورتوں میں اسے ہانکا اور چلایا۔ نہریں ہوں یا دریا ، کنویں ہوں یا آبشاریں، تالاب ہوں یا جوہڑ ، ان کے ذریعے مختلف مقامات پر انسانوں اورجانوروں کی سہولت کی خاطر پانی کے ذخائر مہیا کئے۔ دونوں ہی ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ ان میں موجود پانی اور برسنے والی برکھا سے زمین مختلف فصلیںاورکھیتیاں اگاتی ہے جسے قرآن مجید میں جا بجا انسانوں اورجانوروں کی متاع (سامان) قراردیا گیا ہے۔سورۃالنازعات(79:33-30)میں اسی کاتذکرہ ایک دوسرے پیرایے میں یوں کیا گیا ہے:

’’اورزمین کو اس کے بعد بچھا دیا ۔ اس میں سے پانی اور چارہ نکالا (پیدا کیا) اورپہاڑوں کو مضبوطی سے گاڑ دیا ۔یہ سب تمہارے اورتمہارے چوپایوں کے فائدے کے لئے ہیں۔‘‘

اسی فائدے اور متاع کو سورہ عبس (32-24:80) میں زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے:

’’انسانوں کو اپنے کھانے کی طرف دیکھنا چاہیے ۔ ہم نے خوب پانی برسایا ، پھر ہم نے زمین کو اچھی طرح پھاڑا ۔ بعدازاں اس میں سے اناج اگایا ، انگور اور ترکاری بھی ، زیتون اورکھجور کے درخت بھی، گھنے باغات بھی ، پھل اور چارہ بھی۔ (یہ سب کچھ ) تمہارے اور تمہارے جانوروں کے استعمال اورفائدے کے لئے ہے۔‘‘

انسانوں اورچوپایوں کے لئے پیدا کردہ یہ اشیاء ان کے استعمال میں آتی ہیں اور انہیں کئی جہتی فوائد پہنچاتی ہیں۔ان اشیاء کی افادیت غذائی اعتبارسے بھی ہے او ردوائی لحاظ سے بھی۔ یہ تغذیہ کے کام بھی آتی ہیں اور امراض کے ازالے کے لئے بھی ۔ یہ دونوں جسمانی وجود کی نشوونما کا فریضہ بھی بجا لاتی ہیں اور تقویت بہم پہنچا کر مزید وجودوں کی خلقت کا سبب بھی بنتی ہیں۔

وجودی اشتراک کی یہ دونوںجہتیں انسانوں اورجانوروں کے مابین مماثلت کو آشکارکرتی ہیں ۔جبلی و اکتسابی انسیت کی موجودگی میں یہ مماثلت ، مزین کردہ محبت کو مزید اجاگرکرتی ہے۔ اسی محبت کا ایک اور پیرایہ ان منافع اور فوائد کی صورت میں بھی جلوہ گر ہوتا ہے جو ہم چوپایوں ،مویشیوں اور جانوروں سے حاصل کرتے ہیں، اور جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی ایک مقاما ت پر ذکر فرمایا ہے۔

انعام (چوپایوں) سے حاصل ہونے والے فوائد کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پہلی بارتذکرہ سورۃ الانعام (142:6) میں کیاہے۔ اس آیتِ مبارکہ اور اس کے بعد والی آیات میں چوپایوں کی چند اقسام کاذکر فرمایا ہے، لیکن آیت 142میں ان کے ایک فائدے کی بھی نشان دہی حَمُوْلَۃٌ کے لفظ کے ساتھ کردی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں اور چوپایوں کی بعض اقسام کوبار برداری کے لئے تخلیق فرمایا ہے۔البتہ اسی آیت کے اگلے حصے میں یہ بھی فرمایا کہ ’’تمہیں اللہ تعالیٰ نے جو رزق عطا فرمایا ہے ، تم اس میں سے کھائو اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، بلاشبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ آیت کے اس حصے میں یہ بھی بتلادیا گیا کہ جانوروں میں سے جو بار برداری کے کام آتے ہیں اور جو پستہ قد ہیں ، ان میں تمہارے لئے رزق بھی رکھا گیا ہے۔تم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس رزق سے کھائو ، لیکن بخوبی یہ سمجھ لو کہ اس رزق سے استفادہ کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم اپنے واضح اورکھلے ہوئے دشمن شیطان کی پیروی سے مکمل اجتناب کرو۔

چوپایوں سے حاصل ہونے والے رزق کا تذکرہ ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃالحج(22) کی دوآیاتِ مبارکہ (28اور34) میں بھی کیا ہے ۔ ان دونوں میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے نام لیوائوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ انہوں نے انعام (چوپایوں) کی صورت میں جو رزق عطا فرمایا ہے ، اس پر وہ ان کے نام کا ذکر کریں ۔ اپنے رازق آقا کو یاد کریں ، ان کی حمد کے ترانے گائیں اور ان کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے ان کی وحدانیت کا اس طرح اعتراف کریں کہ ہر حوالے سے ان کی فرماں برداری کو اپنا شعار بنا لیں۔

سورۃ المٔومنون (21:23) میںاللہ تعالیٰ نے چوپایوں سے حاصل ہونے والے رزق کی دو اقسام کاتذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:

’’…ان (چوپایوں) کے پیٹوں میں جو کچھ ہے ، ہم اس میں سے تمہیں پلاتے ہیں۔ تمہارے لئے ان چوپایوں میں بہت سے فوائد ہیں، اور انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو‘‘

اس اعتبار سے اکل وشرب (کھانا اور پینا) دونوں حوالوں سے چوپایے ہمارے کام آتے ہیں۔ان کے گوشت اوردودھ ، دونوں میں ہمارے لئے اعلیٰ درجے کی غذائیت کا اہتمام کیا گیاہے ۔ جدید سائنسی تحقیقات ان دونوں کی غذائیت کی تصدیق کچھ اس انداز میں کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خلاقیت اور رزاقیت پر ہمارا ایمان مزید پختہ اورمستحکم ہوجاتا ہے۔ سورۃ النحل(66:16) میں اللہ تعالیٰ نے دودھ کے تخلیقی عمل کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے،وہ ایک طرف تو ان تخلیقی قدرت کا شاہ کار ہے ، اور دوسری جانب وہ عالم انسانیت کے لئے ان کی تخلیق کردہ اس بیش قیمت نعمت کی قدرومنزلت کا آئینہ دار ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :

’’چوپایوں کے پیٹ میں موجود گوبر اور خون کے درمیان سے ہم تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے حلق سے بآسانی نیچے اتر جاتا ہے۔‘‘ َ

اس آیت میں مذکور دودھ کی پیدائش کے عمل کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تفصیلی تذکرہ دودھ کے بارے میں رقم کردہ اپنے مضمون میں ہم نے کیا ہے۔

انسا ن کو غذا بہم پہنچانے کے لئے چوپایوں کا یہ کردار دو جہتی ہے۔کھانا اورپینا دونوں انسانوں کی بنیادی ضرورتیں ہیںاور ہمارے خالق و مالک آقا نے ان دونوں کوچوپایوں کے ذریعے پوراکردیا ہے ۔ اس اعتبار سے چوپایوں کا وجود ہمارے وجود کی بقا کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے ، اور یہی وہ اساسی منفعت ہے جو ہم جانوروں سے حاصل کر پاتے ہیں ، لیکن چوپایوں کی منفعت محض باربرداری اور کھانے پینے تک ہی محدود نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مزید کئی ایک زاویوں سے انہیں ہمارے لئے منفعت بخش بنایا ہے۔ ان میں سے چند ایک منافع کا تذکرہ سورہ النحل(16) کی آیاتِ مبارکہ 5تا8میں کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اور چوپایے ، اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ تمہارے لئے ان میں گرمی کے حصول کا سامان بھی ہے اور دیگر فوائد بھی۔ اور انہی میں سے تم کھاتے ہو۔ تمہارے لئے ان میں جمالیاتی پہلو بھی ہے، جب تم شام کو انہیں چرا کر واپس لاتے ہو اور جب تم صبح کے وقت انہیں چرانے کے لئے لے جاتے ہو۔وہ تمہارے بوجھ ( ساز وسامان) کو ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں ، جہاں تک پہنچنا تمہارے لئے ممکن نہ تھا ، مگر مشقت بسیار کے بعد ۔یقینا تمہارے رب بہت نرمی کرنے والے اورنہایت رحم کرنے والے ہیں۔ گھوڑے ، خچراور گدھے ، یہ اس لئے ہیں کہ تم ان پر سواری کرو ۔ یہ تمہارے لئے زینت و زیبائش کا باعث بھی بنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تو وہ کچھ پیدا فرمایا ہے جو تم جانتے بھی نہیں ہو۔‘‘

ان آیات مبارکہ میں بار برداری اورکھانے پینے کے علاوہ چوپایوں کے جن اضافی فوائد کا ذکرکیاگیا ہے ، ان میں ان کی کھال سے حاصل ہونے والی گرمی کے علاوہ ان کا بطور سواری استعمال بھی ہے۔ ان چوپایوں میں جمال وخوب صورتی کاعنصر بھی موجود ہے، اور اسی حوالے سے یہ انسانوں کے لئے زینت و زیبائش کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔انہی فوائد میں سے ایک کا تذکرہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورۃ النحل (16) ہی کی آیت (80)میں کیا ہے:

’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں میںسکونت کی جگہ بنادی ہے۔اورانہوںنے ہی تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنادیئے ہیں، جنہیں تم اپنے سفراورقیام ،دونوں حالتوں میں ہلکا پھلکا پاتے ہو۔اورا ن کی اون، رئووں اوربالوں کو بھی انہوں نے اثاثہ بنایا اور سامان (متاع) بھی، ایک مخصوص مدت تک کے لئے۔‘‘

اس اعتبار سے چوپایوں سے صرف غذائیت کاحصول ہی ممکن نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانوں کو موسموں کی حدت وشدت سے بھی محفوظ رکھنے کے کام آتے ہیں۔ ہم ان کی کھالوں سے مختلف النوع فوائد حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کے بالوں اوران سے حاصل ہونے والی اون سے بھی بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اسے کئی ایک استعمالات میں لاتے ہیں۔

چوپایوں کا یہ کلی اورجزئی استعمال ، انسانوں کی زندگی میںان کی اہمیت کی نشان دہی کرتا ہے۔ کلی استعمال سواری اور بار برداری کے اعتبار سے ہے جبکہ جزئی استعمال میں اکل وشرب ، گرمی کا حصول ، چمڑے سے گھروں کا قیام ،اون ، بالوں اوررئووں کے مختلف فوائد شامل ہیں۔طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو چوپایوں کے کئی ایک اجزاء مختلف ادویات کی تیاری میں بھی مستعمل ہیں۔طب اسلامی ، طب نبویؐ اور طب یونانی میں ادویات کی تیاری کے لئے بنیادی طور پر قدرتی و فطرتی اجزاء پر انحصار کیاجاتا ہے ۔ ان اجزاء کی تین اقسام ہیں: نباتی ، حیوانی اور معدنی۔ حیوانی اجزاء اپنے فوائد کے اعتبار سے کئی ایک ادویاتی مرکبات کا جزوِ لا ینفک ہیں ۔ گوشت اور دودھ تغذیہ کے کام بھی آتے ہیں جبکہ ان کی طبی افادیت کا تذکرہ بھی مفردات و مرکبات کی طبی کتب کا لازمی باب بن جاتا ہے ۔قرآن مجید میں چوپایوں کے جو منافع گنوائے گئے ہیں ، ان میں سے چند ایک کوہم طبی فوائد میں بھی شمارکرسکتے ہیںیا ان سے طبی فوائد کو مرتب ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔گرمی پہنچانے کاعمل انہی فوائد کا ایک حصہ ہے۔

طبی ادویات میں استعمال ہونے والے حیوانی اجزاء میںسے کئی ایک کا تعلق چوپایوں سے ہے ۔ ان میں کستوری بھی شامل ہے ۔ جبکہ طبی اصول کے مطابق کسی بھی جانور کا استعمال ہونے والا کوئی سا بھی عضو ، انسان کے اسی عضو کی تقویت کا باعث بنتا ہے ،مثلاً بکرے کا پھیپھڑہ سالن میںپکا کر کھایا جائے تو وہ انسانی پھیپھڑے کوقوت عطا کرے گا، بعینہٖ دیگر حیوانی اعضاء ہیں جو انسان کے ایسے ہی اعضا ء کو طاقت بہم پہنچاتے ہیں۔چوپایوں کے انہی کلی اورجزئی فوائد کا تذکرہ سورہ یٰسٓ(36:73-71)میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

’’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی اشیاء میں سے چوپائے بھی پیدا کئے ہیں ، جن کے وہ مالک بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے انہیں ، اِن کے تابع فرمان کردیا ہے۔ وہ ان میں سے کسی پر سواری کرتے ہیں تو کسی کا گوشت کھاتے ہیں۔ ان (چوپایوں) میں اُن کے لئے طرح طرح کے فوائد بھی ہیں او ر مشروبات بھی۔ تو کیایہ پھر بھی شکر گزار نہیں ہوں گے؟‘‘

اس آیت مبارکہ میں سب سے اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن اشیاء کی تخلیق اپنے ہاتھوں سے کی ، ان میں انعام ( چوپائے) بھی شامل ہیں جو بجاطور پرجانوروں کی اہمیت پردلالت کرتا ہے۔ پھر انہوں نے ہی ان جانوروں کی ملکیت انسانوں کو عطا کی، اوراسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہیں حضرتِ انسان کے تابع فرمان بھی بنادیا ۔ افرادِانسانیت پر یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات بھی ہیں اور ان کے لئے بے شمار منافع کی حامل نعمتیں بھی۔ ان فوائد میں سے چند ایک کو تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں گنوا دیا لیکن بہت سوں کاتذکرہ نہیں بھی کیا۔طرح طرح کے یہ فوائد ہمارے سماجی و معاشرتی ،معاشی و اقتصادی اورغذائی و طبی پہلوئوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم ان سبھی میں ان جانوروں اور چوپایوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔

چوپایوں سے استفادے کو خالق کائنات نے سورۃ المؤمن/غافر (40:81-9) میں کچھ اس پیرایے میں بیان فرمایا ہے:

’’اللہ وہ ہی ہے جنہوں نے تمہارے لئے چوپایوں کو بنایا تاکہ تم ان میں سے کچھ پر سواری کرو اور بعض کا گوشت کھائو۔ تمہارے لئے ان میں بہت سے فائدے ہیں ، اور تاکہ تم ان سے اپنی وہ ضرورت پوری کرسکو جو تمہارے سینوں میں ہے۔ تم ان پر بھی اور کشتیوں پر بھی سوار کئے جاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاںدکھلاتے ہیں ، تو تم کون کون سی نشانی کا انکارکروگے؟‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بطورِ خاص چوپایوں کے سواری بنائے جانے کے پہلو کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان میں سے بعض کے بحیثیت سواری استعمال ، اسی استعمال کے ذریعے اپنے سینوں میں چھپی خواہشات کی تکمیل اور پھر کشتیوںکے ساتھ ساتھ ان پر بھی سوار ہونے کا مکرر تذکرہ کیا ہے۔آج جبکہ سواری کے جدید ترین ذرائع ہمیں دستیاب ہیں ، سائیکل سے لے کر تیز ترین ہوائی جہازوں تک ، اس کے باوجود چوپایوں کا بطورِ سواری استعمال کلی طور پر متروک نہیں ہوسکا۔ دشوار گزار راستوں، تنگ پگڈنڈیوں اورمواصلاتی نظام سے محروم علاقوں میں آج بھی چوپایے ہی سواری کا واحد ذریعہ ہیں ۔ا ونٹ آج بھی صحرا کا جہاز کہلاتا ہے ۔اسی طرح گھوڑے، خچر اور گدھے بھی سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں۔ان چوپایوں پرسواری کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کچھ آداب سکھلائے ہیں۔ سورۃ الزخرف(43:14-12) میں ان کا تذکرہ یوں موجود ہے:

’’ وہ ذات جس نے تمام جوڑوں کو پیدا فرمایا اور تمہارے لئے کشتیاں اور چوپائے پیدا کئے جن پر تم سواری کرتے ہو، تاکہ تم ان کی پشت پر جم کر بیٹھ جائو اور پھر جب تم ان پر اچھی طرح سوار ہوجائو تو اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو اور کہو: سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ ، وَاِنّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ۔ ’’مبارک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے لئے تسخیر فرمادیا حالانکہ ہم تو اسے قابوکرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔یقینا ہمیں اپنے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔‘‘

1۔ ہمیں ان کی پشت پر جم کر بیٹھنا چاہیے۔ اس ہدایت سے خود حفاظتی کاپہلو اجاگر ہوتا ہے ، جبکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چوپایوں کی سواری ایک سنجیدہ عمل ہے، اسے بیہودہ لہو و لعب کی نذر نہیں کردینا چاہیے ، نہ ہی اس عمل کے ذریعے کرتب دکھلانے چاہئیںاورنہ ہی چوپایوں کو جوا بازی کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ 2۔ چوپایوں کی پشت پر سوارہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہیے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے اور عبدیت کا تقاضا ہے کہ ہم ہر آن اس احسانِ عظیم پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے رہیں،لیکن جانوروں او رچوپایوں پر سواری کے وقت خاص طور پر اظہار تشکر کا حکم دیا گیا ۔اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں سے ایک بہت بڑے حصے کو انسان کا تابع فرماں بنادیا ۔ ایسے میں یہ لازم ہوجاتا ہے کہ انسان ایک بڑی مخلوق کواپنے لئے تسخیر کئے جانے پراللہ تعالیٰ کے اس بڑے کرم کا بھرپور ادراک کرتے ہوئے تشکر بھرے جذبات کے ساتھ ان کا ذکر کرے۔ 3۔ چوپایوں پر سوار ہوتے وقت جو کلمات ہماری زبان پر جاری ہونے چاہئیں، اللہ تعالیٰ نے وہ بھی ہمیں سکھلا دیئے ہیں، جن میں اس حقیقت کا واضح اعتراف موجود ہے کہ ان چوپایوں کی تسخیر صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس نے ہمارے لئے کی ہے ، ہم اس صلاحیت کے مالک نہیں تھے ، اس لئے ہم ان کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں اور یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہمیں واپس انہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

چوپایوں پرسواری کے وقت ادا کئے جانے والے کلمات ہی ہر قسم کی سواری پر سوار ہوتے وقت زبان سے بولے جاتے ہیں ، خواہ وہ سائیکل ہو یا موٹر سائیکل ، کار ہو یا جیپ ، ہوائی جہاز ہو یا بحری جہاز ۔یقینی طور پر ان کی تسخیری قوت بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ودیعت کی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چوپایوں کی اقسام بھی بیان کی ہیں ۔ یہ اقسام دو طرح کی ہیں۔ایک ان کی اجناس کے اعتبار سے ، دوسرے حلت وحرمت کے حوالے سے ۔ چوپایوں کی جن اجناس کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ان میں گائے ، اونٹ ، اونٹنی ، گھوڑا، بھیڑ، بکری ، ہاتھی ،بھیڑیا اور خنزیر شامل ہیں۔ سورۃ الانعام(144-142:6) میں بار برداری میں کام آنے والے اور پستہ قد چوپایوں کے عمومی تذکرہ کے بعد ان میں سے آٹھ اقسام کو ذکرکیا گیا ہے ۔بھیڑ ، بکری، اونٹ اورگائے کے دودو ، یعنی مذکر اور مؤنث۔

خالق کائنات نے سورۃ الانعام میں چوپایوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ان کی حلت وحرمت کے بارے میں بھی واضح احکامات سے نوازا ہے۔ حلال اور حرام کا تصور ، اسلام میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ حلت و حرمت ، عقائد سے اعمال تک ،سیاست سے عدالت تک، معاشرت سے اقتصاد تک ، تجارت سے معیشت تک ، انفرادی زندگی سے اجتماعی رویوں تک ہر ایک کا احاطہ کرتی ہے ۔ا کل وشرب میں حلال اور حرام کے درمیان واضح لائن کھینچ دی گئی ہے ۔ وضاحت سے یہ بتلادیا گیا ہے کہ کون سی چیز حلال ہے اور سی حرام ۔سورۃ الانعام کی مذکورہ بالا آیات میں بھی ذکر کردہ چوپایوں کے ساتھ ساتھ ، خود حرام کردہ اشیاء پر بحث کی گئی ہے اور یہ بتلادیا گیا ہے کہ باطل تصورات کی رو سے کسی حلال چیز کو کسی ایک طبقے کے لئے حرام قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ سورۃ الانعام (140-138:6) میں مشرکین مکہ کے ان باطل عقائد پر ضرب لگائی گئی ہے ، جن کی رو سے وہ مویشی اور کھیت سے حاصل ہونے والی فصل کے حوالے سے خود ہی طے کرلیا کرتے تھے کہ ان میں سے کیا کچھ مردوں کے حلال ہے او رکیا چیز عورتوں پر حرام ہے۔مثلاً آیت 139 میں مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ چوپایوں کے پیٹ میںموجود جو کچھ بھی ہے وہ مردوں کے لئے حلال ہے اورعورتوں کے لئے حرام ہے ، البتہ وہ مردہ ہو تو پھر سبھی اس کے کھانے میں شریک ہوسکتے ہیں۔ خلاق و رزاق آقا اس سے اگلی آیت میںبڑی وضاحت سے فرما دیتے ہیں کہ ’’ جو چیزیں اللہ نے انہیں کھانے پینے کے لئے دی تھیں ، انہوں نے انہیں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہوئے حرام قرار دے ڈالا ۔بے شک یہ لوگ گمراہ ہوگئے اور وہ ہدایت یافتہ نہ ہوئے۔‘‘(140:6)

سورۃ الانعام(150-144:6) میں اللہ تعالیٰ نے تصور حرمت اور حرام کردہ اشیاء کا تفصیلی تذکرہ فرمایا ہے ۔ ان آیات میں واضح طور پر یہ ہدایت فرما دی گئی کہ کسی بھی فرد کی طرف سے حرام کردہ کسی چیز کی حرمت کواگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے تو اس کی بیان کردہ حرمت پرگواہ نہ بناجائے ۔ اس اعتبار سے یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوگئی کہ حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے،یا انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور راہ نمائی کی روشنی میں ایسا کرسکتے ہیں۔

اس ہدایت یا راہ نمائی کے بغیر ، کوئی سی بھی ہستی ایسا نہیںکرسکتی ، حتیٰ کہ نبی بھی اس کا اختیار نہیں رکھتے۔اگر حالات کے کسی جبر کے تحت ایسا کربھی دیاجائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراًوحی نازل ہوجاتی ہے:

ٰٓیاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَک۔(التحریم(66:19)
’’اے نبی!آپ اس چیز کو کیوں حرام قرار دیتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے؟‘‘

سورۃ الانعامکی آیت 144میں ہمارے آقا و مالک نے حرام کردہ اشیاء میں سے چند ایک کا ذکر فرمایا ہے۔ ان میں مردار جانور ، بہتا ہوا خون ، خنزیر کاگوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا جانور شامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ شرک کوکسی بھی حوالے سے برداشت نہیں کرتے، نہ عقائد میں ، نہ الوھیت میںاور نہ ہی ان کے لئے ادا کردہ فرائض واعمال میں۔جہاں کہیںشرک کا معمولی سا شائبہ بھی دکھلائی دیتا ہے ، وہیں پورے کا پورا عمل مردود ٹھہرجاتا ہے ۔یہاں تک کہ اگر نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے ، میدان جہاد میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے ، علم کی روشنی بکھیرنے کے دوران یا جانور کی گردن پر چھر ی پھیرتے ریا کاری کا ادنیٰ سا جذبہ دل میں جگہ پالے تو عظیم ترین اعمال بھی پر کاہ سے کم وزن ہوجاتے ہیں۔ ا س لئے ہمیں اکل وشرب سے لے کر عقائد واعمال تک شرک کے تمام تر مظاہرسے کلی اجتناب برتنا ہوگا۔

سورۃ الما ئدہ(3:5) میں بھی حرام کردہ چوپایوں اور جانوروںکی تفصیل موجود ہے ۔ اس کی رو سے مردار جانور ، خون، خنزیر کا گوشت ، اللہ کے علاوہ دوسروں کے نام پر ذبح کیا گیا جانور ، بلندی سے گر کر مرنے والا، گلاگھٹنے سے مرا ہوا ، کسی ضرب کے نتیجے میں مر جانے والا ، درندوں کی چیر پھاڑ کی وجہ سے موت سے ہم کنار ہونے والااور آستانوں پر ذبح کیا گیا ،یہ سبھی چوپایے اور جانور حرام قرار دیئے گئے ہیں ۔ سورۃ الحج(30:22) میں بتلایا گیا ہے کہ چوپایے تمہارے لئے حلال کئے گئے ہیں سوائے ان کے جن ( کی حرمت) کا تذکرہ ہم نے کردیا ہے۔

اسلام میں حلت وحرمت کاتصور کئی جہتی ہے ، اس لئے وہ ہر جگہ اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کاروبار زندگی کو چلانے کا درس دیتا ہے تا کہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے بلند تر مقام پر فائز ہوسکے ، اور پھر اسے برقرار بھی رکھ سکے۔ کھانے پینے کے حوالے سے بھی حلال و حرام کی تمیز اس لئے قائم کی گئی کہ انسان ایک طرف تو اچھی صحت کو اپنے لئے یقینی بنا سکے اور دوسری طرف اخلاقی رذائل اورجسمانی مفاسد سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنی روح و بدن کی تطہیر و تقدیس اورتصحیح و تقویت کا اہتمام کرسکے۔

اس تطہیر و تقدیس کے لئے ضروری ہے کہ شرک کی نجاست کے ساتھ ذہنی پستی کے عکاس توہمات سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھا جائے۔

انسانوں کو ان توہمات کاشکار بنانے کے لئے شیطان نے تب ہی دھمکی دی تھی جب اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا تھا ۔ تب اس نے کہاتھا کہ ’’میں لازماً انہیں گم راہ کروں گا، میں انہیں آرزئووں میں الجھائوں گا ، میں انہیں حکم دوں گا اوروہ ( اس کی تعمیل کرتے ہوئے) جانوروں کے کان پھاڑیں گے۔‘‘چنانچہ عرب ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔ ان کی کوئی اونٹنی جب پانچ یادس بچے جن دیتی تووہ اس کے کان پھاڑ کر اسے اپنے کسی دیوتا کے نام پر کھلا چھوڑدیتے ۔ اسی طرح جس اونٹ کے نطفہ سے دس بچے ہوجاتے ، اس کے کان بھی چیر کر دیوتا کے نام سے منسوب کردیا جاتا۔ ان پھٹے کانوں والے جانوروں سے کام لینا حرام سمجھا جاتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے توہمات کو یکسرباطل اور شیطانی قراردیتے ہوئے ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔

خالق کائنات نے جن چوپایوں کو انسان کے لئے مسخر کیا ، اسے ان پر قابو پانے کے طریقے سکھلائے ،ان سے منافع کے حصول کی صلاحیت ودیعت کی ،وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہیں ۔ ایسی نعمتیںجو اس کے کاروبار حیات کی انجام دہی میں اس کی معاون ہیں ۔اسیسہولتیں بہم پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان چوپایوں کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء(26:133)میں اپنی عنایات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’انہوں نے تمہیں چوپایے اور بیٹے دیئے۔‘‘ اسی طرح سورۃ الزمر (39: 6) میں جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور ان سے حضرت حواء علیہا السلام کی تخلیق کا تذکرہ کیا وہیں یہ بھی بتلایا کہ انہوں نے تمہارے لئے چوپایوں میں آٹھ نر اور مادہ اتارے۔ اس اعتبار سے اس کرۂ ارض پر انسان اورچوپایوں کاچولی دامن کاساتھ ہے ۔ یہ اہمیت کچھ یوں بھی اجاگر ہوتی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دینے کے لئے ان کی گردن پر چھری چلانے ہی والے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ایک چوپائے (مینڈھے) کی قربانی کے ذریعے ہی حضرت انسان پرنعمت کاایک اور دروازہ وا کردیا ۔وگرنہ سوچئے اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کردیا جاتا اور پھر اسوہ ابراہیمی کی تعمیل میں ہر فرد کو ایسی ہی قربانی دینا پڑتی تو کیا ہوتا؟ اس لحاظ سے چوپایے پورے عالم انسانیت کی حفاظت و بقا کا ایک ذریعہ بن گئے۔

ان چوپایوں کی اہمیت کے دو اور پہلو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمائے ہیں۔ انہیں سورۃ النحل(66:16) اور سورۃ المؤمنون(21:23) میں سامان عبرت اور غوروفکر قرار دیاگیا ۔ ان دونوں مقامات پرچوپایوں سے حاصل ہونے والے دودھ کی پیدائش کے عمل کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں سامان عبرت بتلایاگیاہے۔اس کی مزید وضاحت سورۃ الغاشیۃ (17:88) میں آسمان، پہاڑوں اورزمین پر غوروفکر سے پہلے اونٹوں کی تخلیق پرسوچ بچار کرنے کی دعوت سے کی گئی ہے۔

چوپایوں کی اہمیت کادوسرا پہلو سورۃالحج (36:22)میں مذکور ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قربانی کے جانور کو ہم نے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بنایا ہے۔ یہ نشانی اس وقت عظمت کی حامل بن جاتی ہے جب قربانی کے جانوروں کی قربانی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کی جائے اورانہی کے نام پر۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تک نہ تو ان کا خون پہنچتا ہے اورنہ ہی گوشت بلکہ صرف قربانی دینے والے کا تقویٰ وہاں تک اپنی راہ بنا پاتا ہے۔ یوں ایک بار پھر چوپایوں کے حوالے سے شرک سے اجتناب کی سخت تاکید کی گئی ہے۔

اس اہمیت کے حامل چوپایوں کو مختلف زبانوں کے ادب میں بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے، بالخصوص عربی ادب تو گھوڑوں اوراونٹوں کے اوصاف کے تذکرے سے بھرا پڑا ہے۔
عالم انسانیت کے لئے معاشرتی ، معاشی اور طبی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی انتہائی مفید مخلوق…چوپایے… کے حوالے سے ہمیں ہر لحظہ اپنے خالق و مالک آقا کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہنا چاہیے۔ ان کا شکربجا لاناچاہیے اور اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ ہم ان کے احکامات کی تعمیل کریں۔ حلال وحرام کے امتیاز کو کماحقہ ملحوظ خاطر رکھیں اور اپنی زندگی کے ہرہر لمحے کوان کی اطاعت میں بسر کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین۔

ڈاکٹر زاھد اشرف

٭…٭…٭

عید الاضحی کے حوالے سے قرآن مجید میں مذکور چوپایوں کے بارے میں خصوصی تحریر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *