حج بیت اللہ اورتجدیدعہد

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ،
اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک۔

عرفات کے میدان میں جو صدا لاکھوں انسان آج کے دن بلند کر رہے ہیں یہ وہ صدائے حق ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اسی میدان میں آج سے چار ہزار سال پہلے بلند کی تھی۔ انہوں نے اپنے احوال کی تمام تر نامساعدتوں کے علی الرغم اپنے رب کے حضور کامل اخلاص اور پورے یقین کے ساتھ عرض کیا تھا:

’’حاضر ہوں میں اے اللہ! حاضر ہوں تیرے لئے ، حاضر ہوں تیری چاکری اور عبودیت کے لئے ، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں تیرے سامنے ، تیرے حضور! بے شک ہر قسم کی حمدو تعریف تیرے لئے خاص ہے اور ہر طرح کی نعمت اور حقیقی بادشاہت کا مالک بھی تو ہی ہے۔ نہ تیرا کوئی ساجھی و حصہ دار اور نہ کسی کا دخل تیرے معاملات اور فیصلوں میں۔‘‘

یہ اعلان اخلاصِ عبدیت و بندگی کا صدق د لانہ اظہار بھی تھا اور اپنے ارد گرد کی دنیا کے خلاف اعلانِ بغاوت بھی… اور تاریخ کے زریں ابواب شاہد ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے لبیک لبیک کے اس اعلانِ صدق و عدل کو اپنے عمل کی عظیم تر شہادت سے برحق ثابت کیا۔

عدل و حق کی اس صدائے عبدیت کے ساتھ ساتھ ان دنوں ایک دوسری آواز بھی شرق وغرب میں گونج رہی ہے اور یہ بھی درحقیقت انہی خلیل الرحمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک شاہکارِ عبودیت کی یاد تازہ کرتی ہے۔ خدا کے اس اولوالعزم بند ے نے (ان پر لاکھوں درودو سلام) جب اپنے اکلوتے اور جوان لختِ جگر کو خدا کے حضور قربان کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری رکھتے وقت جو نغمہ گایا تھا وہ وہی تھا جو آج ہم اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے وقت اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بطور عقیدہ اپنی زبانوں سے دہراتے ہیں:

اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo (الانعام۶:۷۹) قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ۔(الانعام۶:۱۶۱۔۱۶۲)

’’میں نے (سب کو چھوڑ کر اور یک سُو ہو کر) اپنا منہ اس ذات کی طرف موڑ لیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور میں ان لوگوں میں سے ہر گز نہیں ہوں جو اس رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں۔‘‘

’’میری نماز ، میرے جملہ مراسمِ عبودیت، میری پوری زندگی اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اس حکم کے سامنے اپنا سراطاعت کے لئے جھکا تا ہوں۔‘‘

یہ ابراہیمی عہد آج پوری دنیا کے مسلمان دہراتے ہیں اور ہم اب بھی اپنے اپنے گھروں میں اس عہد پر خدا اور اس کی مخلوق کو گواہ بناتے ہیں اور اس عہد پر اپنے ایمان و یقین کو مستحکم کرنے اور اس کی عملی شہادت اور زندہ ثبوت مہیا کرنے کے لئے ہم اپنے ہاتھ سے اپنے رب کے حضور جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں… یہ عہد جس ماحول میں ہم اپنے رب سے کر رہے ہیں ،اس کی مناسبت سے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اقرار اور اعلان کرتے ہیں کہ:

(الف) … ہم دنیا کے تمام مدعیانِ الوہیت و حاکمیت اور وہ جنہیں ان کے ماننے والوں نے نفع و نقصان کے مالک سمجھ رکھا ہے اور جن سے وہ ڈرتے اور امید رکھتے ہیں ،ان سب سے منہ موڑتے ہیں، ان سے سرکشی اختیار کرتے ہیں اور ان کی خدائی سے علی الاعلان انکار کرتے ہیں۔
(ب)… ہم نے اپنی تمام تر توجہ، اپنے جذبات کا لگائو ،اپنے یقین کا محور اور اپنے قلب و نظر کا محبوب مرکز اپنے رب اور آقا کو بنا لیا ۔ وہی آقا جس نے ہم سب کو اور اس وسیع و عریض زمین و آسمان کو پیدا فرمایا، وہ ہمارا رب ہے اور ہم اس کے بندے ہیں۔
(ج)… ہم کامل یکسوئی اور ہر طرف سے کٹ کر مکمل حنیفیت کے ساتھ اپنے رب کی غلامی کا اعتراف کرتے ہیں اور ہمارے عقیدہ و عمل میں شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہے، نہ ہم اس کے سوا کسی کی خوشنودی چاہتے ہیں اور نہ ہم کسی کی خفگی و ناراضی کو لائقِ التفات سمجھتے ہیں۔
(د)… ہماری عبادات اور اعمال حتیٰ کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ، ہمارا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ ہم وہی کچھ کریں گے جس کا ہمیں حکم دیا جائے گا اور ہماری زندگیاں اس کام میں کام آئیں گی جسے کرنے کا حکم ہمارے آقا نے دیا ہے۔
(ہ)…ہمیں اطاعت ، سپردگی ، یکسوئی ، اپنے رب کے کام آنے اوراسی کے لئے اپنے آپ کو ’’ وقف‘‘ کر دینے کا حکم دیا گیا ہے اور ہم اس حکم کی اطاعت و تکمیل میں ایک دوسرے سے سبقت کے لئے دوڑتے اور لپکتے ہیں۔

یہ ہے وہ عہد جو ہم اپنے رب کے حضور کرتے ہیں۔ اس رب کے حضور جس کی نگاہ ہر وقت ہمارے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات ، دماغوں میں اُبھرنے والے احساسات اور ہمارے اعمال پر ہے اور ہم آج پھر اس عہد کی تجدید کر رہے ہیں… اب اس تجدیدِ عہد کے بعد ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں، اور اس عہد کا پورا کرنا کتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے ؟ہر وہ شخص جس کے دل میں اپنے رب کی عظمت کا تصور ہے اور جو کل اپنے مالک و آقا کے حضور پیش ہو کر اس عہد کے بارے میں سوال و جواب پر یقین رکھتا ہے، نہ تو اس سے یہ اہمیت مخفی ہے اور نہ ہی وہ اس کے تقاضوں سے غافل ہو سکتا ہے… اور یہ بات بھی ہم میں سے کسی سے پوشیدہ نہیں کہ خدائے واحد و قہار کی خدائی میں عزت و سربلندی ، کامیابی اور فلاح اس شخص اور قوم کے لئے ہے جو اپنے عہد پر پورا اُترے،اپنے قول کا سچا ہو اور اپنے اعلان کی لاج رکھے، اور ذلت و نکبت ، ناکامی و نامرادی اس بدبخت کے لئے وقف ہے جو اپنے رب سے غدر وبے وفائی کرے، اس سے کئے گئے عہد کو توڑے اور اس سے رشتۂِ اطاعت و محبت منقطع کرکے اس کے دشمنوں اور نافرمانوں کا بندہ بن جائے۔

(ہفت روزہ المنبرجلدنمبر۲: شمارہ نمبر۱۷،۱۷جون۱۹۵۹ء)

٭…٭…٭

حج بیت اللہ اورتجدیدعہد
Tagged on:                     

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *